تشریح:
سنن بیهقی (۵/۲۷۳) کی روایت میں ہے: ”پھر تجھے تین دن تک سودے کی واپسی کا اختیار ہو گا۔“ گویا جب سودے میں تنبیہ کر دی جائے کہ دھوکا نہیں چلے گا، یعنی دھوکا نہ کرنا، میں سادہ آدمی ہوں۔ اس کے باوجود فریق ثانی چالاکی دکھا جائے تو اس سادہ شخص کو تین دن تک واپسی کا اختیار رہے گا۔ بعض فقہاء نے یہ رعایت صرف اسی شخص سے خاص کی ہے جس سے یہ مسئلہ صادر ہوا تھا، حالانکہ اس تخصیص کی کوئی وجہ نہیں۔ کیا سادہ لوگوں کو اس دنیا میں رہنے کا حق نہیں؟ یا ان کو دھوکا دینا شرعاً جائز ہے؟ اسلام تو ایسی خود غرضی کی اجازت نہیں دیتا، لہٰذا چالاک لوگوں کی بجائے سادہ مومنوں کی حمایت کرنا چاہیے اور دھوکا دینے والوں کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے اور وہ مندرجہ بالا صورت ہی میں ہے۔