Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: The One Who Sells His Product By Means Of False Oaths)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4458.
حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام کرے گا، نہ انہیں دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔“ رسول اللہ ﷺ نے یہ (مذکورہ) جملے ارشاد فرمائے تو حضرت ابو ذر ؓ نے کہا: وہ تو ناکام ہو گئے اور خسارے میں رہے۔ آپ نے فرمایا: ”جو شخص اپنا تہ بند (زمین پر یا اپنے ٹخنوں سے نیچے) لٹکاتا ہے، جو شخص اپنا سامان جھوٹی قسم کھا کر بیچتا ہے اور جو شخص اپنے عطیے کا حسان جتلاتا ہے۔“
تشریح:
(1) مؤلف رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد جھوٹ بول کر سودا بیچنے کی قباحت و شناعت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے خطرناک نتائج سے آگاہ کرنا بھی ہے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے اللہ تعالیٰ کی کئی ایک صفات معلوم ہوتی ہیں، مثلاً: کلام کرنا، دیکھنا اور تزکیہ کرنا وغیرہ۔ لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات، اس کی ذات ہی کے شایانِ شان ہیں۔ مخلوق میں پائی جانے والی صفات کے مشابہ ہرگز ہرگز نہیں جیسا کہ ایک گمراہ فرقے مُشَبِّہَہْ کا عقیدہ ہے، نیز اس سے دیگر گمراہ فرقوں مُعَطِّلَہْ اور مُمَثِّلَہْ وغیرہ کا بھی مکمل طور پر رد ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے منکر ہیں یا وہ اس کی صفات تو مانتے ہیں لیکن انہیں مخلوق کی صفات جیسا قرار دیتے ہیں۔ (3) یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ، قیامت کے دن اپنے مومن بندوں پر نظر کرم فرمائے گا۔ وہ انہیں محبت بھری نظر سے دیکھے گا، ان کا تزکیہ کرے گا اور نہیں عذاب سے بھی نجات عطا فرمائے گا۔ (4) شلوار، تہ بند، پینٹ اور پائجامہ وغیرہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانا، مردوں کے لیے بالکل حرام ہے۔ اور یہ سنگین جرم ہے۔ بعض لوگ جب نماز کے لیے مسجدوں میں آتے ہیں تو اس وقت ٹخنے ننگے کر لیتے ہیں اور نماز کے بعد پھر اسی پہلی حالت میں آ جاتے ہیں۔ یہ دو رنگی ہے۔ (5) جھوٹی قسم کھا کر سودا بیچنا، تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکانا نیز کسی کے ساتھ نیکی اور احسان کر کے جتلانا کبیرہ گناہ ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ان گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے حدیث میں مذکور شدید وعید بیان فرمائی ہے۔ أعاذنا اللہ منه۔ (6) ”نہ کلام کرے گا“ یعنی محبت اور پیار سے باتیں نہیں کرے گا۔ رحمت و شفقت کی نظر سے نہیں دیکھے گا اور انہیں گناہوں کی معافی دے کر پاک نہیں کرے گا۔ مقصود ان باتوں کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض اور غضب ناک رہے گا۔ غصے کی جھڑک اور ڈانٹ کو عرف عام میں کلام کرنا نہیں کہتے۔ اسی طرح غصے اور غضب کی نظر سے دیکھنے کو دیکھنا نہیں کہتے۔ (7) ”تہ بند لٹکاتا ہے“ ایک دوسری روایت میں ہے جو شخص تکبر سے اپنا ازار زمین پر گھسیٹتا پھرتا ہے۔ ایک حدیث میں ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے کو تکبر کہا گیا ہے۔ ہاں اگر باوجود اہتمام اور خیال رکھنے کے بھی کبھی کبھار کپڑا ٹخنوں سے نیچے چلا جاتا ہے تو مذکورہ بالا وعید، ان شاء اللہ، اس پر صادق نہیں آتی۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4474
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4458
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4382
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4458
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4469
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4470
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4463
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام کرے گا، نہ انہیں دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔“ رسول اللہ ﷺ نے یہ (مذکورہ) جملے ارشاد فرمائے تو حضرت ابو ذر ؓ نے کہا: وہ تو ناکام ہو گئے اور خسارے میں رہے۔ آپ نے فرمایا: ”جو شخص اپنا تہ بند (زمین پر یا اپنے ٹخنوں سے نیچے) لٹکاتا ہے، جو شخص اپنا سامان جھوٹی قسم کھا کر بیچتا ہے اور جو شخص اپنے عطیے کا حسان جتلاتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مؤلف رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد جھوٹ بول کر سودا بیچنے کی قباحت و شناعت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے خطرناک نتائج سے آگاہ کرنا بھی ہے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے اللہ تعالیٰ کی کئی ایک صفات معلوم ہوتی ہیں، مثلاً: کلام کرنا، دیکھنا اور تزکیہ کرنا وغیرہ۔ لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات، اس کی ذات ہی کے شایانِ شان ہیں۔ مخلوق میں پائی جانے والی صفات کے مشابہ ہرگز ہرگز نہیں جیسا کہ ایک گمراہ فرقے مُشَبِّہَہْ کا عقیدہ ہے، نیز اس سے دیگر گمراہ فرقوں مُعَطِّلَہْ اور مُمَثِّلَہْ وغیرہ کا بھی مکمل طور پر رد ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے منکر ہیں یا وہ اس کی صفات تو مانتے ہیں لیکن انہیں مخلوق کی صفات جیسا قرار دیتے ہیں۔ (3) یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ، قیامت کے دن اپنے مومن بندوں پر نظر کرم فرمائے گا۔ وہ انہیں محبت بھری نظر سے دیکھے گا، ان کا تزکیہ کرے گا اور نہیں عذاب سے بھی نجات عطا فرمائے گا۔ (4) شلوار، تہ بند، پینٹ اور پائجامہ وغیرہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانا، مردوں کے لیے بالکل حرام ہے۔ اور یہ سنگین جرم ہے۔ بعض لوگ جب نماز کے لیے مسجدوں میں آتے ہیں تو اس وقت ٹخنے ننگے کر لیتے ہیں اور نماز کے بعد پھر اسی پہلی حالت میں آ جاتے ہیں۔ یہ دو رنگی ہے۔ (5) جھوٹی قسم کھا کر سودا بیچنا، تہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکانا نیز کسی کے ساتھ نیکی اور احسان کر کے جتلانا کبیرہ گناہ ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ان گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے حدیث میں مذکور شدید وعید بیان فرمائی ہے۔ أعاذنا اللہ منه۔ (6) ”نہ کلام کرے گا“ یعنی محبت اور پیار سے باتیں نہیں کرے گا۔ رحمت و شفقت کی نظر سے نہیں دیکھے گا اور انہیں گناہوں کی معافی دے کر پاک نہیں کرے گا۔ مقصود ان باتوں کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض اور غضب ناک رہے گا۔ غصے کی جھڑک اور ڈانٹ کو عرف عام میں کلام کرنا نہیں کہتے۔ اسی طرح غصے اور غضب کی نظر سے دیکھنے کو دیکھنا نہیں کہتے۔ (7) ”تہ بند لٹکاتا ہے“ ایک دوسری روایت میں ہے جو شخص تکبر سے اپنا ازار زمین پر گھسیٹتا پھرتا ہے۔ ایک حدیث میں ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے کو تکبر کہا گیا ہے۔ ہاں اگر باوجود اہتمام اور خیال رکھنے کے بھی کبھی کبھار کپڑا ٹخنوں سے نیچے چلا جاتا ہے تو مذکورہ بالا وعید، ان شاء اللہ، اس پر صادق نہیں آتی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوذر ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”تین لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات چیت کرے گا، اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا“، پھر رسول اللہ ﷺ نے آیت پڑھی ۱؎ تو ابوذر ؓ نے کہا: وہ لوگ ناکام ہو گئے اور خسارے میں پڑ گئے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے تہبند کو ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا ۲؎ ، جھوٹی قسم کھا کر اپنے سامان کو بیچنے والا، دے کر باربار احسان جتانے والا۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس آیت سے مراد سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۷۷ ہے جو اس طرح ہے «وَلا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ»(سورة آل عمران: ۷۷)۔ ۲؎ : کسی کسی روایت میں «خُيلاءَ» کا لفظ آیا ہے یعنی ”تکبر اور گھمنڈ سے ٹخنے سے نیچے ازار (تہبند) لٹکانے والا ”لیکن یہ وعید ہر حالت پر ہے چاہے ازار (تہبند) تکبر سے لٹکائے یا بغیر تکبر کے اور ”تکبر سے“ کا لفظ کوئی احترازی لفظ نہیں ہے، ٹخنے سے نیچے لٹکانے میں بہرحال تکبر و غرور کی کیفیت پیدا ہو ہی جاتی ہے اس لیے کسی روایت میں «خُيلاءَ» کا لفظ آیا ہے۔ تکبر کے ساتھ مزید گناہ ہو گا اور عام حالت میں یہ کبیرہ گناہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Dharr that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "There are three to whom Allah will not speak on the Day of Resurrection, or will He look at them, or sanctify them, and theirs will be a painful torment: Abu Dharr said:" May they be lost and doomed: He said: "The one who drags his Izar (below the ankles) the one who sells his product by means of false oaths, and the one who reminds others (Al-Mannan) of what he has given to them.