امام نسائی نے اپنی کتاب سنن نسائی کی ترتیب اس طرح فرمائی ہے کہ کتاب الصید والذبائح (شکار اور ذبیحوں کے مسائل بیان کرنے) کے بعد کتاب الضحایا یعنی قربانی کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ ان دونوں کتابوں (الصید والذبائح اور الضحایا) میں مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ ان میں ماکول اللحم حیوانات، یعنی جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے، ان کا خون بہانے اور انھیں ذبح کرنے کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ ایسے تمام حلال جانور اور پرندے وغیرہ جن کا شکار شریعت نے مباح اور جائز قرار دیا ہے، جب وہ زندہ حالت میں پکڑ جائیں تو ان کا گوشت کھانے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں ذبح کیا جائے، بصورت دیگر ان کا گوشت کھانا حرام اور ناجائز ہے۔ یہی حکم دوسرے جانوروں اور پرندوں کا ہے، انسان انھیں ذبح کرے اور ان کا گوشت کھا لے، وگرنہ ذبح نہ کرنے کی صورت میں انھیں کھانا حلال نہیں۔ البتہ شکار کیے جانے والے جانور کو اگر تکبیر پڑھ کر شکار کیا جائے اور وہ مر بھی جائے تب بھی حلال ہوگا۔ المختصر خشکی کا جو بھی حلال جانور، بغیر ذبح کیے، اپنی موت آپ مر جائے، اس کا گوشت کھانا حرام ہے، سوائے مکڑی کے۔ یہی وجہ ہے کہ جس جانور کو ذبح کیا جائے اسے ’’مردار‘‘ نہیں کہا جاتا جبکہ ذبح کے بغیر مرنے والا جانور مردار ہی کہلاتا ہے اور مردار جانور کا گوشت کھانا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ قرآن وحدیث میں اس مسئلے کی پوری وضاحت موجود ہے۔ بوقت ضرورت حلال جانور ذبح کیے جاتے ہیں اور ان کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ امام نسائی نے الصید والذبائح کے متعلق مسائل کو اسی لیے پہلے بیان فرمایا ہے کیونکہ شکار کے لیے کوئی وقت مخصوص نہیں۔ شکار کرنا سارا سال جائز اور مباح ہے لیکن قربانی کا جانور چونکہ عام دنوں میں ذبح نہیں کیا جاتا بلکہ صرف خاص دنوں، یعنی دس ذوالحجہ اور ایام تشریق (گیارہ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ) میں ذبح کیا جا سکتا ہے، اس لیے یہ ذبح، عام ذبح نہیں بلکہ خاص ہے، اس لیے عام ذبیحوں کے مسائل بیان کرنے کے بعد اس خاص ذبیحہ کے مسائل ذکر کیے گئے ہیں جسے قربانی کہا جاتا ہے، نیز یہ جانور محض گوشت کھانے کے لیے نہیں بلکہ قرب الٰہی کے حصول کی خاطر ذبح کیا جاتا ہے۔٭ لغوی معنی: [الاضحية: اِسْمٌ لِمَا یُذْبَحُ أَیَّامَ الْأَضْحٰی] اضحیہ لغت میں اس جانور کو کہتے ہیں جسے یوم الاضحیٰ میں ذبح کیا جاتا ہے۔قاضی عیاض کہتے ہیں کہ یوم الاضحیٰ کے متعلق کہا گیا ہے کہ اسے یوم الاضحیٰ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ قربانی چاشت، یعنی ضحیٰ کے وقت کی جاتی ہے، اس لیے اسی مناسبت سے قربانی کے دن کو بھی یوم الاضحیٰ کہا جاتا ہے۔٭ اصطلاحی معنی: [هِىَ ذَبْحُ حَیَوَانٍ مَّخْصُوْصٍ بِنِيَّةِِ الْقُرْ بَةِ فِی وَقْتٍ مَّخْصُوصِ أوْ مَا یُذْبَحُ مِنَ النَّعَمِ تَقَرُّبًا اِلَی اللهِ تَعَالٰی فِی أَیَّامِ النَّحْرِ] (الفقه الاسلامی وادلته: 3/ 594) (اصطلاحِ شریعت میں) قربانی سے مراد، وہ مخصوص جانور ہے جسے ایک خاص وقت پر، قرب الٰہی کے حصول کے لیے ذبح کیا جائے یا قربانی سے مراد وہ مخصوص چوپائے ہیں جو قربانی کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کیے جائیں۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ قربانی سے مراد شریعت کی متعین کردہ خاص صفات کا حامل وہ جانور ہے جسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے، قربانی کے دنوں میں ذبح کیا جائے۔٭ قربانی کی مشروعیت: زکاۃ اور نماز عیدین کی طرح قربانی کا حکم بھی سن 2 ہجری میں نازل ہوا۔ دیکھیے: (الفقه الاسلامی وادلته: 3/ 594 قربانی کی مشروعیت قرآن کریم، حدیث رسول اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ امام ابن قدامہ ’’المغنی‘‘ میں فرماتے ہیں: [اَلْأَصْلُ فِی مَشْرُوعِيَةِ الْأُضْحِيَّةِ الْکِتَابُ وَالسُنِّةُ وَالْاِجْمَاعُ] (المغنی لابن قدامة: 13/ 360) ’’قربانی کی مشروعیت کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہے۔‘‘قرآن کریم سے قربانی کی مشروعیت بڑی واضح ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ} (الکوثر 108: 2)’’(اے پیغمبر!) آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔‘‘حدیث رسول اللہ ﷺ سے بھی قربانی کی مشروعیت واضح طور پر ثابت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے خادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: [أَنَّ النَّبِیَّﷺ کَانَ یُضَحِّی ِبَکْبَشْیِن أَمْلَحَیْنِ أَقْرَنَیْنِ، وَیَضْعُ رِجْلَهُ عَلٰی صَفْحَتِھِمَا وَیَذْبَحُھُمَا بِیَدِہٖ] ’’بلا شبہ نبی ﷺ چتکبرے، سینگوں والے دو مینڈھے قربانی کیا کرتے تھے اور آپ ان کے پہلوؤں پر اپنا پاؤں مبارک رکھتے اور اپنے ہاتھ مبارک سے انھیں ذبح کرتے تھے۔‘‘ (صحیح البخاری، الاضاحی، حدیث: ۵۵۶۴، وصحیح مسلم، الاضاحی، حدیث: 1966)قرآن وسنت کے ساتھ ساتھ قربانی اجماع امت سے بھی ثابت ہے۔ نبی ﷺ کے عہد مبارک سے لے کر آج تک ساری امت مسلمہ قربانی کرتی چلی آرہی ہے اور ان شاء اللہ یہ زریں سلسلہ تا قیامت جاری و ساری رہےگا۔٭قربانی کی حکمتیں: یوں تو قربانی کی بہت سی حکمتیں ہیں لیکن ذیل میں ہم چند ایک اہم حکمتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ قربانی کی سب سے بڑی حکمت تو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے۔ ایک مومن کی شان ہی یہ ہے کہ وہ ہر وقت اور ہر حال میں اپنے خالق ومالک کی خوشنودی کا خواہاں اور متلاشی ہو۔ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: { قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} (الانعام 6: 162)’’(اے پیغمبر!) کہہ دیجئے، بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت (سب) اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘قربانی سے معاشرے کے ناداروں، فقراء ومساکین، بیواؤں اور یتیموں، نیز ضرورت مندروں اور محتاج افراد کی مدد ہوتی ہے۔ ان کے دکھ درد کا کچھ نہ کچھ ازالہ ہوتا ہے اور اس سے کچھ وقت کے لیے ان کے راحت وسکون کا سامان پیدا ہو جاتا ہے۔ قربانی سے جدا الانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی عظیم، انوکھی اور بے لوث سنت کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے آنے والے بہت سے مصائب و مشکلات کو ہم سے ٹال دیتا ہے، نیز ہمیں سکون اور قرار کی دولت عطا فرماتا ہے۔ قربانی کرنے سے انسان کے اندر قناعت اور ایثار کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ وسائل کو اس کی رضا کے حصول کی خاطر خرچ کرنے سے اس کا شکر ادا ہوتا ہے۔ اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری اور دنبہ چھترا وغیرہ چوپائے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان اور انعام ہیں، لہٰذا شریعت کے متعین کردہ چوپایوں میں سال بعد کم از کم ایک مخصوص صفات وخصوصیات کا حامل چوپایہ، اللہ کو خوش کرنے کے لیے ذبح کرنے سے جانوروں کی شکل میں عطا کی ہوئی نعمت کا شکر ادا ہو جاتا ہے، اس لیے اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے قربانی کرنی چاہیے۔٭ قربانی کے چند اہم احکام ومسائل: (۱) قربانی کے لیے مسنہ (دو دانتا) جانور ضروری ہے، یعنی جس کے دودھ کے دانت گر کرد و نئے دانت آگئے ہوں، تاہم اگر دو دانتا جانور نہ مل سکے تو صرف بھیڑ کا ’’کھیرا‘‘ بھی قربانی میں ذبح کیا جا سکتا ہے، البتہ دو دانتا افضل ضرور ہے۔(2)رسول اللہ ﷺ چتکبرے، سینگوں والے اور خصی کیے ہوئے دو مینڈھے ذبح فرمایا کرتے تھے، اس لیے اتباع سنت کے کماحقہ تقاضے پورے کرنے کے لیے اسی قسم کے مینڈھے تلاش کرنا مستحب ہے۔(3)خصی جانور کی قربانی درست ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے کود ایسے جانور کی قربانی کی ہے۔ مزید برآں یہ کہ خصی جانور، غیر خصی جانور کی نسبت زیادہ موٹا تازہ اور صحت مند ہوتا ہے۔(4) ایسا جانور جو لنگڑا لولا، اندھا کانا، بیمار ولاغر، کان کٹا یا چرا ہو، نیز کان میں سوراخ والا اور اسی طرح جس جانور کا تھن ضائع ہو چکا ہو یا اس کا سینگ ٹوٹ گیا ہو یا کسی بھی قسم کا واضح عیب زدہ جانور قربانی کا اہل نہیں ہوگا۔(5) دس ذوالحجہ کے دن قربانی کرنے سے افضل اور کوئی بھی عمل نہیں، تاہم ایام تشریق، یعنی گیارہ، بارہ اور تیرہ کو بھی قربانی ہو سکتی ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ عید کے روز ہی قربانی کی جائے اگرچہ باقی تین دنوں میں بھی جائز ہے۔(6)قربانی کا جانور، نماز عید کے بعد ذبح کیا جانا ضروری ہے۔ عید کی نماز سے پہلے ذبح کیے ہوئے جانور کی قربانی، اللہ تعالیٰ کے ہاں قطعاً قابل قبول نہیں، اس لیے جو لوگ صبح سویرے، نماز عید سے قبل ہی جانور ذبح کر لیتے ہیں وہ صرف گوشت والا جانور ہی ذبح کرتے ہیں۔ اس سے فریضہ قربانی ادا نہیں ہوتا۔(7) تمام اہل خانہ (سارے گھر والوں) کی طرف سے ایک ہی جانور یعنی بکرا، بکری، دنبہ، مینڈھا، چھترا یا چھتری کافی ہوتا ہے۔ زیادہ جانور قربان کرنا یا ایک بڑا چوپایہ ذبح کرنا افضل اور زیادہ اجر و ثواب، یعنی سات قربانیاں کرنے کے برابر ہے۔(8) قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا مسنون اور افضل عمل ہے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے ہاتھ مبارک ہی سے قربانی کے جانور ذبح فرمایا کرتے تھے، حتی کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ نے خود تریسٹھ اونٹ نحر کیے تھے۔(9)قربانی کا جانور موٹا تازہ اور حسب استطاعت قیمتی ہونا چاہیے اور اسے ذبح کرتے وقت قبلہ رخ کرنا چاہیے، نیز قربانی کا جانور تیز چھری ہی سے ذبح کرنا چاہیے۔(10)قربانی کرنے والے شخص کے لیے ضروری ہے کہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد اپنے ناخن اور بال وغیرہ نہ اتارے۔ تمام اہل خانہ کو اس حکم کی پابندی کرنی چاہیے کیونکہ قربانی تمام گھر والوں کی طرف سے ہوتی ہے۔(11)قربانی کا گوشت خود کھانا، غربائ، فقراء ومساکین اور محتاجوں کو کھلانا، نیز اپنے عزیز واقارب کو ہدیہ کرنا مستحب اور پسندیدہ ہے، تاہم قربانی کا گوشت اور اس کی کھال یا چمڑا قصاب کو بطور اجرت دینا ناجائز ہے۔ قصاب اگر مستحق ہو تو اسے بھی قربانی کا گوشت دیا جا سکتا ہے، اسی طرح چمڑا اور کھال بھی اسے دی جا سکتی ہے۔ بشرطیکہ وہ اس کا مستحق ہو۔(12)اونٹ اور گائے کی قربانی میں سات گھرانے شریک ہو سکتے ہیں جبکہ اونٹ میں دس افراد بھی شامل ہو سکتے ہیں۔(13)حاملہ (گابھن) جانور کی قربانی بھی جائز ہے۔ ایسے جانور کو ذبح کرنے کے بعد اگر اس کے پیٹ سے زندہ بچہ نکلے تو قربانی کرنے والا شخص اگر چاہے تو اسے ذبح کر لے اور اگر چاہے تو ذبح نہ کرے بلکہ اسے زندہ رہنے دے۔ اس کو ’’قربان کرنا‘‘ ضروری نہیں کیونکہ قربانی کرنے والے شخص نے اس بچے کی ماں کو قربانی کے لیے متعین کیا تھا اس بچے کو نہیں۔ ہاں البتہ اگر ذبح کرنے کے بعد حاملہ کے پیٹ سے مردہ بچہ برآمد ہو تو ذبح کیے بغیر ہی اس کا گوشت کھایا جا سکتا ہے۔ اس کی ماں کو ذبح کرنا ہی اس بچے کو کفایت کر جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: [ذَکَاۃُ الْجَنِینِ ذَکَاۃُ اُمِّه] ’’بچے کا ذبح کرنا اس کی ماں کے ذبح کرنے میں ہے۔‘‘ (مسند احمد: 3/ 39، وسنن ابی داود، الضحایا، حدیث: 2828 اور اگر طبعی کراہت وغیرہ کی وجہ سے کوئی شخص اس کا گوشت نہ کھانا چاہے تو بھی کوئی حرج نہیں ہوگا۔
(14) قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت درج ذیل دعا پڑھنی چاہیے:
[إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، حَنِيفًا مُسْلِمًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي، وَنُسُكِي، وَمَحْيَايَ، وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ، وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ، بِسْمِ اللهِ، واللهُ أَكْبَرُ، (1) اللهُمَّ مِنْكَ، وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ، وَأُمَّتِهِ ] (مسند احمد: 3/ 375 وسنن ابی داود، الضحایا، حدیث: 2795، واللفظ له)دعا میں مذکور الفاظ میں عَنْ مُحَمَّدٍ وَّأُمَّتِه کے بجائے اپنا اور اپنے اہل وعیال کا نام لے، یعنی یوں کہے: عَنِّی وَأْھِلِ بَیْتِی یا جس کی طرف سے ذبح کر رہا ہے اس کا نام لے۔ دعا کا مفہوم درج ذیل ہے: ’’میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کر لیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ہے۔ میں یکسو ہو کر ملت ابراہیم( علیہ السلام ) پر ہوں، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ یقینا میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں اطاعت گزاروں میں سے ہوں۔ اے اللہ! (یہ قربانی) تیری طرف سے ہے اور تیرے ہی لیے ہے۔ اسے محمد( ﷺ ) اور اس کی امت کی طرف سے قبول فرما۔ اللہ کے نام سے (ذبح کرتا ہوں) اور اللہ سب سے بڑا ہے۔‘‘ [عَنِّی وأَھْلِ بَیْتِی] کا مفہوم ہوگا: (یہ قربانی) میری اور میرے گھر والوں کی طرف سے ہے۔ اسلام میں ذوالحجہ کی دس تاریخ کو قربانی کرنا عام مسلمانوں پر واجب یا کم از کم سنت موکدہ ہے۔ لیکن سہولت کے لیے ایک گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی کفایت کر جاتی ہے۔ حج کو جانے والے حضرات کے لیے بھی قربانی سنت ہے مگر جو شخص حج کے ساتھ عمرہ بھی حج کے دنوں میں ہی کرے، اس کے لیے قربانی واجب ہے۔ قربانی کے دنوں کے علاوہ بھی اگر کسی دن کوئی شخص نفلی قربانی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ اسے صدقہ کہا جاتا ہے، البتہ اس میں پابندی ہے کہ اسے صرف مستحقین صدقہ کھا سکتے ہیں۔ جبکہ دس ذوالحجہ والی قربانی امیر وغریب سب لوگ بلا امتیاز کھا سکتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری ہے:{ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ} (الحج 22: 28)’’تم (خود) ان میں سے کھاؤ اور فاقہ کش وتنگ دست فقیر کو (بھی) کھلاؤ۔‘‘ اور یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی کرم نوازی ہے۔ پہلی امتوں میں خود کھانے کی اجازت نہیں تھی۔قربانی ہر امت میں رہی ہے۔ اس کا راز یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس کا عملی اظہار ہر سال قربانی کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کی سنیت پر صحابہ سے لے کر ہر دور کے علماء اور عوام کا اجماع رہا ہے۔ البتہ ماضی قریب کے بعض ملحدین نے قربانی پر اعتراضات کیے ہیں کہ ہر سال ایک دن میں اتنے جانور ضائع کر دیے جاتے ہیں۔ اس کی بجائے یہی رقم اکٹھی کر کے مستحقین پر خرچ کرنی چاہیے۔ حالانکہ قربانی میں صرف رقم ہی خرچ نہیں ہوتی بلکہ قربانی کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے جسے اللہ کے نام پر چھری چلانے والا ہی محسوس کر سکتا ہے، پھر یہ ممکن ہی نہیں کہ قربانی پر خرچ ہونے والی رقم ہر شخص کسی ادارے کو جمع کروا دے حتی کہ یہ لوگ بھی خود کوئی ایسا ادارہ قائم نہ کر سکے۔ یہ خطیر رقم عبادت اور قربانی کے تصور ہی سے خرچ ہو سکتی ہے اور پھر یہ لوگ نہیں جانتے کہ قربانی کے ساتھ کتنے لوگوں کا معاش وابستہ ہے جو سب غریب ہیں۔ ہر آدمی اپنے اپنے گھر بیٹھ کر اس ذریعے سے اپنا معاش حاصل کر رہا ہے، مثلاً: غریب دیہاتی لوگ اور بیوہ عورتیں جو قربانی کے لیے جانور پالتے ہیں اور لوگ ان سے مہنگے داموں لے جاتے ہیں۔ جانوروں کا کاروبار کرنے والے لوگ، چرم کا کاروبار کرنے والے لوگ، غریب لوگ جو جانور ذبح کرتے ہیں، غریب لوگ جن پر چرم کی رقم تقسیم ہوتی ہے، دینی تعلیمی اور جہادی ادارے وغیرہ۔ اور پھر قربانی کے دن سال میں اس لحاظ سے یاد گار ہیں۔ کہ ان دنوں ہر غریب اور امیر خوب سیر ہو کر گوشت کھاتا ہے۔ وہ لوگ بھی جنھیں شاید عام دنوں میں اپنی جسمانی ضرورت کے مطابق گوشت مل ہی نہیں سکتا، بلکہ کئی لوگ کئی کئی دنوں کے لیے گوشت محفوظ کر لیتے ہیں اور ضرورت کے مطابق کھاتے رہتے ہیں۔ یہ سب قربانی ہی کی برکتیں ہیں، پھر قربانی کی کوئی چیز ضائع نہیں جاتی حتی کہ آنتیں تک بھی کام میں لائی جاتی ہیں، لہٰذا ضیاع والا اعتراض فضول ہے، پھر ان معترضین کو ہندوؤں کی رسم ’’بلی دان‘‘ نظر نہیں آتی جس میں میں انتہائی سفاکی کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ ہر سال لاکھوں جانوروں کو بڑی سنگ دلی اور بے رحمی سے تیز دھار آلے سے قتل کیا جاتا ہے۔ زور دار واروں سے ان کی گردنیں تن سے جدا کی جاتی ہیں۔ وہ یہ سب کچھ گہی مائی (Gahhimai) دیوی کے تقرب کی خاطر کرتے ہیں۔ کیا اس میں ضیاع مال نہیں؟ یہ لاکھوں جانور ضائع ہو جاتے ہیں۔ ان کا گوشت کھایا جاتا ہے نہ ان کی چربی اور کھال کام میں آتی ہے، نہ آنتیں اور نہ دیگر اعضائے جسم ہی، مقصود صرف نذرانہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد سب کچھ بیکار لیکن سبحان اللہ اس کے برعکس عید قربان میں ایک حکمت ہے۔ ایک مقدس فرض کی تکمیل اور ہر سال ایک عظیم عہد کی تجدید ہوتی ہے، نیز اسلام نے ذبیحہ کے ساتھ حسن سلوک اور انتہائی رحم دلی کا درس دیا ہے۔ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرلہٰذا اگر ہر چیز میں مادی نقطہ نظر اپنایا جائے تو کل کلاں حج کو بھی موقوف کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اس میں بھی اربوں کھربوں روپے صرف ہوتے ہیں۔ روزہ بھی چھوڑنا ہوگا کیونکہ اس میں خواہ مخواہ جسمانی کمزوری برداشت کرنا روپے صرف ہوتے ہیں۔ روزہ بھی چھوڑنا ہوگا کیونکہ اس میں خواہ مخواہ جسمانی کمزوری برداشت کرنا پڑتی ہے اور قوت کار میں کمی واقع ہوتی ہے۔ نماز کو بھی طلاق دینا ہوگی کہ اس میں بھی جوبیس میں سے دو تین گھنٹے صرف ہو جاتے ہیں جن کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ زکاۃ دینے کی بھی ضرورت نہ ہوگی کیونکہ کمائی ہوئی دولت میں سے کسی کو بلا وجہ کیوں دیا جائے؟ گویا دمڑی نہ جائے، چمڑی بے شک چلی جائے، یعنی دین، اخلاق اور انسانیت کا شمہ بھی باقی نہ رہے گا۔ تو بتائیے اس سو دس میں کیا منافع ہوا؟ کیا پیسہ ہی کل کائنات ہے؟