Sunan-nasai:
The Book of Hunting and Slaughtering
(Chapter: Dead Meat From The Sea)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4350.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سمندر کے پانی کے بارے میں فرمایا: ”سمندر کا پانی طاہر ومطہر ہے اور اس کا جانور بلا ذبح حلال ہے۔“
تشریح:
(1) سمندر کا پانی ذائقے کے لحاظ سے عام پانی سے مختلف ہوتا ہے۔ اس میں رہنے والے جانوروں اور سفر کرنے والے انسانوں کی گندگی پانی ہی میں رہتی ہے۔ اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو وہ بھی پانی میں ہی گلتا سڑتا ہے۔ اس سے یہ شبہ پڑ سکتا ہے کہ شاید وہ پاک نہ ہو، اس لیے آپ نے یہ ارشاد فرمایا کیونکہ اولاً تو وہ انتہائی کثیر پانی ہے۔ ثانیاً اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ نہ تو پانی متعفن ہوتا ہے اور نہ کوئی آلودگی اپنا اثر چھوڑتی ہے۔ واللہ عزیز حكيم۔ (2) ”طاہر ومطہر“ عربی میں لفظ طہور استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنیٰ ہیں، خود بھی پاک، دوسری چیزوں کو بھی پاک کرنے والا۔ (3) ”بلا ذبح حلال ہے“ عربی میں لفظ مَیْتَۃَ استعمال ہوا ہے، یعنی جو بغیر ذبح کیے مر جائے، مثلاً: جسے شکار کیا جائے یا جو طبعی موت پانی میں مر جائے۔ احناف طبعی موت والے آبی جانور کی حلت کے قائل نہیں لیکن حدیث کے الفاظ عام ہیں۔ اسی طرح یہ حدیث ہر آبی جانور کو شامل ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں جبکہ امام مالک صرف ان آبی جانوروں کو حلال سمجھتے ہیں جن کے نام کے جانور خشکی میں حلال ہیں۔ اور احناف صرف مچھلی کو حلال سمجھتے ہیں، کیونکہ بعض روایات میں مچھلی کا لفظ مذکور ہے لیکن قرآن وحدیث کے الفاظ عام ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ اس مفہوم کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔ ارشاد باری ہے: ﴿أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْر﴾(المآئدة: ۵: ۹۶) (4) آبی جانوروں کو ذبح کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ اس میں خون نہیں ہوتا۔ اور ذبح خون نکالنے کے لیے ہوتا ہے۔ باقی رہا وہ سرخ محلول جو مچھلی وغیرہ سے زخم کے وقت نکلتا ہے تو اس میں خون کی خصوصیات نہیں پائی جاتیں، مثلاً: اسے دھوپ میں رہنے دیا جائے تو وہ سفید ہو جائے گا جبکہ خون تو سیاہ ہو کر جم جاتا ہے اور حرام خون ہی ہے، لہٰذا اسے ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4365
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4350
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4275
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4350
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4360
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سمندر کے پانی کے بارے میں فرمایا: ”سمندر کا پانی طاہر ومطہر ہے اور اس کا جانور بلا ذبح حلال ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) سمندر کا پانی ذائقے کے لحاظ سے عام پانی سے مختلف ہوتا ہے۔ اس میں رہنے والے جانوروں اور سفر کرنے والے انسانوں کی گندگی پانی ہی میں رہتی ہے۔ اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو وہ بھی پانی میں ہی گلتا سڑتا ہے۔ اس سے یہ شبہ پڑ سکتا ہے کہ شاید وہ پاک نہ ہو، اس لیے آپ نے یہ ارشاد فرمایا کیونکہ اولاً تو وہ انتہائی کثیر پانی ہے۔ ثانیاً اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ نہ تو پانی متعفن ہوتا ہے اور نہ کوئی آلودگی اپنا اثر چھوڑتی ہے۔ واللہ عزیز حكيم۔ (2) ”طاہر ومطہر“ عربی میں لفظ طہور استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنیٰ ہیں، خود بھی پاک، دوسری چیزوں کو بھی پاک کرنے والا۔ (3) ”بلا ذبح حلال ہے“ عربی میں لفظ مَیْتَۃَ استعمال ہوا ہے، یعنی جو بغیر ذبح کیے مر جائے، مثلاً: جسے شکار کیا جائے یا جو طبعی موت پانی میں مر جائے۔ احناف طبعی موت والے آبی جانور کی حلت کے قائل نہیں لیکن حدیث کے الفاظ عام ہیں۔ اسی طرح یہ حدیث ہر آبی جانور کو شامل ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں جبکہ امام مالک صرف ان آبی جانوروں کو حلال سمجھتے ہیں جن کے نام کے جانور خشکی میں حلال ہیں۔ اور احناف صرف مچھلی کو حلال سمجھتے ہیں، کیونکہ بعض روایات میں مچھلی کا لفظ مذکور ہے لیکن قرآن وحدیث کے الفاظ عام ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ اس مفہوم کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔ ارشاد باری ہے: ﴿أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْر﴾(المآئدة: ۵: ۹۶) (4) آبی جانوروں کو ذبح کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ اس میں خون نہیں ہوتا۔ اور ذبح خون نکالنے کے لیے ہوتا ہے۔ باقی رہا وہ سرخ محلول جو مچھلی وغیرہ سے زخم کے وقت نکلتا ہے تو اس میں خون کی خصوصیات نہیں پائی جاتیں، مثلاً: اسے دھوپ میں رہنے دیا جائے تو وہ سفید ہو جائے گا جبکہ خون تو سیاہ ہو کر جم جاتا ہے اور حرام خون ہی ہے، لہٰذا اسے ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے سمندر کے پانی کے سلسلے میں فرمایا: ”اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : سمندر کا مردار حلال ہے اس سے مراد سمندر کے وہ حلال جانور ہیں جو کسی صدمہ سے مر گئے اور سمندر نے ان کو ساحل کی طرف بہا دیا ہو اسی کو قرآن میں: «أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ»(المائدة : ۹۶) میں طَعام سے مراد لیا گیا ہے، یاد رہے سمندری جانور وہ کہلاتا ہے جو خشکی میں زندگی نہ گزار سکے جیسے مچھلی ۔ مچھلی کی تمام اقسام حلال ہیں، دیگر جانور اگر مضر اور خبیث ہیں یا ان کے بارے میں نص شرعی وارد ہے تو حرام ہیں اگر کسی جانور کا نص شرعی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کھانا ثابت نہیں ہے، جبکہ وہ جانور ان کے زمانہ میں موجود تھا تو اس کے نہ کھانے کے بارے میں ان کی اقتداء ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah, that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) (said), concerning the water of the sea: "Its water is pure (and Purification) and its 'dead meat' is permissible (to eat).