باب: تاجروں کو خرید و فروخت میں کس چیز سے پرہیز کرنا چاہیے؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: What Traders Must Avoid In Their Dealings)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4457.
حضرت حکیم بن حزام ؓ سے رویات ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دو خرید و فروخت کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں، انہیں سودا ختم کرنے کا اختیار رہتا ہے۔ اگر وہ دونوں سچ بولیں اور ہر بات وضاحت سے بیان کر دیں تو ان کے سودے میں برکت ہو گی۔ اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور صورت حال چھپا لیں تو ان کے سودے سے برکت اٹھ جائے گی۔“
تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ تاجروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خرید و فروخت کرتے وقت شرعی تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنے معاملات طے کریں۔ ایک دوسرے سے نہ تو جھوٹ بولیں اور نہ ایک دوسرے کو دھوکا دینے کی کوشش کریں بلکہ سچ کا دامن تھامے رکھیں اور ہر صورت میں سچی بات کریں اور سچ پر پہرہ دیتے رہیں۔ بائع اور مشتری دونوں کی یہ شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں۔ بائع پر واجب ہے کہ وہ اپنی مبیع (جو چیز وہ بیچ رہا ہے) کے متعلق درست معلومات دے۔ اگر اس میں کوئی نقص اور عیب وغیرہ ہو تو خریدار کو اس سے مطلع کرے۔ داؤ نہ لگائے۔ ایک مسلمان تاجر کے لیے قطعاً جائز نہیں کہ وہ عیب اور نقص والی یا دو نمبر چیز، بتائے بغیر فروخت کرے۔ یہ حرام ہے۔ (2) حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ برکت تب ہو گی جب تجارت سچ پر مبنی ہو گی، اس لیے ضروری ہے کہ حصول برکت کے لیے تاجر لوگ سچ بول کر ہی اپنی تجارت کو فروغ دیں۔ تجارت میں جھوٹ بولنے اور سودے کا عیب چھپانے سے نہ صرف برکت حاصل نہیں ہوتی بلکہ الٹا نقصان ہوتا ہے۔ اور اس کے علاوہ ضمیر کی خلش الگ بے چین کرتی رہتی ہے۔ أعاذنا اللہ منه۔ (3) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دنیوی فوائد کا حقیقی اور بھرپور حصول بھی عمل صالح سے ہوتا ہے جبکہ گناہوں کی نحوست اور دنیا و آخرت، دونوں کی خیر و برکت تباہ و برباد ہو جاتی ہے، اس لیے اس زریں قانون فطرت کو ہمیشہ مدنظر رکھ کر اپنے تمام معاملات ترتیب دینے چاہئیں۔ (4) ”اختیار رہتا ہے“ اسے خیار مجلس کہا جاتا ہے، یعنی جب تک فریقین سودے والی جگہ میں بیٹھے ہیں، وہ چاہیں تو ان میں سے کوئی بھی سودا واپس کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ فریق ثانی کے لیے اسے ماننا لازم ہو گا، البتہ اگر مجلس بدل جائے تو پھر دونوں کی رضامندی ہی سے سودا واپس ہو سکتا ہے۔ احناف و موالک خیار مجلس کے قائل نہیں کہ خیار مجلس کی کوئی حد نہیں، نیز یہ اختیار اصول کے خلاف ہے کیونکہ طے شدہ سودے کو ایک فریق ختم نہیں کر سکتا۔ اس حدیث کی وہ تاویل کرتے ہیں کہ یہاں ”جدا ہونے“ سے مراد سودے کی بات چیت کا طے ہونا ہے، حالانکہ یہ بات بیان کرنے کی تو ضرورت ہی نہیں۔ یہ تو بدیہی بات ہے، نیز اس حدیث کو روایت کرنے والے صحابہ نے اسے ظاہری معنیٰ پر ہی محمول کیا ہے۔ بعض دیگر احادیث میں صراحت ہے کہ واپسی کے ڈر سے کوئی جگہ نہ بدلے۔ گویا یہ معنیٰ قطعی ہے کہ جب تک مجلس نہ بدلے، اختیار قائم رہتا ہے۔ باقی رہی اصول کی بات تو اصول بھی احادیث ہی سے ثابت ہوتے ہیں، نیز حدیث بھی تو اصول شرع میں سے ایک بنیادی اصل ہے، لہٰذا اصول کا نام لے کر کسی صحیح اور صریح حدیث کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ (5) ”وضاحت سے بیان کریں“ یعنی اپنی اپنی چیز کے عیوب و نقائص وغیرہ۔ (6) ”برکت اٹھ جائے گی“ یعنی مال حرام ہو جائے گا اور کثیر ہونے کے باوجود ضروریات پوری نہیں کرے گا اور ضائع ہوتا رہے گا۔ پریشانی الگ ہو گی۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4473
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4457
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4381
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4457
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4468
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4469
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4462
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت حکیم بن حزام ؓ سے رویات ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دو خرید و فروخت کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں، انہیں سودا ختم کرنے کا اختیار رہتا ہے۔ اگر وہ دونوں سچ بولیں اور ہر بات وضاحت سے بیان کر دیں تو ان کے سودے میں برکت ہو گی۔ اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور صورت حال چھپا لیں تو ان کے سودے سے برکت اٹھ جائے گی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ تاجروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خرید و فروخت کرتے وقت شرعی تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنے معاملات طے کریں۔ ایک دوسرے سے نہ تو جھوٹ بولیں اور نہ ایک دوسرے کو دھوکا دینے کی کوشش کریں بلکہ سچ کا دامن تھامے رکھیں اور ہر صورت میں سچی بات کریں اور سچ پر پہرہ دیتے رہیں۔ بائع اور مشتری دونوں کی یہ شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں۔ بائع پر واجب ہے کہ وہ اپنی مبیع (جو چیز وہ بیچ رہا ہے) کے متعلق درست معلومات دے۔ اگر اس میں کوئی نقص اور عیب وغیرہ ہو تو خریدار کو اس سے مطلع کرے۔ داؤ نہ لگائے۔ ایک مسلمان تاجر کے لیے قطعاً جائز نہیں کہ وہ عیب اور نقص والی یا دو نمبر چیز، بتائے بغیر فروخت کرے۔ یہ حرام ہے۔ (2) حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ برکت تب ہو گی جب تجارت سچ پر مبنی ہو گی، اس لیے ضروری ہے کہ حصول برکت کے لیے تاجر لوگ سچ بول کر ہی اپنی تجارت کو فروغ دیں۔ تجارت میں جھوٹ بولنے اور سودے کا عیب چھپانے سے نہ صرف برکت حاصل نہیں ہوتی بلکہ الٹا نقصان ہوتا ہے۔ اور اس کے علاوہ ضمیر کی خلش الگ بے چین کرتی رہتی ہے۔ أعاذنا اللہ منه۔ (3) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دنیوی فوائد کا حقیقی اور بھرپور حصول بھی عمل صالح سے ہوتا ہے جبکہ گناہوں کی نحوست اور دنیا و آخرت، دونوں کی خیر و برکت تباہ و برباد ہو جاتی ہے، اس لیے اس زریں قانون فطرت کو ہمیشہ مدنظر رکھ کر اپنے تمام معاملات ترتیب دینے چاہئیں۔ (4) ”اختیار رہتا ہے“ اسے خیار مجلس کہا جاتا ہے، یعنی جب تک فریقین سودے والی جگہ میں بیٹھے ہیں، وہ چاہیں تو ان میں سے کوئی بھی سودا واپس کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ فریق ثانی کے لیے اسے ماننا لازم ہو گا، البتہ اگر مجلس بدل جائے تو پھر دونوں کی رضامندی ہی سے سودا واپس ہو سکتا ہے۔ احناف و موالک خیار مجلس کے قائل نہیں کہ خیار مجلس کی کوئی حد نہیں، نیز یہ اختیار اصول کے خلاف ہے کیونکہ طے شدہ سودے کو ایک فریق ختم نہیں کر سکتا۔ اس حدیث کی وہ تاویل کرتے ہیں کہ یہاں ”جدا ہونے“ سے مراد سودے کی بات چیت کا طے ہونا ہے، حالانکہ یہ بات بیان کرنے کی تو ضرورت ہی نہیں۔ یہ تو بدیہی بات ہے، نیز اس حدیث کو روایت کرنے والے صحابہ نے اسے ظاہری معنیٰ پر ہی محمول کیا ہے۔ بعض دیگر احادیث میں صراحت ہے کہ واپسی کے ڈر سے کوئی جگہ نہ بدلے۔ گویا یہ معنیٰ قطعی ہے کہ جب تک مجلس نہ بدلے، اختیار قائم رہتا ہے۔ باقی رہی اصول کی بات تو اصول بھی احادیث ہی سے ثابت ہوتے ہیں، نیز حدیث بھی تو اصول شرع میں سے ایک بنیادی اصل ہے، لہٰذا اصول کا نام لے کر کسی صحیح اور صریح حدیث کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ (5) ”وضاحت سے بیان کریں“ یعنی اپنی اپنی چیز کے عیوب و نقائص وغیرہ۔ (6) ”برکت اٹھ جائے گی“ یعنی مال حرام ہو جائے گا اور کثیر ہونے کے باوجود ضروریات پوری نہیں کرے گا اور ضائع ہوتا رہے گا۔ پریشانی الگ ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حکیم بن حزام ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بیچنے اور خریدنے والے دونوں کو جدا ہونے تک (مال کے بیچنے اور نہ بیچنے کے بارے میں) اختیار حاصل ہے، اگر سچ بولیں گے اور (عیب و ہنر کو) صاف صاف بیان کر دیں گے تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہو گی، اور اگر جھوٹ بولیں گے اور عیب کو چھپائیں گے تو ان کی خرید و فروخت کی برکت جاتی رہے گی۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی: تجار کو اپنی خرید و فروخت کے معاملے میں جھوٹ سے بچنا چاہیئے، تبھی تجارت میں برکت ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Hakim bin Hizam said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'The two parties to a transaction have the choice so long as they have not separated. If they are honest and open, their transaction will be blessed, but if they tell lies and conceal anything, the blessing of their transaction will be lost.