Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Taking Oaths To Cheat In Selling)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4462.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے کلام نہیں فرمائے گا، نہ ان کو دیکھے گا اور نہ ان کو پاک ہی کرے گا۔ اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔ ایک وہ آدمی جس کے ہاں گزرگاہ کے پاس (اس کی ضرورت سے) فالتو پانی ہے لیکن وہ مسافر کو پانی لینے سے روک دے۔ دوسرا وہ آدمی جو صرف دنیوی مفاد کی خاطر کسی امام سے بیعت کرتا ہے۔ اگر امام اس کو اس کی منشا کے مطابق دیتا رہے تو وہ بیعت پر قائم رہتا ہے اور اگر نہ دے تو توڑ دیتا ہے۔ تیسرا وہ شخص جو کسی آدمی سے عصر کے بعد سامان کا بھاؤ کرتا ہے اور اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ اس سامان کے بدلے اسے اس قدر رقم ملتی تھی (حالانکہ اسے اتنی رقم نہیں ملتی تھی) دوسرا اس کی تصدیق کر دیتا ہے (اور سامان خرید لیتا ہے)۔“
تشریح:
(1) اس حدیث مبارکہ میں اس شخص کی بابت سخت ترین وعید ہے جو محض ذاتی مفاد کی خاطر حاکم وقت کی مخالفت کرتا ہے، اس کے ساتھ کی ہوئی بیعت توڑتا اور اس کے خلاف خروج وغیرہ کرتا ہے۔ اس جرم کے مرتکب کے لیے اس قدر شدید وعید کیوں ہے؟ یہ اس لیے ہے کہ امام وقت کی مخالفت کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کا اتفاق پارا پارا ہو جائے گا اور امت میں شر، فساد اور ظلم پھیلے گا۔ یہ یاد رہے کہ وفائے عہد میں عزت و عفت، مال اور خون، سب چیزوں کی حفاظت شامل ہے۔ (2) ہر وہ عمل جس سے اللہ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اگر اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول نہ ہو بلکہ اس سے صرف دنیوی فائدے کا حصول مطلوب ہو، تو وہ انسان کے لیے وبال اور اس کی آخرت کی تباہی و بربادی کا سبب ہوتا ہے۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْهُ۔ (3) ”تین شخص“ حدیث میں جن تین اشخاص کا ذکر ہے، حدیث نمبر: ۴۴۶۳ میں ان میں سے صرف ایک شخص کا ذکر ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر پانچ شخص بن گئے۔ گویا تین کا لفظ حصر کے لیے نہیں بلکہ یاد داشت کے لیے ہے۔ ویسے بھی تین میں زائد کی نفی نہیں۔ احادیث میں کئی مقامات پر ایسے ہے۔ اسے اختلاف پر محمول نہیں کرنا چاہیے بلکہ جو آپ کے ذہن میں تھے یا جن کو آپ نے موقع محل کے مناسب سمجھا، ذکر فرما دیا۔ اس سے باقی کی نفی نہیں ہو گی۔ (4) ”پانی سے روک دے“ پانی زندگی کی بقا کے لیے اشد ضروری چیز ہے۔ اس کے نہ ملنے سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے، نیز یہ اللہ تعالیٰ نے مفت مہیا کیا ہے، لہٰذا زائد پانی روکنے کا کوئی جواز نہیں، البتہ اگر اپنی ضرورت سے زائد نہ ہو تو روکا جا سکتا ہے لیکن پینے سے نہیں روکا جا سکتا الا یہ کہ اپنے پینے کے لیے رکھا گیا ہو۔ (5) ”عصر کے بعد“ ممکن ہے یہ قید اتفاقی ہو کیونکہ عصر کے بعد خرید و فروخت زیادہ ہوتی ہے اور ہو سکتا ہے، یہ قید قصداً ذکر کی گئی ہو کیونکہ عصر دن کا آخر وقت ہے جو انسان کو موت اور قیامت کی یاد دلاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ توبہ و استغفار کا وقت ہے۔ ایسے وقت میں جھوٹی قسمیں کھانا انتہائی قبیح کام ہے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4478
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4462
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4386
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4462
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4473
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4474
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4467
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے کلام نہیں فرمائے گا، نہ ان کو دیکھے گا اور نہ ان کو پاک ہی کرے گا۔ اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔ ایک وہ آدمی جس کے ہاں گزرگاہ کے پاس (اس کی ضرورت سے) فالتو پانی ہے لیکن وہ مسافر کو پانی لینے سے روک دے۔ دوسرا وہ آدمی جو صرف دنیوی مفاد کی خاطر کسی امام سے بیعت کرتا ہے۔ اگر امام اس کو اس کی منشا کے مطابق دیتا رہے تو وہ بیعت پر قائم رہتا ہے اور اگر نہ دے تو توڑ دیتا ہے۔ تیسرا وہ شخص جو کسی آدمی سے عصر کے بعد سامان کا بھاؤ کرتا ہے اور اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ اس سامان کے بدلے اسے اس قدر رقم ملتی تھی (حالانکہ اسے اتنی رقم نہیں ملتی تھی) دوسرا اس کی تصدیق کر دیتا ہے (اور سامان خرید لیتا ہے)۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث مبارکہ میں اس شخص کی بابت سخت ترین وعید ہے جو محض ذاتی مفاد کی خاطر حاکم وقت کی مخالفت کرتا ہے، اس کے ساتھ کی ہوئی بیعت توڑتا اور اس کے خلاف خروج وغیرہ کرتا ہے۔ اس جرم کے مرتکب کے لیے اس قدر شدید وعید کیوں ہے؟ یہ اس لیے ہے کہ امام وقت کی مخالفت کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کا اتفاق پارا پارا ہو جائے گا اور امت میں شر، فساد اور ظلم پھیلے گا۔ یہ یاد رہے کہ وفائے عہد میں عزت و عفت، مال اور خون، سب چیزوں کی حفاظت شامل ہے۔ (2) ہر وہ عمل جس سے اللہ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اگر اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول نہ ہو بلکہ اس سے صرف دنیوی فائدے کا حصول مطلوب ہو، تو وہ انسان کے لیے وبال اور اس کی آخرت کی تباہی و بربادی کا سبب ہوتا ہے۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْهُ۔ (3) ”تین شخص“ حدیث میں جن تین اشخاص کا ذکر ہے، حدیث نمبر: ۴۴۶۳ میں ان میں سے صرف ایک شخص کا ذکر ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر پانچ شخص بن گئے۔ گویا تین کا لفظ حصر کے لیے نہیں بلکہ یاد داشت کے لیے ہے۔ ویسے بھی تین میں زائد کی نفی نہیں۔ احادیث میں کئی مقامات پر ایسے ہے۔ اسے اختلاف پر محمول نہیں کرنا چاہیے بلکہ جو آپ کے ذہن میں تھے یا جن کو آپ نے موقع محل کے مناسب سمجھا، ذکر فرما دیا۔ اس سے باقی کی نفی نہیں ہو گی۔ (4) ”پانی سے روک دے“ پانی زندگی کی بقا کے لیے اشد ضروری چیز ہے۔ اس کے نہ ملنے سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے، نیز یہ اللہ تعالیٰ نے مفت مہیا کیا ہے، لہٰذا زائد پانی روکنے کا کوئی جواز نہیں، البتہ اگر اپنی ضرورت سے زائد نہ ہو تو روکا جا سکتا ہے لیکن پینے سے نہیں روکا جا سکتا الا یہ کہ اپنے پینے کے لیے رکھا گیا ہو۔ (5) ”عصر کے بعد“ ممکن ہے یہ قید اتفاقی ہو کیونکہ عصر کے بعد خرید و فروخت زیادہ ہوتی ہے اور ہو سکتا ہے، یہ قید قصداً ذکر کی گئی ہو کیونکہ عصر دن کا آخر وقت ہے جو انسان کو موت اور قیامت کی یاد دلاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ توبہ و استغفار کا وقت ہے۔ ایسے وقت میں جھوٹی قسمیں کھانا انتہائی قبیح کام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین لوگ ہیں قیامت کے دن اللہ ان کی طرف نہیں دیکھے گا اور نہ انہیں گناہوں سے پاک کرے گا، ان کے لیے درد ناک عذاب ہے: ایک شخص وہ ہے جو راستے میں فاضل پانی کا مالک ہو اور مسافر کو دینے سے منع کرے، ایک وہ شخص جو دنیا کی خاطر کسی امام (خلیفہ) کے ہاتھ پر بیعت کرے، اگر وہ اس کا مطالبہ پورا کر دے تو عہد بیعت کو پورا کرے اور مطالبہ پورا نہ کرے تو عہد بیعت کو پورا نہ کرے، ایک وہ شخص جو عصر کے بعد کسی شخص سے کسی سامان پر مول تول کرے اور اس کے لیے اللہ کی قسم کھائے کہ یہ اتنے اتنے میں لیا گیا تھا تو دوسرا (یعنی خریدنے والا) اسے سچا جانے (حالانکہ اس نے اس سے کم قیمت میں خریدی تھی)۔ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس حدیث سے عصر کے بعد کے وقت خرید و فروخت میں جھوٹی قسم کھانے پر وعید ہے، اس سے جہاں یہ حکم ثابت ہوا وہیں پر عصر کے بعد کی فضیلت ثابت ہوئی، اس وقت رب کی مرضی کے خلاف اس طرح کا اقدام جس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و تقدیس کا سہارا لے کر آدمی دنیاوی ترقی کا خواہش معیوب ہے، جب کہ جھوٹ بول کر اور جھوٹی گواہی کے ذریعہ مقاصد حاصل کرنا ہر وقت معیوب اور غلط ہے، عصر بعد مزید شناعت و برائی ہے، شاید یہ وقت بازار کی بھیڑ اور اس میں لوگوں کے ریل پیل کا ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "There are three to whom Allah will not speak on the Day of Resurrection, or will He look at them, or sanctify them and theirs will be a painful torment: A man who has surplus water when traveling but he withholds it form a wayfarer; a man who swears allegiance to an imam for worldly gains, and if he gives him what he wants he is loyal to him but if he does not give him anything he is not loyal to him: and a man who sells a man his product after 'Asr, swerving by Allah that he bought it for such and such a price, and the other believes him.