Sunan-nasai:
The Book of Hunting and Slaughtering
(Chapter: Hyenas)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4323.
حضرت ابن ابی عمار سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہؓ سے لگڑ بگڑ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے مجھے اس کے کھانے کو کہا۔ میں نے کہا: کیا وہ شکار میں داخل ہے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: کیا آپ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ کہنے لگے: ہاں۔
تشریح:
(1) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ لگڑ بگڑ شکار ہے، اس لیے محرم شخص اس کا شکار کرے گا تو اسے اس کی مثل یعنی مینڈھا بطور فدیہ دینا پڑے گا۔ (2) اسلاف میں یہ سوچ شعوری طور پر کار فرما تھی کہ وہ اپنے سوال کا مدلل ومحکم جواب حاصل کرنے کے لیے دلیل ضرور طلب کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ ابن ابو عمار نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے یہ رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے؟ اور انھوں نے فرمایا: ہاں! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ (3) کسی بڑے سے بڑے عالم سے بھی دلیل طلب کی جا سکتی ہے۔ (4) دلیل طلب کرنا اس عالم کی توہین نہیں اور نہ اسے اپنی توہین ہی سمجھنا چاہیے بلکہ اسے بخوشی دلیل بیان کر دینی چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وسكت عليه الذهبي وإنما هو على شرط مسلم وحده لان عبد الرحمن بن أبي عمار لم يخرج له البخاري . وقد تابعه ابن جريج : أخبرني عبد الله بن عبيد بن عمير أن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي عمار أخبره قال : ( سالت جابرا فقلت : الضبع آكلها ؟ قال : نعم قال : قلت : أصيد هي ؟ قال : نعم قلت أسمعت ذاك من نبي الله صلى الله عليه وسلم ؟ قال : نعم ) . خرجه النسائي ( 2 / 27 ، 199 ) والترمذي ( 1 / 162 ) والدارمى والطحاوي وابن حبان أيضا ( 1068 ) وابن الجارود ( 438 ) والدارقطني والبيهقي وأحمد ( 3 / 318 ، 322 ) وقال الترمذي : ( حديث حسن صحيح ) . وقال في ( علله الكبرى ) :
( قال البخاري : حديث صحيح ) . كما نقله ( نصب الراية ) ( 3 / 134 ) . وتابعه أيضا اسماعيل بن أمية عن عبد الله بن عبيد به ليس فيه ذكر الكبش . أخرجه ابن ماجه ( 3236 ) والطحاوي والدارقطني وأحمد ( 3 / 297 ) وأبو يعلى ( 118 / 2 ) . قلت : وقد يبدو من هذا التخريج أن ذكر الكبش زيادة تفرد بها جرير ابن حازم فتكون شاذة وليس كذلك فقد جاءت من طريق أخرى عن جابر رضي الله عنه يرويها حسان بن ابراهيم : ثنا ابراهيم الصائغ عن عطاء عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( الضبع صيد فإذا أصابه المحرم ففيه جزاء كبش مسن ويؤكل ) . أخرجه الطحاوي ( 4 / 372 - وسقط منه متنه ) وابن خزيمة ( 2648 ) والدارقطني والحاكم والبيهقي من طرق ثلاث عن حسان به . وقال الحاكم : ( هذا حديث صحيح ولم يخرجاه وإبراهيم بن ميمون الصائغ زاهد عالم أدرك الشهادة رضي الله عنه ) . ووافقه الذهبي . قلت : وهو صحيح الاسناد كما قال الحاكم رحمه الله وعطاء هو ابن أبي رباح كما جزم بذلك الطحاوي وقول المعلق على ( المستدرك ) : ( هو عطاء بن نافع ) وهم سببه أنه رأى في ترجمته أنه روى عن جابر فتوهم أنه هو ولم يتنبه أنهم لم يذكروا في الرواة عنه ابراهيم الصائغ ولو رجع إلى ترجمة إبراهيم هذا لرأى في شيوخه عطاء بن أبي رباح . وقد أعل هذه الطريق الطحاوي بالوقف فقد رواه من طريق هشيم عن منصور بن زاذان ومن طريق زهير بن معاوية عن عبد الكريم بن مالك كلاهما عن عطاء عن جابر قال : ( في الضبع إذا أصابه المحرم كبش )
قلت : هذا الموقوف لا ينافي المرفوع لان الراوي قد ينشط أحيانا فيرفع الحديث واحيانا يوقفه ومن رفعه فهي زيادة من ثقة مقبولة وقد رفعها ثقتان احدهما ابن أبي عمار عن جابر والاخر ابراهيم الصائغ عن عطاء عنه ولا سبيل إلى توهيمهما وهما ثقتان لمجرد مخالفة منصور بن زاذان وعبد الكريم بن مالك عن عطاء وإيقافهما إياه لا سيما وفي الطريق إلى ابن زاذان هشيم وهو مدلس وقد عنعنه لكنه قد صرح بالسماع عند البيهقي ( 5 / 183 ) . وللحديث شاهد مرسل قال الشافعي ( 989 ) : ( أخبرنا سعيد عن ابن جريج عن عكرمة مولى ابن عباس يقول : أنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم ضبعا صيدا وقضي فيها كبشا ) . قلت : ورجاله ثقات وقد وصله الدارقطني ( 266 ) وعنه البيهقي من طريق أبن أبي السري نا الوليد عن ابن جريج عن عمرو بن أبي عمرو عن عكرمة عن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( الضبع صيد وجعل فيها كبشا ) . قلت : وهذا سند ضعيف من أجل ابن أبي السري واسمه محمد بن المتوكل العسقلاني فإنه ضعيف وقد أتهم . وأما أثر ابن عباس فاخرجه الشافعي ( 988 ) وعنه البيهقي : أخبرنا سعيد عن ابن جريج عن عطاء أنه سمع ابن عباس يقول : ( في الضبع كبش ) . قلت : وهذا إسناد حسن إذا كان ابن جريج سمعه من عطاء ولم يدلسه فقد روى أبو بكر بن أبي خيثمة . بسند صحيح عن ابن جريج قال : ( إذا قلت : قال عطاء فإنا سمعته منه وإن لم أقل سمعت ) . قلت : وهذه فائدة هامة جدا تدلنا على أن عنعنة ابن جريج عن عطاء في حكم السماع
ابن ماجة ( 3085 و 3236 )
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4338
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4323
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4249
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4323
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4333
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4334
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4328
تمہید کتاب
تمہید باب
وضاحت: اَلضَّبْع لگڑ بگڑ، لگڑ بھگا، لگڑ بھگڑ اور لکڑ بھگا وغیرہ، یہ سارے نام اسی کے ہیں۔ یہ ذوناب کچلیوں والا جانور ہے۔ یہ جانور انسانی گوشت کھانے کا شوقین ہوتا ہے، اس لیے یہ قبریں اکھیڑ کر مدفون لاشوں کا گوشت کھا جاتا ہے۔ کچلی والا جانور ہونے کے باوجود عموماً درندگی کا مظاہرہ کم ہی کرتا ہے، البتہ کبھیے کبھار چوہے، خرگوش اور سی قسم کے چھوٹے چھوٹے جانوروں پر حملہ آور ہو کر انھیں کھا جاتا ہے۔ لیکن یہ عادی، یعنی چیز پھاڑ کرنے والا درندہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی حتل وحرمت کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے۔ کچھ اہل علم اسے حلال کہتے ہیں، اس لیے وہ اس کا گوشت کھانا جائز قرار دیتے ہیں جبکہ بعض لوگ اس کی حرمت کے قائل ہیں۔صحابہ کرام میں سے لگڑ بگڑ کو حلال کہنے والوں میں حضرت سعد، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ کے اسمائے گرامی معروف ہیں جبکہ تابعین عظام میں سے حضرت عروہ بن زبیر، عکرمہ وغیرہ وہ نمایاں اصحاب العلم ہیں جو لگڑ بگڑ کا گوشت حلال قرار دیتے ہیں۔ حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ اہل عرب ہمیشہ سے لگڑ بگڑ کھاتے چلے آرہے ہیں اور وہ اس کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ امام شافعیاور امام احمد بن حنبل کا موقف بھی یہی ہے۔ لگڑ بگڑ کو حرام قرار دینے والوں میں سرفہرست امام ابوحنیفہ، سفیان ثوری اور امام مالکہیں، نیز جلیل القدر تابعی جناب سعید بن مسیب بھی اسے حرام ہی کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لگڑ بگڑ کچلی والا جانور ہے اور رسول اللہ ﷺ نے کچلی والے جانور کا گوشت کھانا حرام قرار دیا ہے، لہٰذا اس کا گوشت کھانا بھی حرام ہے۔ جو صحابہ کرام اور دیگر اہل علم حضرات اسے حلال کہتے ہیں ان کی دلیل اسی باب کے تحت مروی حضرت جابر بن عبداللہؓ کی حدیث ہے۔ اس حدیث میں واضح طور پر لگڑ بگڑ کو شکار قرار دیا گیا ہے اور اس کا گوشت کھانے کی اجازت خود رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے۔ بظاہر حلت و حرمت والی دونوں حدیثیں ایک دوسری کے مخالف ہیں لیکن درحقیقت ان دونوں حدیثوں میں تطبیق ممکن ہے جس کی وجہ سے ان کا تضاد ختم ہو جاتا ہے اور اپنی اپنی جگہ صحیح اور قابل عمل ٹھہرتی ہیں۔تطبیق یہ ہے کہ اصل قانون اسی طرح ہے کہ کچلی والے درندے حرام ہیں لیکن شارع ؑنے اس عام قانون میں سے لگڑ بگڑ کو مستثنیٰ قرار دے دیا ہے، اور اصول بھی ہے کہ عام پر خاص کو تقدیم حاصل ہوتی ہے لہٰذا اس کا گوشت کھانا ازروئے حدیث حلال ہے۔دلائل کے اعتبار سے لگڑ بگڑ کو حلال سمجھنے والے اہل علم کا موقف ہی مضبوط ہے۔ واللہ اعلم! تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: 23/ 202-203، وسنن ابوداود مترجم، مطبوعه دارالسلام: 3/ 943، 944)
حضرت ابن ابی عمار سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہؓ سے لگڑ بگڑ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے مجھے اس کے کھانے کو کہا۔ میں نے کہا: کیا وہ شکار میں داخل ہے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: کیا آپ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ کہنے لگے: ہاں۔
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ لگڑ بگڑ شکار ہے، اس لیے محرم شخص اس کا شکار کرے گا تو اسے اس کی مثل یعنی مینڈھا بطور فدیہ دینا پڑے گا۔ (2) اسلاف میں یہ سوچ شعوری طور پر کار فرما تھی کہ وہ اپنے سوال کا مدلل ومحکم جواب حاصل کرنے کے لیے دلیل ضرور طلب کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ ابن ابو عمار نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے یہ رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے؟ اور انھوں نے فرمایا: ہاں! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ (3) کسی بڑے سے بڑے عالم سے بھی دلیل طلب کی جا سکتی ہے۔ (4) دلیل طلب کرنا اس عالم کی توہین نہیں اور نہ اسے اپنی توہین ہی سمجھنا چاہیے بلکہ اسے بخوشی دلیل بیان کر دینی چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے لکڑ بگھا کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے اسے کھانے کا حکم دیا، میں نے کہا: کیا وہ شکار ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے کہا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے؟ کہا: ”ہاں۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : «ضبع» : ایک درندہ ہے، جو کتے سے بڑا اور اس سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے، اس کا سربڑا اور جبڑے مضبوط ہوتے ہیں، اس کی جمع «اضبع» ہے (المعجم الوسیط: ۵۳۳-۵۳۴) ہند و پاک میں اس درندے کو لکڑ بگھا کہتے ہیں، جو بھیڑیئے کی قسم کا ایک جنگلی جانور ہے، اور جسامت میں اس سے بڑا ہوتا ہے، اور اس کے کچلی کے دانت بڑے ہوتے ہیں، اس کے جسم کے بال کالے اور راکھ کے رنگ کے رنگ دھاری دار ہوتے ہیں، پیچھے بائیں پاؤں دوسرے پاؤں سے چھوٹا ہوتا ہے، اس کا سر چیتے کے سر کی طرح ہوتا ہے، لیکن اس سے چھوٹا ہوتا ہے، وہ اپنے چوڑے چکلے مضبوط جبڑوں سے شیر اور چیتوں کے سر کو توڑ سکتا ہے، اکثر رات میں نکلتا ہے، اور اپنے مجموعے کے ساتھ رہتا ہے، یہ جانور زمین میں سوراخ کر کے مختلف چھوٹے چھوٹے کمرے بناتے ہیں، اور بیچ میں ایک ہال ہوتا ہے، جس میں سارے کمروں کے دروازے ہوتے ہیں، اور ایک دروازہ اس ہال سے باہر کو جاتا ہے، نجد میں ان کی اس رہائش کو «مضبعه» یا «مجفره» کہتے ہیں، ماں پورے خاندان کی نگران ہوتی ہے، اور سب کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے، اور نر سوراخ کے کنارے پر چھوٹوں کی نگرانی کرتا ہے، یہ جانور مردہ کھاتا ہے، لیکن شکار کبھی نہیں کرتا اور کسی پر حملہ بھی نہیں کرتا إلا یہ کہ کوئی اس پر حملہ آور ہو، یہ جانوروں کے پیچھے رہتا ہے، اس کی گردن سیدھی ہوتی ہے، اس لیے دائیں بائیں جسم موڑے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اہل نجد کے یہاں یہ جانور کھایا جاتا تھا اور لوگ اس کا شکار کرتے تھے، میں نے اس کے بارے میں اپنے ایک دوست ڈاکٹر محمد احمد المنیع پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور بذات خود صحرائی جانور کا تجربہ رکھتے ہیں، سے پوچھا تو انہوں نے مذکورہ بالا تفصیلات سے مجھے آگاہ کیا اور اس کے زمین کے اندر کے گھر کا نقشہ بھی بنا کر دکھایا ۔ اس کے گھر کو ماند اور کھوہ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ تفصیل اس واسطے درج کی جاری ہے کہ مولانا وحیدالزماں نے «ضبع» کا ترجمہ بجو سے کیا ہے، فرماتے ہیں: فارسی زبان میں اسے ”کفتار“ اور ہندی میں بجو کہتے ہیں، یہ گوشت خور جانور ہے، جو بلوں میں رہتا ہے، مولانا محمد عبدہ الفلاح فیروز پوری کہتے ہیں کہ «ضبع» سے مراد بجو نہیں ہے بلکہ اس نوع کا ایک جانور ہے جسے شکار کیا جاتا ہے، اور اس کو لکڑ بگڑکھا کہا جاتا ہے، جو سابقہ ریاست سندھ اور بہاولپور میں پایا جاتا ہے۔ اوپر کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث میں مذکور ضبع سے مراد لکڑ بگھا ہے، بجو نہیں، شاید مولانا وحید الزماں کے سامنے دمیری کی حیاۃ الحیوان تھی جس میں «ضبع» کی تعریف بجو سے کی گئی ہے، اور شیخ صالح الفوزان نے بھی حیاۃ الحیوان سے نقل کر کے یہی لکھا ہے، مولانا وحید الزماں بجو کے بارے میں فرماتے ہیں: ”اس سے صاف نکلتا ہے کہ بجو حلال ہے، امام شافعی کا یہی قول ہے، اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ وہ دانت والا درندہ ہے، تو اور درندوں کی طرح حرام ہو گا، اور جب حلت اور حرمت میں تعارض ہو تو اس سے باز رہنا بھی احتیاط ہے“، سابقہ تفصیلات کی روشنی میں ہمارے یہاں لکڑ بگھا ہی «ضبع» کا صحیح مصداق ہے، اور اس کا شکار کرنا اور اس کو کھانا صحیح حدیث کی روشنی میں جائز ہے۔ واضح رہے کہ چیر پھاڑ کرنے والے حیوانات حرام ہے، یعنی جس کی کچلی ہوتی ہے، اور جس سے وہ چیر پھاڑ کرتا ہے، جیسے: کتا، بلی جن کا شمار گھریلو یا پالتو جانور میں ہے اور وحشی جانور جیسے: شیر، بھیڑیا، چیتا، تیندوا، لومڑی، جنگلی بلی، گلہری، بھالو، بندر، ہاتھی، سمور (نیولے کے مشابہ اور اس سے کچھ بڑا اور رنگ سرخ سیاہی مائل) گیدڑ وغیرہ وغیرہ۔ حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے یہاں یہ سارے جانور حرام ہیں، اور مالکیہ کا ایک قول بھی ایسے ہی ہے، لکڑ بگھا اور لومڑی ابویوسف اور محمد بن حسن کے نزدیک حلال ہے، جمہور علماء ان حیوانات کی حرمت کے دلیل میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر کچلی والے درندے کا کھانا حرام ہے“ (صحیح مسلم و موطا امام مالك)۔ لکڑ بگھا حنابلہ کے یہاں صحیح حدیث کی بنا پر حلال ہے، کچلی والے درندے میں سے صرف لکڑ بگھا کو حرمت کے حکم سے مستثنی کرنے والوں کی دلیل اس سلسلے میں وارد احادیث و آثار ہیں، جن میں سے زیر نظر جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جو صحیح ہے بلکہ امام بخاری نے بھی اس کی تصحیح فرمائی ہے (کمافي التلخیص الحبیر: ۴/۱۵۲)، نافع مولیٰ ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر کو یہ بتایا کہ سعد بن ابی وقاص لکڑ بگھا کھاتے ہیں تو ابن عمر نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔ مالکیہ کے یہاں ان درندوں کا کھانا حلال ہے، ان کا استدلال اس آیت کریمہ سے ہے: «قُلْ لا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ»(سورة الأنعام: ۱۴۵) ان آیات میں درندوں کے گوشت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، اس لیے یہ حلال ہوں گے اور ہر کچلی والے درندے کے گوشت کھانے سے ممانعت والی حدیث کراہت پر محمول کی جائے گی۔ خلاصہ یہ کہ مالکیہ کے علاوہ صرف حنبلی مذہب میں صحیح حدیث کی بنا پر لکڑ بگھا حلال ہے (ملاحظہ ہو: الموسوعة الفقهیة الکویتیة: ۵/۱۳۳-۱۳۴)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn Abi 'Ammar said: "I asked Jabir bin 'Abdullah about hyenas and he told me to eat them. I said: 'Are they game that can be hunted)? He said: 'Yes,' I said: 'Did you hear that form the Messenger of Allah (ﷺ) He said: 'Yes.