باب: تصریہ منع ہے وہ یہ ہے کہ اونٹنی یا بکری کے تھن باندھ دئیے جائیں اور دو تین دن دودھ دوہنا چھوڑ دیا جائے تاکہ دودھ جمع ہو جائے اورخریدنے والا دودھ زیادہ سمجھ کر جانور کی زیادہ قیمت لگائے
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Prohibition Of (Selling) al-Musarrah, and It Is To Bind The Udders Of the Camel Or The Sheep, And To Avoid Milking Them For Two Or Three Days, Until the Milk Gathers In Them, Increasing The Profits Of The Sale When It Is Seen That It Has A Great )
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4487.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”غلے والے قافلوں کو (منڈی سے باہر جا کر) خرید و فروخت کے لیے نہ ملو اور اونٹنی یا بکری کا دودھ نہ روکو۔ جو شخص ایسا جانور خرید لے تو اسے (دودھ دوہنے کے بعد) دو چیزوں میں سے بہتر کا اختیار ہے۔ اگر چاہے تو جانور رکھ لے اور اگر واپس کرنا چاہے تو واپس کر دے اور اس کے ساتھ کھجوروں کا ایک صاع بھی دے۔“
تشریح:
(1) بیع المصراۃ، ناجائز اور حرام ہے کیونکہ اس میں دھوکا اور فریب ہے جو شرعاً ناجائز ہے۔ (2) اس حدیث کی بابت امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دھوکا دہی سے ممانعت، عیب کا پتا چلنے کے بعد خریدار کو چیز واپس کرنے کے اختیار اور مدتِ اختیار کے تعین میں اصل ہے، نیز اس سے معلوم ہوا کہ اصل بیع حرام نہیں (الا یہ کہ خریدار اس سے راضی نہ ہو، مطلب یہ کہ پوشیدہ عیب کا علم ہو جانے کے بعد بھی اگر خریدار سودا واپس نہ کرنا چاہے، یعنی سودا فسخ نہ کرنا چاہے تو اسے، اس کا اختیار حاصل ہے کہ وہ سودا فسخ نہ کرے)۔ (3) جانور کے تھنوں میں دودھ، اس لیے روکا جاتا ہے تاکہ خریدار کو یہ معلوم ہو کہ جانور دودھیل (بہت دودھ دینے والا) ہے۔ اس طرح کے فریب کی وجہ سے خریدار زیادہ قیمت دینے پر تیار ہو جاتا ہے۔ (4) تصریہ کی تفسیر باب میں بیان ہو چکی ہے۔ چونکہ اس کا مقصد خریدار کو دھوکا دینا ہے اور ایسا دھوکا لگنا بہت ممکن ہے، لہٰذا شریعت نے خریدار کو سودے کی منسوخی کا اختیار دیا ہے۔ اور اس میں کوئی اشکال نہیں۔ جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں، البتہ احناف کو یہ بات اصول کے خلاف معلوم ہوتی ہے کہ طے شدہ سودے کو ایک فریق کیسے منسوخ کر سکتا ہے؟ حالانکہ دھوکا ایک بہت بڑا سبب ہے جو کسی بھی عقد کو فسخ کر سکتا ہے۔ خود احناف عیب کی بنا پر سودے کے فسخ کے قائل ہیں۔ اگر عیب معلوم ہونے سے سودا فسخ ہو سکتا ہے تو دھوکا معلوم ہونے سے سودا فسخ کیوں نہیں ہو سکتا؟ (5) ”کھجوروں کا ایک صاع“ اس دودھ کا معاوضہ جو پہلے مالک کے پاس ہوتے ہوئے جانور کے تھنوں میں جمع ہو چکا تھا اور خریدار نے وہ دودھ استعمال کیا۔ باقی رہی یہ بات کہ وہ دودھ تو کم و بیش ہو سکتا ہے، معاوضہ متعین کیوں کر دیا گیا؟ تو یہ دراصل قطع نزاع کے لیے ہے ورنہ قیمت کے تعین میں باہمی اختلاف ہو سکتا ہے۔ شریعت اس مسئلے میں ہم سے زیادہ سمجھ دار ہے۔ تبھی پیٹ کا بچہ ضائع کر دینے کی صورت میں شریعت نے ایک غلام یا گھوڑا معاوضہ مقرر کیا ہے۔ وہ بچہ پانچ ماہ کا بھی ہو سکتا ہے، نو ماہ کا بھی۔ اور یہ ضروری نہیں کہ غلام اور گھوڑے کی قیمت برابر ہو۔ بلکہ غلام اور غلام۔ نیز گھوڑے اور گھوڑے کی قیمت بھی برابر نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح شریعت نے ہاتھوں اور پاؤں کی ہر ہر انگلی کی دیت دس دس اونٹ مقرر کر رکھی ہے، خواہ وہ چھنگلی ہو یا انگوٹھا، خواہ ہاتھ سے ہو یا پاؤں سے، حالانکہ سب کی جسامت او مفاد برابر نہیں۔ اور اونٹوں کی قیمت بھی ایک جیسی نہیں۔ صاع کیوں مقرر کیا گیا؟ حتیٰ کہ انہوں نے اپنا غصہ راویٔ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر بھی جھاڑا ہے کہ وہ فقیہ نہیں تھے۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر چار سال تک صبح و شام رسول اللہ ﷺ سے فیض یاب ہونے والے وہ صحابی فقیہ نہیں بنے تو آپ حضرات کی فقاہت کی سند کیا ہے؟ چاند پر نہیں تھوکنا چاہیے ورنہ اپنا منہ بھی دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ چاند کا کچھ نہیں بگڑتا، نیز یہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اپنا فتویٰ نہیں کہ ان پر اعتراض کیا جائے بلکہ یہ تو رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے جسے انہوں نے نقل فرمایا ہے، نیز یہ روایت تو احناف کے مسلمہ فقیہ صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی آتی ہے۔ اب اپنے گھر کو تو ڈھانے سے رہے۔ بہتری اسی میں ہے کہ صحیح سند سے ثابت فرمان رسول کو بلاچون و چرا تسلیم کر لیا جائے اور شریعت کی باریکیوں کو شارع علیہ السلام کی بصیرت کے حوالے کر دیا جائے کہ رموز مملکت خویش خسرواں دانند۔ مختصراً یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے جانور کے ساتھ ایک صاع کھجوریں دینے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ اس جانور سے حاصل ہونے والے دودھ کا معاوضہ ہو جائے اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب خریدار نے وہ جانور خریدا تھا تو کچھ دودھ اس کی ملکیت میں آنے سے پہلے پیدا ہو چکا تھا اور کچھ دودھ ملکیت میں آنے کے بعد پیدا ہوا ہے لیکن یہ قطعاً معلوم نہیں ہو سکتا کہ کتنے دودھ کی قیمت خریدار نے ادا کی ہے اور کتنا دودھ نیا ہے، اس لیے دودھ یا اس کی قیمت واپس کرنا ممکن ہی نہیں تھا، لہٰذا رسول اللہ ﷺ نے اس دودھ کے مقابلے میں ایک صاع کھجوریں مقرر فرما دیں تاکہ مشتری اور بائع کے درمیان اختلاف پیدا نہ ہو۔ خریدنے والے شخص کو جو دودھ حاصل ہوا ہے یہ صاع اس کا معاوضہ بن جائے گا۔ اس معاملے میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ دودھ، معاوضے سے زیادہ تھا یا تھوڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ دودھ کم تھا یا زیادہ، اس کو معلوم کرنے کا کوئی آلہ اور پیمانہ وجود میں آیا ہے نہ آ ہی سکتا ہے۔ و اللہ أعلم۔ (6) جن علاقوں میں کھجور فراواں نہیں ہوتی، وہاں اس علاقے کی عام خوراک دی جا سکتی ہے، مثلاً: ہمارے علاقے میں گندم دی جا سکتی ہے۔ یہاں تو کھجوروں کا صاع بہت مہنگا ہو گا۔ کھجور کا تعین عرب علاقے کی مناسبت سے ہے کہ وہاں کھجور عام خوراک تھی اور با آسانی اور بہ افراط ملتی تھی، جیسے ہمارے ہاں گندم ہے۔ لیکن اس میں بھی مستحب یہی ہے کہ پورا صاع گندم دی جائے۔ اور اسی طرح جس علاقے کی خوراک چاول ہو، وہاں ایک صاع چاول دئیے جا سکتے ہیں۔ و اللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4503
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4487
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4411
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4487
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4498
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4499
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4492
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”غلے والے قافلوں کو (منڈی سے باہر جا کر) خرید و فروخت کے لیے نہ ملو اور اونٹنی یا بکری کا دودھ نہ روکو۔ جو شخص ایسا جانور خرید لے تو اسے (دودھ دوہنے کے بعد) دو چیزوں میں سے بہتر کا اختیار ہے۔ اگر چاہے تو جانور رکھ لے اور اگر واپس کرنا چاہے تو واپس کر دے اور اس کے ساتھ کھجوروں کا ایک صاع بھی دے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) بیع المصراۃ، ناجائز اور حرام ہے کیونکہ اس میں دھوکا اور فریب ہے جو شرعاً ناجائز ہے۔ (2) اس حدیث کی بابت امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دھوکا دہی سے ممانعت، عیب کا پتا چلنے کے بعد خریدار کو چیز واپس کرنے کے اختیار اور مدتِ اختیار کے تعین میں اصل ہے، نیز اس سے معلوم ہوا کہ اصل بیع حرام نہیں (الا یہ کہ خریدار اس سے راضی نہ ہو، مطلب یہ کہ پوشیدہ عیب کا علم ہو جانے کے بعد بھی اگر خریدار سودا واپس نہ کرنا چاہے، یعنی سودا فسخ نہ کرنا چاہے تو اسے، اس کا اختیار حاصل ہے کہ وہ سودا فسخ نہ کرے)۔ (3) جانور کے تھنوں میں دودھ، اس لیے روکا جاتا ہے تاکہ خریدار کو یہ معلوم ہو کہ جانور دودھیل (بہت دودھ دینے والا) ہے۔ اس طرح کے فریب کی وجہ سے خریدار زیادہ قیمت دینے پر تیار ہو جاتا ہے۔ (4) تصریہ کی تفسیر باب میں بیان ہو چکی ہے۔ چونکہ اس کا مقصد خریدار کو دھوکا دینا ہے اور ایسا دھوکا لگنا بہت ممکن ہے، لہٰذا شریعت نے خریدار کو سودے کی منسوخی کا اختیار دیا ہے۔ اور اس میں کوئی اشکال نہیں۔ جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں، البتہ احناف کو یہ بات اصول کے خلاف معلوم ہوتی ہے کہ طے شدہ سودے کو ایک فریق کیسے منسوخ کر سکتا ہے؟ حالانکہ دھوکا ایک بہت بڑا سبب ہے جو کسی بھی عقد کو فسخ کر سکتا ہے۔ خود احناف عیب کی بنا پر سودے کے فسخ کے قائل ہیں۔ اگر عیب معلوم ہونے سے سودا فسخ ہو سکتا ہے تو دھوکا معلوم ہونے سے سودا فسخ کیوں نہیں ہو سکتا؟ (5) ”کھجوروں کا ایک صاع“ اس دودھ کا معاوضہ جو پہلے مالک کے پاس ہوتے ہوئے جانور کے تھنوں میں جمع ہو چکا تھا اور خریدار نے وہ دودھ استعمال کیا۔ باقی رہی یہ بات کہ وہ دودھ تو کم و بیش ہو سکتا ہے، معاوضہ متعین کیوں کر دیا گیا؟ تو یہ دراصل قطع نزاع کے لیے ہے ورنہ قیمت کے تعین میں باہمی اختلاف ہو سکتا ہے۔ شریعت اس مسئلے میں ہم سے زیادہ سمجھ دار ہے۔ تبھی پیٹ کا بچہ ضائع کر دینے کی صورت میں شریعت نے ایک غلام یا گھوڑا معاوضہ مقرر کیا ہے۔ وہ بچہ پانچ ماہ کا بھی ہو سکتا ہے، نو ماہ کا بھی۔ اور یہ ضروری نہیں کہ غلام اور گھوڑے کی قیمت برابر ہو۔ بلکہ غلام اور غلام۔ نیز گھوڑے اور گھوڑے کی قیمت بھی برابر نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح شریعت نے ہاتھوں اور پاؤں کی ہر ہر انگلی کی دیت دس دس اونٹ مقرر کر رکھی ہے، خواہ وہ چھنگلی ہو یا انگوٹھا، خواہ ہاتھ سے ہو یا پاؤں سے، حالانکہ سب کی جسامت او مفاد برابر نہیں۔ اور اونٹوں کی قیمت بھی ایک جیسی نہیں۔ صاع کیوں مقرر کیا گیا؟ حتیٰ کہ انہوں نے اپنا غصہ راویٔ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر بھی جھاڑا ہے کہ وہ فقیہ نہیں تھے۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر چار سال تک صبح و شام رسول اللہ ﷺ سے فیض یاب ہونے والے وہ صحابی فقیہ نہیں بنے تو آپ حضرات کی فقاہت کی سند کیا ہے؟ چاند پر نہیں تھوکنا چاہیے ورنہ اپنا منہ بھی دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ چاند کا کچھ نہیں بگڑتا، نیز یہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اپنا فتویٰ نہیں کہ ان پر اعتراض کیا جائے بلکہ یہ تو رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے جسے انہوں نے نقل فرمایا ہے، نیز یہ روایت تو احناف کے مسلمہ فقیہ صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی آتی ہے۔ اب اپنے گھر کو تو ڈھانے سے رہے۔ بہتری اسی میں ہے کہ صحیح سند سے ثابت فرمان رسول کو بلاچون و چرا تسلیم کر لیا جائے اور شریعت کی باریکیوں کو شارع علیہ السلام کی بصیرت کے حوالے کر دیا جائے کہ رموز مملکت خویش خسرواں دانند۔ مختصراً یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے جانور کے ساتھ ایک صاع کھجوریں دینے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ اس جانور سے حاصل ہونے والے دودھ کا معاوضہ ہو جائے اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب خریدار نے وہ جانور خریدا تھا تو کچھ دودھ اس کی ملکیت میں آنے سے پہلے پیدا ہو چکا تھا اور کچھ دودھ ملکیت میں آنے کے بعد پیدا ہوا ہے لیکن یہ قطعاً معلوم نہیں ہو سکتا کہ کتنے دودھ کی قیمت خریدار نے ادا کی ہے اور کتنا دودھ نیا ہے، اس لیے دودھ یا اس کی قیمت واپس کرنا ممکن ہی نہیں تھا، لہٰذا رسول اللہ ﷺ نے اس دودھ کے مقابلے میں ایک صاع کھجوریں مقرر فرما دیں تاکہ مشتری اور بائع کے درمیان اختلاف پیدا نہ ہو۔ خریدنے والے شخص کو جو دودھ حاصل ہوا ہے یہ صاع اس کا معاوضہ بن جائے گا۔ اس معاملے میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ دودھ، معاوضے سے زیادہ تھا یا تھوڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ دودھ کم تھا یا زیادہ، اس کو معلوم کرنے کا کوئی آلہ اور پیمانہ وجود میں آیا ہے نہ آ ہی سکتا ہے۔ و اللہ أعلم۔ (6) جن علاقوں میں کھجور فراواں نہیں ہوتی، وہاں اس علاقے کی عام خوراک دی جا سکتی ہے، مثلاً: ہمارے علاقے میں گندم دی جا سکتی ہے۔ یہاں تو کھجوروں کا صاع بہت مہنگا ہو گا۔ کھجور کا تعین عرب علاقے کی مناسبت سے ہے کہ وہاں کھجور عام خوراک تھی اور با آسانی اور بہ افراط ملتی تھی، جیسے ہمارے ہاں گندم ہے۔ لیکن اس میں بھی مستحب یہی ہے کہ پورا صاع گندم دی جائے۔ اور اسی طرح جس علاقے کی خوراک چاول ہو، وہاں ایک صاع چاول دئیے جا سکتے ہیں۔ و اللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”آگے جا کر تجارتی قافلے سے مت ملو۱؎ اور اونٹنیوں اور بکریوں کو ان کے تھنوں میں دودھ روک کر نہ رکھو۲؎ ، اگر کسی نے ایسا جانور خرید لیا تو اسے اختیار ہے چاہے تو اسے رکھ لے اور چاہے تو اسے لوٹا دے اور (لوٹاتے وقت) اس کے ساتھ ایک صاع کھجور دیدے۔“ ۳؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : چونکہ باہر سے آنے والے تاجر کو بازار کی قیمت کا صحیح علم نہیں ہے اس لیے بازار میں پہنچنے سے پہلے اس سے سامان خریدنے میں تاجر کو دھوکہ ہو سکتا ہے ، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاجروں کے بازار میں پہنچنے سے پہلے ان سے مل کر ان کا سامان خریدنے سے منع فرما دیا ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو تاجر کو اختیار حاصل ہو گا بیع کے نفاذ اور عدم نفاذ کے سلسلہ میں۔ ۲؎ : تھن میں دو یا تین دن تک دودھ چھوڑے رکھنے اور نہ دوہنے کو «تصریہ» کہتے ہیں تاکہ اونٹنی یا بکری دودھاری سمجھی جائے اور جلد اور اچھے پیسوں میں بک جائے۔ ۳؎ : تاکہ وہ اس دودھ کا بدل بن سکے جو خریددار نے دوہ لیا ہے، نیز واضح رہے کہ کسی ثابت شدہ حدیث کی تردید یہ کہہ کر نہیں کی جا سکتی کہ کسی مخالف اصل سے اس کا ٹکراؤ ہے یا اس میں مثلیت نہیں پائی جا رہی ہے اس لیے عقل اسے تسلیم نہیں کرتی، بلکہ شریعت سے جو چیز ثابت ہو وہی اصل ہے اور اس پر عمل واجب ہے، اسی طرح حدیث مصراۃ ان احادیث میں سے ہے جو صحیح اور ثابت شدہ ہیں لہٰذا کسی قیل و قال کے بغیر اس پر عمل واجب ہے ۔ کسی قیاس سے اس کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "Do not go out to meet the riders, and do not bind the udders of camels and seep. Whoever has boughty anything in that manner has two choices: If he whishes he may keep it, or if he wants to return it he may return it, along with a Sa' of dates." (Sahih)