Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: the Muhajir selling For a Bedouin)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4491.
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ کوئی تاجر تجارتی قافلے کو منڈی سے باہر جا کر ملے، یا کوئی شہری کسی اعرابی (دیہاتی) کی کوئی چیز بیچے، یا کوئی اپنے جانور کا دودھ روکے، یا کوئی شخص ناجائز بھاؤ بڑھائے یا کوئی شخص کسی دوسرے بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ کرے۔ یا کوئی عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ کرے۔
تشریح:
(1) ”باہر جا کر ملے“ یہ ایک طریقہ تھا تجارتی قافلے کو دھوکے میں رکھنے کا کہ منڈی میں داخل ہونے سے پہلے آگے جا کر تجارتی قافلے کے ساتھ سودے کر لیے جائیں تاکہ قافلے والوں کو منڈی کے بھاؤ کا علم نہ ہو سکے اور ان سے سستا مال خرید لیا جائے۔ دراصل اس میں دھوکا مقصود ہے، لہٰذا شریعت نے اس سے منع فرما دیا بلکہ قافلے کو منڈی میں آنے دیا جائے، پھر ان سے سودے کیے جائیں۔ (2) ”کوئی شہری کسی اعرابی“ حدیث میں لفظ مہاجر استعمال ہوا ہے کیونکہ اس وقت اکثر مہاجر ہی تجارت کرتے تھے، انصار تو زمیندار تھے۔ فرمان کا مقصد یہ ہے کہ شہری آدمی دیہاتی کا سامان نہ بیچے کیونکہ اس سے مہنگائی پیدا ہو گی۔ آخر شہری نے اپنا کمیشن بھی تو نکالنا ہے۔ اگر دیہاتی خود اپنا سامان بیچے گا تو ظاہر ہے، وہ سستا بیچے گا کیونکہ اس نے اسی دن بیچ کر گھر واپس جانا ہوتا ہے جبکہ شہری اسے کہتا ہے کہ سامان میرے پاس رکھ چھوڑو، جب بھاؤ تیز ہو گا تو میں بیچ دوں گا۔ اس طریقے سے مہنگائی بڑھتی ہے، اس لیے منع فرمایا۔ ہاں، اگر شہری دیہاتی کے لیے کوئی چیز خریدے تو اجازت ہے کیونکہ اس سے مہنگائی نہیں ہو گی بلکہ وہ سستی چیز خریدے گا تاکہ کچھ اپنے لیے بھی بچا سکے۔ (3) ”بھاؤ بڑھائے“ کسی آدمی کی نیت چیز خریدنے کی نہیں لیکن وہ جان بوجھ کر ایک چیز کا بھاؤ زیادہ لگاتا ہے تاکہ اصل خریدار کو دھوکا دیا جا سکے اور وہ مہنگی خریدے۔ عام طور پر ایسے لوگ دکاندار کے ایجنٹ ہوتے ہیں جو کمیشن لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی دھوکا ہے، اس لیے منع کیا گیا ہے۔ (4) ”طلاق کا مطالبہ کرے“ کوئی عورت نکاح کے موقع پر یا بعد میں یہ شرط لگائے کہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے۔ یا پہلی بیوی دوسری بیوی کی طلاق کا مطالبہ کرے یہ ناجائز ہے کیونکہ اس میں بھی خود غرضی اور حسد کارفرما ہے۔ ہر عورت کا اپنا اپنا نصیب ہے جس پر اسے قناعت کرنی چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4507
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4491
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4415
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4491
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4502
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4503
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4496
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ کوئی تاجر تجارتی قافلے کو منڈی سے باہر جا کر ملے، یا کوئی شہری کسی اعرابی (دیہاتی) کی کوئی چیز بیچے، یا کوئی اپنے جانور کا دودھ روکے، یا کوئی شخص ناجائز بھاؤ بڑھائے یا کوئی شخص کسی دوسرے بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ کرے۔ یا کوئی عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ کرے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”باہر جا کر ملے“ یہ ایک طریقہ تھا تجارتی قافلے کو دھوکے میں رکھنے کا کہ منڈی میں داخل ہونے سے پہلے آگے جا کر تجارتی قافلے کے ساتھ سودے کر لیے جائیں تاکہ قافلے والوں کو منڈی کے بھاؤ کا علم نہ ہو سکے اور ان سے سستا مال خرید لیا جائے۔ دراصل اس میں دھوکا مقصود ہے، لہٰذا شریعت نے اس سے منع فرما دیا بلکہ قافلے کو منڈی میں آنے دیا جائے، پھر ان سے سودے کیے جائیں۔ (2) ”کوئی شہری کسی اعرابی“ حدیث میں لفظ مہاجر استعمال ہوا ہے کیونکہ اس وقت اکثر مہاجر ہی تجارت کرتے تھے، انصار تو زمیندار تھے۔ فرمان کا مقصد یہ ہے کہ شہری آدمی دیہاتی کا سامان نہ بیچے کیونکہ اس سے مہنگائی پیدا ہو گی۔ آخر شہری نے اپنا کمیشن بھی تو نکالنا ہے۔ اگر دیہاتی خود اپنا سامان بیچے گا تو ظاہر ہے، وہ سستا بیچے گا کیونکہ اس نے اسی دن بیچ کر گھر واپس جانا ہوتا ہے جبکہ شہری اسے کہتا ہے کہ سامان میرے پاس رکھ چھوڑو، جب بھاؤ تیز ہو گا تو میں بیچ دوں گا۔ اس طریقے سے مہنگائی بڑھتی ہے، اس لیے منع فرمایا۔ ہاں، اگر شہری دیہاتی کے لیے کوئی چیز خریدے تو اجازت ہے کیونکہ اس سے مہنگائی نہیں ہو گی بلکہ وہ سستی چیز خریدے گا تاکہ کچھ اپنے لیے بھی بچا سکے۔ (3) ”بھاؤ بڑھائے“ کسی آدمی کی نیت چیز خریدنے کی نہیں لیکن وہ جان بوجھ کر ایک چیز کا بھاؤ زیادہ لگاتا ہے تاکہ اصل خریدار کو دھوکا دیا جا سکے اور وہ مہنگی خریدے۔ عام طور پر ایسے لوگ دکاندار کے ایجنٹ ہوتے ہیں جو کمیشن لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی دھوکا ہے، اس لیے منع کیا گیا ہے۔ (4) ”طلاق کا مطالبہ کرے“ کوئی عورت نکاح کے موقع پر یا بعد میں یہ شرط لگائے کہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے۔ یا پہلی بیوی دوسری بیوی کی طلاق کا مطالبہ کرے یہ ناجائز ہے کیونکہ اس میں بھی خود غرضی اور حسد کارفرما ہے۔ ہر عورت کا اپنا اپنا نصیب ہے جس پر اسے قناعت کرنی چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے باہر نکل کر سامان خریدنے سے، مہاجر (شہری) کو دیہاتی کا مال بیچنے سے۱؎، جانوروں کے تھن میں قیمت بڑھانے کے مقصد سے دودھ چھوڑنے سے، خود خریدنا مقصود نہ ہو لیکن دوسرے کو ٹھگانے کے لیے بڑھ بڑھ کر قیمت لگانے سے اور اپنے بھائی کے مول پر بھاؤ بڑھانے سے اور اپنی سوکن ۲؎ کے لیے طلاق کا مطالبہ کرنے سے منع فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : «تَّلَقِّي» (شہر سے باہر جا کر بازار آنے والے تاجر کا مال خریدنے) میں نیز دیہات سے شہر کے بازار میں مال لانے والے سے بازار سے پہلے ہی مال خرید لینے میں اس طرح کے دونوں تاجروں نیز شہر کے عام باشندوں کو بھی نقصان کا اندیشہ ہے اس لیے اس طرح کی خریداری سے منع کر دیا گیا ہے تاجر کا نقصان اس طرح ہو سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بازار میں سامان کا بھاؤ زیادہ ہو اور تاجر کا نقصان ہو جائے اور شہر کے باشندوں کا نقصان اس طرح ہوگا کہ درمیان میں ایک اور واسطہ ہو جانے کے سبب سامان کا بھاؤ زیادہ ہو جائے۔ ۲؎ : یعنی ہونے والی سوکن، اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنی کسی بیوی کی موجودگی میں کسی دوسری عورت کو نکاح کا پیغام دے تو وہ عورت اس سے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دینے کی شرط رکھے، یہ ممنوع ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah (ﷺ) forbade meeting (the traders on the way) a Muhajhir selling for a Bedouin, keeping the milk in the udder of an animal (so as to increase its price), artificially inflating prices, a man to urge the cancellation of sale already agreed upon and a woman to ask that her sister (in faith) be divorced.