باب: نافع کی حدیث کے الفاظ میں (راویوں کے) اختلاف کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Mentioning the Differneces Reported From Nafi)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4473.
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دو سودا کرنے والے ایک دوسرے سے جدائی تک اپنی بیع کی واپسی کا اختیار رکھتے ہیں الا یہ کہ وہ بیع خیار والی ہو۔“ نافع نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمرؓ جب کوئی چیز خریدتے اور وہ چیز ان کو اچھی لگتی تو (سودا کرتے ہی) اپنے ساتھی سے جدا ہو جاتے (تاکہ وہ واپس نہ کر سکے)۔
تشریح:
”جدا ہو جاتے“ ویسے ایک دوسری روایت میں اس سے روکا گیا ہے، دیکھئے: (سنن أبي داود، البیوع، حدیث: ۳۴۵۶، و سنن النسائي، البیوع، حدیث: ۴۴۸۸) شاید حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کا علم نہیں ہو گا۔ و اللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4489
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4473
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4397
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4473
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4484
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4485
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4478
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
تمہید باب
اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت نافع سے یہ روایت بیان کرنے والے ان کے سات شاگرد ہیں اور ان ساتوں کے بیان کردہ الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ہے۔ امام نافع سے مذکورہ روایت بیان کرنے والے، ان کے درج ذیل سات شاگرد ہیں: ٭ پہلی سند میں (امام) مالک عن نافع ٭ دوسری میں عبیداللہ عن نافع ٭ تیسری میں إسماعیل (ابن امیۃ) عن نافع ٭چوتھی میں ابن جریج قال: أملی علی نافع- ٭ پانچویں میں أیوب عن نافع، پھر لیث عن نافع اور ٭ساتویں سند میں یحییٰ بن سعید عن نافع- ان سات شاگردوں کی بیان کردہ روایات کو سرسری طور پر دیکھنے سے ہی، ان کے بیان کردہ الفاظ کا فرق معلوم ہو جاتا ہے۔
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دو سودا کرنے والے ایک دوسرے سے جدائی تک اپنی بیع کی واپسی کا اختیار رکھتے ہیں الا یہ کہ وہ بیع خیار والی ہو۔“ نافع نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمرؓ جب کوئی چیز خریدتے اور وہ چیز ان کو اچھی لگتی تو (سودا کرتے ہی) اپنے ساتھی سے جدا ہو جاتے (تاکہ وہ واپس نہ کر سکے)۔
حدیث حاشیہ:
”جدا ہو جاتے“ ویسے ایک دوسری روایت میں اس سے روکا گیا ہے، دیکھئے: (سنن أبي داود، البیوع، حدیث: ۳۴۵۶، و سنن النسائي، البیوع، حدیث: ۴۴۸۸) شاید حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کا علم نہیں ہو گا۔ و اللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خرید و فروخت کرنے والے دونوں اپنی بیع کے سلسلے میں اس وقت تک اختیار کے ساتھ رہتے ہیں جب تک وہ جدا نہ ہوں، سوائے اس کے کہ وہ بیع خیار (اختیاری خرید و فروخت) ہو۔“ نافع کہتے ہیں: چنانچہ عبداللہ بن عمر ؓ جب کوئی ایسی چیز خریدتے جو دل کو بھا گئی ہو تو صاحب معاملہ سے (فوراً) جدا ہو جاتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Yahya bin Sa 'eed who said: "I heard Nafi narrating from Ibn 'Umar, form the Messenger of Allah (ﷺ) 'the two parties to a transaction both have the choice so long as they have not separated unless they have chosen to conclude the transaction. " Nafi said: ''When 'Abdullah bought something he like, he would leave straightaway.