Sunan-nasai:
The Book of Hunting and Slaughtering
(Chapter: Permissibility Ofg Eating The Flesh Of Chickens)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4346.
حضرت زہدم سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ ؓ کے پاس ایک مرغ لایا گیا۔ ایک شخص ایک طرف کو ہٹ گیا (باقی لوگ کھانے لگے)۔ حضرت ابو موسیٰ ؓ کہنے لگے: تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا: میں نے اسے گندگی کھاتے دیکھا ہے، اس لیے مجھے اس سے نفرت ہوگئی ہے۔ تو میں نے قسم کھا لی تھی کہ مرغ کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ حضرت ابو موسیٰ ؓ فرمانے لگے: قریب آکر کھا کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مرغ کھاتے دیکھا ہے، پھر آپ نے اسے اپنی قسم کا کفارہ ادا کرنے کو کہا۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے خود مرغ کا گوشت کھایا ہے، اس لیے اس کا گوشت کھانے میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ بعض لوگ، اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمتوں کے استعمال سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہیں کیونکہ وہ اس کو تقویٰ کے منافی خیال کرتے ہیں۔ یاد رہے اللہ تعالیٰ کو ایسا ”اندھا“ تقویٰ قطعاً مطلوب نہیں جو اسوۂ رسول ﷺ سے ٹکراتا ہو، بلکہ اصل تقویٰ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فیض یاب اور مستفید ہو کر، کما حقہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔ (2) اگر کوئی جانور یا پرندہ اس قدر زیادہ گدنگی کھاتا ہو کہ اس کا اثر اس جانور کے دودھ اور گوشت میں محسوس ہو تو ایسا جانور اس وقت تک استعمال میں نہ لایا جائے جب تک اس سے گندگی کا اثر (بو وغیرہ) زائل نہ ہو جائے۔ جب گندگی کا اثر زائل ہو جائے تو ایسے جانور یا پرندے کا گوشت اور دودھ، بلا تردد، استعمال کرنا مباح اور جائز ہے۔ ہاں، البتہ جو جانور تھوڑی بہت گندگی کھاتے رہتے ہوں اور اس کا اثر ان میں نہ ہو تو اس کو کھا لینے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا عمل اس کی واضح دلیل ہے۔ (3) صاحب طعام کو چاہیے کہ آنے والے شخص کو کھانا کھانے کی دعوت دے، اسے اپنے قریب بٹھائے اور کھانا پیش کرے، خواہ کھانا تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ جب زیادہ لوگ کھانا کھائیں گے تو اس میں زیادہ برکت ہوگی، اس لیے کہ اجتماعی طور پر کھانا کھانے میں برکت ہی ہوتی ہے۔ (4) ”میں نے اسے“ مراد وہ خاص مرغ نہیں جو بھون کر لایا گیا تھا بلکہ عام مراد ہے، یعنی مرغ گندگی کھاتے ہیں، لہٰذا میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ مرغ کچھ نہ کچھ گندگی کھاتے ہی ہیں۔ اس کے باوجود میں نے رسول اللہ ﷺ کو مرغ کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ معلوم ہوا، اتنی گندگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ اگر کوئی جانور اس قدر گندگی کھاتا ہو کہ اس کے گوشت یا دودھ میں گندگی کا رنگ، بو یا ذائقہ محسوس ہو تو پھر اس جانور کا گوشت کھانا یا اس کا دودھ پینا حرام ہے۔ اس سے کم میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ أعلم
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4361
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4346
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4271
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4346
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4356
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
حضرت زہدم سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ ؓ کے پاس ایک مرغ لایا گیا۔ ایک شخص ایک طرف کو ہٹ گیا (باقی لوگ کھانے لگے)۔ حضرت ابو موسیٰ ؓ کہنے لگے: تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا: میں نے اسے گندگی کھاتے دیکھا ہے، اس لیے مجھے اس سے نفرت ہوگئی ہے۔ تو میں نے قسم کھا لی تھی کہ مرغ کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ حضرت ابو موسیٰ ؓ فرمانے لگے: قریب آکر کھا کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مرغ کھاتے دیکھا ہے، پھر آپ نے اسے اپنی قسم کا کفارہ ادا کرنے کو کہا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے خود مرغ کا گوشت کھایا ہے، اس لیے اس کا گوشت کھانے میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ بعض لوگ، اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمتوں کے استعمال سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہیں کیونکہ وہ اس کو تقویٰ کے منافی خیال کرتے ہیں۔ یاد رہے اللہ تعالیٰ کو ایسا ”اندھا“ تقویٰ قطعاً مطلوب نہیں جو اسوۂ رسول ﷺ سے ٹکراتا ہو، بلکہ اصل تقویٰ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فیض یاب اور مستفید ہو کر، کما حقہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔ (2) اگر کوئی جانور یا پرندہ اس قدر زیادہ گدنگی کھاتا ہو کہ اس کا اثر اس جانور کے دودھ اور گوشت میں محسوس ہو تو ایسا جانور اس وقت تک استعمال میں نہ لایا جائے جب تک اس سے گندگی کا اثر (بو وغیرہ) زائل نہ ہو جائے۔ جب گندگی کا اثر زائل ہو جائے تو ایسے جانور یا پرندے کا گوشت اور دودھ، بلا تردد، استعمال کرنا مباح اور جائز ہے۔ ہاں، البتہ جو جانور تھوڑی بہت گندگی کھاتے رہتے ہوں اور اس کا اثر ان میں نہ ہو تو اس کو کھا لینے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا عمل اس کی واضح دلیل ہے۔ (3) صاحب طعام کو چاہیے کہ آنے والے شخص کو کھانا کھانے کی دعوت دے، اسے اپنے قریب بٹھائے اور کھانا پیش کرے، خواہ کھانا تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ جب زیادہ لوگ کھانا کھائیں گے تو اس میں زیادہ برکت ہوگی، اس لیے کہ اجتماعی طور پر کھانا کھانے میں برکت ہی ہوتی ہے۔ (4) ”میں نے اسے“ مراد وہ خاص مرغ نہیں جو بھون کر لایا گیا تھا بلکہ عام مراد ہے، یعنی مرغ گندگی کھاتے ہیں، لہٰذا میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ مرغ کچھ نہ کچھ گندگی کھاتے ہی ہیں۔ اس کے باوجود میں نے رسول اللہ ﷺ کو مرغ کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ معلوم ہوا، اتنی گندگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ اگر کوئی جانور اس قدر گندگی کھاتا ہو کہ اس کے گوشت یا دودھ میں گندگی کا رنگ، بو یا ذائقہ محسوس ہو تو پھر اس جانور کا گوشت کھانا یا اس کا دودھ پینا حرام ہے۔ اس سے کم میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زہدم سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ ؓ کے پاس ایک مرغی لائی گئی تو لوگوں میں سے ایک شخص وہاں سے ہٹ گیا، ابوموسیٰ اشعری ؓ نے پوچھا: کیا بات ہے؟ وہ بولا: میں نے اسے دیکھا کہ وہ کوئی چیز کھا رہی تھی تو میں نے اس کو گندہ سمجھا اور قسم کھا لی کہ میں اسے نہیں کھاؤں گا، ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا: قریب آؤ اور کھاؤ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسے کھاتے دیکھا ہے، اور اسے حکم دیا کہ وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Zahdam that: some chicken was brought to AbuMusa and a man moved away form the people. He said: "What is the matter with You?" He said: "I saw it eating something that I consider filthy, and I swore I would not eat it." Abu Musa said: "Come and eat, for I saw the Messenger of Allah (ﷺ) eating it." And he told him to offer expiation for his vow (Kafarat Al- Yamin)