Sunan-nasai:
Mention The Fitrah (The Natural Inclination Of Man)
(Chapter: Cleaning Oneself With Water)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
45.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بیت الخلا میں داخل ہوتے تو میں اور میرے ساتھ مجھ جیسا کوئی اور لڑکا پانی کا برتن اٹھاتا، آپ اس پانی سے استنجا کرتے۔
تشریح:
(1) باب کا مقصد یہ ہے کہ ڈھیلے استعمال کرنا ضروری نہیں، بلکہ براہ راست پانی سے استنجا کیا جا سکتا ہے اور یہی افضل ہے۔ حدیث میں آیت ﴿فیه رجال یحبون أن یتطھروا﴾’’اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں۔‘‘ کی صحیح شانِ نزول یہی بیان ہوئی ہے کہ اہل قباء صرف پانی کے ساتھ استنجا کرتے تھے اور آیت میں اس طہارت کی بنا پر ان کی تعریف فرمائی گئی ہے۔ (سنن أبی داود، الطھارۃ، حدیث: ۴۴) جب کہ بعض حضرات اس نظریے کے حامل ہیں کہ یہ ایک مشروب ہے اور کھانے پینے میں اس کا استعمال ہوتا ہے، نیز ڈھیلے استعمال کیے بغیر براہ راست پانی استعمال کرنے سے پانی بھی گندہ ہو جائے گا اور ہاتھ بھی آلودہ ہوں گے، ان کا خیال ہے کہ اگر ڈھیلے استعمال کرنے کے بعد پانی استعمال کیا جائے تو یہ تمام قباحتیں ختم ہو جائیں گی۔ (2) اہل قباء کی تعریف میں جو آیت نازل ہوئی، اس کی وجہ ان کا پتھروں اور پھر پانی سے استنجا کرنا نہ تھی کیونکہ اس مفہوم کی روایت محققین کے نزدیک ضعیف ہے۔ دیکھیے: (مجمع الزوائد: ۲۹۱/۱، حدیث: ۱۰۵۳) اس لیے مستحب صرف پانی سے استنجا کرنا ہی ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آدمی اپنے ماتحت آزاد لوگوں سے خدمت لے سکتا ہے، نیز نیک لوگوں کی خدمت کرنا درست ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحمِح على شرط مسلم. وقد أخرجه هو والبخاري وأبو
عوانة في "صحاحهم ") .
إسناده: حدثنا وهب بن بقية عن خالد- يعني: الواسطي- عن خالد-
يعني: الحذأء- عن عطاء بن أبي ميمونة عن أنس بن مالك.
وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم.
وقد أخرجه في "صحيحه " كما سيأتي.
وأخرجه أبو عوانة في "صحيحه " (1/195) عن المصنف، فقال: ثنا أبو داود
السِّجْزِيُّ قال: ثنا وهب بن بقية... به.
و (السِّجْزِيُ) : نسبة إلى سجستان؛ قال المنذري (1/12) :
" وهو من عجيب التغيير في النسب، وقد نسب أبو داود وغيره كذلك ".
والحديث أخرجه مسلم: ثنا يحيى بن يحيى: أخبرنا خالد بن عبد الله...
به
ثمّ أخرجه هو والبخاري والنسائي وللدارمي وأبو عوانة أيضا، والطيالسي (رقم
2134) ، وعنه للبيهقي، وأحمد (3/171) من حديث شعبة عن عطاء... به.
والشيخان، وأحمد (3/112) ، ومن طريقه أبو عوانة عن روح بن القاسم عنه... به.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بیت الخلا میں داخل ہوتے تو میں اور میرے ساتھ مجھ جیسا کوئی اور لڑکا پانی کا برتن اٹھاتا، آپ اس پانی سے استنجا کرتے۔
حدیث حاشیہ:
(1) باب کا مقصد یہ ہے کہ ڈھیلے استعمال کرنا ضروری نہیں، بلکہ براہ راست پانی سے استنجا کیا جا سکتا ہے اور یہی افضل ہے۔ حدیث میں آیت ﴿فیه رجال یحبون أن یتطھروا﴾’’اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں۔‘‘ کی صحیح شانِ نزول یہی بیان ہوئی ہے کہ اہل قباء صرف پانی کے ساتھ استنجا کرتے تھے اور آیت میں اس طہارت کی بنا پر ان کی تعریف فرمائی گئی ہے۔ (سنن أبی داود، الطھارۃ، حدیث: ۴۴) جب کہ بعض حضرات اس نظریے کے حامل ہیں کہ یہ ایک مشروب ہے اور کھانے پینے میں اس کا استعمال ہوتا ہے، نیز ڈھیلے استعمال کیے بغیر براہ راست پانی استعمال کرنے سے پانی بھی گندہ ہو جائے گا اور ہاتھ بھی آلودہ ہوں گے، ان کا خیال ہے کہ اگر ڈھیلے استعمال کرنے کے بعد پانی استعمال کیا جائے تو یہ تمام قباحتیں ختم ہو جائیں گی۔ (2) اہل قباء کی تعریف میں جو آیت نازل ہوئی، اس کی وجہ ان کا پتھروں اور پھر پانی سے استنجا کرنا نہ تھی کیونکہ اس مفہوم کی روایت محققین کے نزدیک ضعیف ہے۔ دیکھیے: (مجمع الزوائد: ۲۹۱/۱، حدیث: ۱۰۵۳) اس لیے مستحب صرف پانی سے استنجا کرنا ہی ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آدمی اپنے ماتحت آزاد لوگوں سے خدمت لے سکتا ہے، نیز نیک لوگوں کی خدمت کرنا درست ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب قضائے حاجت کی جگہ میں داخل ہونے کا ارادہ فرماتے تو میں اور میرے ساتھ مجھ ہی جیسا ایک لڑکا دونوں پانی کا برتن لے جا کر رکھتے، تو آپ پانی سے استنجاء فرماتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas bin Malik (RA) said: “When the Messenger of Allah (ﷺ) would go to the toilet, I and another boy like me would bring a small leather vessel of water and he would clean himself with water.” (Sahih)