تشریح:
(1) اہل کتاب، یعنی یہودی اور عیسائی لوگوں کے ذبیحے کے متعلق حکم شریعت یہ ہے کہ اسے کھایا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ﴾ (المائدة: ۵:۵) ”اہل کتاب (یہود و نصاری) کا طعام تمہارے لیے حلال ہے۔“ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: ﴿طَعَامُهُمْ، ذَبَائِحُهُمْ﴾ یعنی اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے طعام سے مراد ان کے ذبح شدہ جانور ہیں۔ دیکھئے: (صحیح البخاري الذبائح و الصید، قبل حدیث: ۵۵۰۸)
(2) ترجمۃ الباب (عنوان) کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ پھینکے گئے تھیلے میں جو چربی تھی وہ یقینا کسی ذبح شدہ جانور ہی کی تھی اور ظاہر ہے اسے کسی یہودی ہی نے ذبح کیا تھا۔ اگر ان کا ذبح شدہ جانور حلال نہ ہوتا تو اس جانور کی چربی بھی حلال نہ ہوتی، اور صحابیٔ رسول بھی اسے نہ اٹھاتے، رسول اللہ ﷺ بھی موجود تھے، وہ بھی منع فرما دیتے، لیکن بجائے روکنے کے آپ علیہ السلام اسے دیکھ کر مسکرا دئیے جس سے اس چربی کے حلال ہونے کا پتا چلتا ہے، نیز معلوم ہوا کہ اہل کتاب کے ساتھ جنگ ہو رہی ہو تب بھی ان کا ذبیحہ اور اس کے، تمام اجزاء حلال ہیں۔
(3) یہودیوں کی بدکرداری کی وجہ سے گائے اور بکری کی کچھ چربی ان کے لیے حرام کر دی گئی تھی، اس کے باوجود حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اسے اٹھا لیا کیونکہ وہ یہودیوں کے لیے حرام تھی، نہ کہ مسلمانوں کے لیے، اور رسول اللہ ﷺ نے مسکرا کر ان کے اس عمل کی توثیق فرما دی۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جب میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا تو مجھے حیا آ گئی، یعنی میں شرمندہ سا ہو گیا۔ دیکھئے (صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: ۳۱۵۳، و صحیح مسلم، الجهاد، حدیث: ۱۷۷۲)
(4) ”مسکرا رہے تھے“ میری حرص دیکھ کر۔ اسے تقریری حدیث کہا جاتا ہے۔ اور یہ بالاتفاق حجت شرعی ہے۔ یہ قطعی طور پر نا ممکن ہے کہ شرعاً ایک کام ناجائز اور حرام ہو اور نبی ﷺ اسے دیکھ کر مسکرائیں یا خاموش رہیں۔