Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Avoiding doubtful sources of earning)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4453.
حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا، اور اللہ کی قسم! میں آپ کے بعد کسی سے نہ سنوں گا، آپ فرما رہے تھے: ”حلال واضح ہے، حرام بھی واضح ہے لیکن ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں بھی ہیں۔ اس سلسلے میں، میں تمہیں ایک مثال بیان کرتا ہوں۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے کچھ علاقہ ممنوعہ قرار دیا ہے اور وہ علاقہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ جو شخص اس ممنوعہ علاقے کے قریب قریب (جانور) چرائے گا، بہت ممکن ہے کہ وہ اس ممنوعہ علاقے میں چرنے لگے۔ اسی طرح جو شخص مشتبہ کام کرتا ہے، بہت ممکن ہے کہ وہ حرام کام پر بھی جرأت کر بیٹھے۔“
تشریح:
(1) کسب معاش میں شبہات سے بچنا چاہیے، یعنی انسان کی کمائی بالکل صاف ستھری اور حلال طیب ہونی چاہیے نہ کہ مشکوک و مشتبہ۔ (2) حلال اور حرام، دونوں واضح ہیں لیکن اس شخص کے لیے جسے شرعی نصوص کا علم ہو۔ ہر کسی کو یہ فضیلت حاصل نہیں۔ یہ مرتبہ اور بصیرت راسخ فی العلم اہل علم کو حاصل ہو سکتا ہے۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ۔ (3) یہ حدیث بہت زیادہ قدر و منزلت والی ہے۔ اکثر محدثین کرام نے اسے ”کتاب البیوع“ میں بیان فرمایا ہے کیونکہ زیادہ تر شکوک و شبہات معاملات بیوع ہی میں ہوتے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ اس حدیث کا تعلق نکاح و طلاق، مطعومات و مشروبات اور شکار وغیرہ کے ساتھ بھی ہے۔ جو شخص غور و فکر کرے گا، اسے یہ سب کچھ بخوبی معلوم ہو جائے گا۔ (4) حلال و حرام کے درمیان ایک ایسا درجہ ہے جس کی معرفت اور پہنچان ضروری ہے اور اس سے بچنا بھی۔ اور وہ ایسے شبہات اور ایسی مشکوک و مشتبہ اشیاء کا درجہ ہے جن کی حلت و حرمت دونوں غیر واضح ہیں، اس لیے ایک عقل مند شخص کے لیے اس درجے کی معرفت بہت ضروری ہے۔ (5) کسی مسئلے اور شرعی حکم کی وضاحت کے لیے مثال بیان کی جا سکتی ہے تاکہ وہ مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آ جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے مثال بیان فرمائی۔ (6) جو شخص شبہات کا شکار ہوتا ہے، اس کا دین اور اس کی عزت داغ دار ہو جاتے ہیں۔ (7) احکام کی تین قسمیں ہیں: ایک قسم ایسے احکام کی ہے کہ قرآن و حدیث میں انہیں بجا لانے کا تقاضا ہے اور نہ کرنے پر وعید ہے۔ دوسری قسم ایسے احکام کی ہے کہ ان کے نہ کرنے کی نص ہو اور کرنے پر وعید ہو۔ اور تیسری قسم ایسے احکام کی ہے جن کے کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کوئی نص نہ ہو۔ پہلی قسم کے احکام واضح طور پر حلال ہیں اور دوسری قسم کے احکام واضح طور پر حرام جبکہ تیسری قسم کے احکام واضح طور پر حلال ہیں نہ واضح طور پر حرام بلکہ وہ مشتبہ ہیں۔ جن احکام کی صورت حال اس طرح ہو ان سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ انسان حرام کا مرتکب نہ ہو۔ (8) ”ممنوعہ علاقہ“ عرب میں عام رواج تھا کہ بادشاہ اور سردار کچھ علاقہ اپنے جانوروں کے چرنے کے لیے مخصوص قرار دے دیتے تھے۔ عام لوگ وہاں جانور نہیں چرا سکتے تھے۔ بلکہ لوگ ڈرتے ہوئے اس علاقے کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے کہ کہیں غلطی ہی سے جانور اس علاقے میں داخل نہ ہو جائیں اور بادشاہ کے کارندوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے یہی مثال حرام، حلال اور مشتبہ چیزوں کے لیے بیان فرمائی۔ مخصوص علاقہ ”حرام ہے“ قریبی علاقہ ”مشتبہ“ ہے۔ اور دور کا علاقہ ”حلال“ ہے۔ محفوظ وہی شخص ہے جو صرف حلال علاقے میں رہے۔ مشتبہ علاقے میں جانے والے کے لیے خطرہ ہے کہ وہ کسی وقت بھی حرام کے علاقے میں داخل ہو سکتا ہے۔ عموماً مشتبہ کام کرنے والا حرام سے نہیں بچ سکتا۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4469
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4453
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4377
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4453
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4464
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4465
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4458
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا، اور اللہ کی قسم! میں آپ کے بعد کسی سے نہ سنوں گا، آپ فرما رہے تھے: ”حلال واضح ہے، حرام بھی واضح ہے لیکن ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں بھی ہیں۔ اس سلسلے میں، میں تمہیں ایک مثال بیان کرتا ہوں۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے کچھ علاقہ ممنوعہ قرار دیا ہے اور وہ علاقہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ جو شخص اس ممنوعہ علاقے کے قریب قریب (جانور) چرائے گا، بہت ممکن ہے کہ وہ اس ممنوعہ علاقے میں چرنے لگے۔ اسی طرح جو شخص مشتبہ کام کرتا ہے، بہت ممکن ہے کہ وہ حرام کام پر بھی جرأت کر بیٹھے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) کسب معاش میں شبہات سے بچنا چاہیے، یعنی انسان کی کمائی بالکل صاف ستھری اور حلال طیب ہونی چاہیے نہ کہ مشکوک و مشتبہ۔ (2) حلال اور حرام، دونوں واضح ہیں لیکن اس شخص کے لیے جسے شرعی نصوص کا علم ہو۔ ہر کسی کو یہ فضیلت حاصل نہیں۔ یہ مرتبہ اور بصیرت راسخ فی العلم اہل علم کو حاصل ہو سکتا ہے۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ۔ (3) یہ حدیث بہت زیادہ قدر و منزلت والی ہے۔ اکثر محدثین کرام نے اسے ”کتاب البیوع“ میں بیان فرمایا ہے کیونکہ زیادہ تر شکوک و شبہات معاملات بیوع ہی میں ہوتے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ اس حدیث کا تعلق نکاح و طلاق، مطعومات و مشروبات اور شکار وغیرہ کے ساتھ بھی ہے۔ جو شخص غور و فکر کرے گا، اسے یہ سب کچھ بخوبی معلوم ہو جائے گا۔ (4) حلال و حرام کے درمیان ایک ایسا درجہ ہے جس کی معرفت اور پہنچان ضروری ہے اور اس سے بچنا بھی۔ اور وہ ایسے شبہات اور ایسی مشکوک و مشتبہ اشیاء کا درجہ ہے جن کی حلت و حرمت دونوں غیر واضح ہیں، اس لیے ایک عقل مند شخص کے لیے اس درجے کی معرفت بہت ضروری ہے۔ (5) کسی مسئلے اور شرعی حکم کی وضاحت کے لیے مثال بیان کی جا سکتی ہے تاکہ وہ مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آ جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے مثال بیان فرمائی۔ (6) جو شخص شبہات کا شکار ہوتا ہے، اس کا دین اور اس کی عزت داغ دار ہو جاتے ہیں۔ (7) احکام کی تین قسمیں ہیں: ایک قسم ایسے احکام کی ہے کہ قرآن و حدیث میں انہیں بجا لانے کا تقاضا ہے اور نہ کرنے پر وعید ہے۔ دوسری قسم ایسے احکام کی ہے کہ ان کے نہ کرنے کی نص ہو اور کرنے پر وعید ہو۔ اور تیسری قسم ایسے احکام کی ہے جن کے کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کوئی نص نہ ہو۔ پہلی قسم کے احکام واضح طور پر حلال ہیں اور دوسری قسم کے احکام واضح طور پر حرام جبکہ تیسری قسم کے احکام واضح طور پر حلال ہیں نہ واضح طور پر حرام بلکہ وہ مشتبہ ہیں۔ جن احکام کی صورت حال اس طرح ہو ان سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ انسان حرام کا مرتکب نہ ہو۔ (8) ”ممنوعہ علاقہ“ عرب میں عام رواج تھا کہ بادشاہ اور سردار کچھ علاقہ اپنے جانوروں کے چرنے کے لیے مخصوص قرار دے دیتے تھے۔ عام لوگ وہاں جانور نہیں چرا سکتے تھے۔ بلکہ لوگ ڈرتے ہوئے اس علاقے کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے کہ کہیں غلطی ہی سے جانور اس علاقے میں داخل نہ ہو جائیں اور بادشاہ کے کارندوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے یہی مثال حرام، حلال اور مشتبہ چیزوں کے لیے بیان فرمائی۔ مخصوص علاقہ ”حرام ہے“ قریبی علاقہ ”مشتبہ“ ہے۔ اور دور کا علاقہ ”حلال“ ہے۔ محفوظ وہی شخص ہے جو صرف حلال علاقے میں رہے۔ مشتبہ علاقے میں جانے والے کے لیے خطرہ ہے کہ وہ کسی وقت بھی حرام کے علاقے میں داخل ہو سکتا ہے۔ عموماً مشتبہ کام کرنے والا حرام سے نہیں بچ سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
نعمان بن بشیر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا (اللہ کی قسم، میں آپ سے سن لینے کے بعد کسی سے نہیں سنوں گا) آپ فرما رہے تھے: ”حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے، ان دونوں کے بیچ کچھ شبہ والی چیزیں ہیں“ (یا آپ نے «مشتبہات» کے بجائے «مشتبھۃً» کہا ۱؎ ) - اور فرمایا: ”میں تم سے اس سلسلے میں ایک مثال بیان کرتا ہوں: اللہ تعالیٰ نے ایک چراگاہ بنائی تو اللہ کی چراگاہ یہ محرمات ہیں، جو جانور بھی اس چراگاہ کے پاس چرے گا قریب ہے کہ وہ اس میں داخل ہو جائے“ یا یوں فرمایا: ”جو بھی اس چراگاہ کے جانور پاس چرائے گا قریب ہے کہ وہ جانور اس میں سے میں چر لے۔ اور جو مشکوک کام کرے تو قریب ہے کہ وہ (حرام کام کرنے کی) جرات کر بیٹھے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : گویا دنیاوی چیزیں تین طرح کی ہیں: حلال، حرام اور مشتبہ (شک و شبہہ والی چیزیں) پس حلال چیزیں وہ ہیں جو کتاب و سنت میں بالکل واضح ہیں جیسے دودھ، شہد، میوہ، گائے اور بکری وغیرہ، اسی طرح حرام چیزیں بھی کتاب و سنت میں واضح ہیں جیسے شراب، زنا، قتل اور جھوٹ وغیرہ اور مشتبہ وہ ہے جو کسی حد تک حلال سے اور کسی حد تک حرام سے، یعنی دونوں سے مشابہت رکھتی ہو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ میں ایک کھجور پڑی ہوئی دیکھی تو فرمایا کہ اگر اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کی ہو سکتی ہے تو میں اسے کھا لیتا۔ اس لیے مشتبہ امر سے اپنے آپ کو بچا لینا ضروری ہے، کیونکہ اسے اپنانے کی صورت میں حرام میں پڑنے کا خطرہ ہے، نیز شبہ والی چیز میں پڑتے پڑتے آدمی حرام میں پڑنے اور اسے اپنانے کی جرات و جسارت کر سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
An-Nu'man bin Bashir said: "I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: "That which is lawful is plain and that which is unlawful is plain, and between them are matters which are not as clear. I will strike a parable for you about that: indeed Allah, the Mighty and Sublime, has established a sanctuary, and the sanctuary of Allah is that which He has forbidden. Whoever approaches the sanctuary is bound to transgress upon it, Or he said: 'Whoever grazes around the sanctuary will soon transgress upon it, and whoever indulges in matters that are not clear, he will soon transgress beyond the limits.