Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Urging A Seller To Cancel A Sale Already Agreed Upon With Another Buyer so As To Buy The Goods Oneself)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4502.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے، دھوکے سے بھاؤ نہ بڑھاؤ، کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ کرے اور نہ اس کے پیغام نکاح پر پیغام بھیجے اور نہ کوئی عورت اپنی (سوکن) بہن کی طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ اس کے برتن کو انڈیل دے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ بھی نکاح کرے جو اس کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے، اسے مل جائے گا۔“
تشریح:
(1) مصنف رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے مسلمان بھائی کے سودے پر سودا کرے۔ یہ بات یاد رہنا چاہیے کہ سودے میں خرید و فروخت، دونوں چیزیں ہی آتی ہیں۔ تفصیل اس طرح ہے کہ کوئی شخص خریدار سے یہ کہے کہ اس سے یہ چیز نہ خرید۔ میں تجھے اس سے سستی دیتا ہوں اور نہ کوئی بیچنے والے سے یہ کہے کہ اسے نہ بیچ، میں یہ چیز اس سے زیادہ قیمت میں تجھ سے خرید لوں گا۔ یہ دونوں کام حرام ہیں۔ (2) یہ حدیث مبارکہ اس سے بھی روکتی ہے کہ کسی دیہاتی شخص کی چیز کوئی شہری بیچے، اس لیے کہ شہری کے لیے حرام ہے کہ وہ دیہاتی سے کہے کہ تو اپنا مال میرے پاس رکھ دے جب قیمت زیادہ ہو جائے گی، میں تیری چیز مہنگے داموں بیچ دوں گا۔ ہاں، اگر دیہاتی شخص کو منڈی وغیرہ کے بھاؤ کا کوئی علم نہیں یا یہ خطرہ ہے کہ خریدار اسے ”پینڈو“ سمجھتے ہوئے دھوکا دے کر اس کی چیز سستے داموں اس سے خرید لے گا او اسے لاعلمی کی وجہ سے اپنی چیز کی اصل اور مناسب قیمت بھی نہیں ملے گی اور کوئی شہری ازراہِ ہمدردی اس کا سودا، کما حقہ، مناسب قیمت کے عوض بیچ دے تو یہ عمل قابل تعریف ہے اور ایسا شخص عنداللہ اجر و ثواب کا حق دار ہے۔ ممانعت وہاں ہے جہاں شہری اپنا اُلو سیدھا کرنے کے چکر میں ہو، دیہاتی کی خیر خواہی سرے سے مطلوب ہی نہ ہو۔ (3) یہ حدیث مبارکہ بیع نجش کی حرمت کی بھی دلیل ہے۔ بیع نجش کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص کا مقصد چیز خریدنا بالکل نہیں ہوتا لیکن دو سودا کرنے والوں کے پاس آ کر وہ بکنے والی چیز کی زیادہ قیمت لگا دیتا ہے تاکہ خریدار دھوکا کھا جائے اور ایک کم قیمت چیز، زیادہ قیمت میں خرید لے۔ ایسے عموماً دکانداروں کے ”پالتو“ ایجنٹ ہی ہوتے ہیں، وہ اپنی اس ناجائز حرکت اور غیر شرعی کام کے باقاعدہ پیسے لیتے ہیں۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہر وہ صورت ناجائز اور حرام ہے جس سے دوسرے مسلمان کو نقصان پہنچانا مقصود ہو اور وہ صورت جائز اور ممدوح ہے جس میں دوسرے مسلمان کی خیر خواہی مطلوب ہو اور اس سے شریعت کا کوئی تقاضا بھی مجروح نہ ہوتا ہو۔ و اللہ أعلم۔ (4) یہ حدیث مبارکہ اس اہم اصول کی بھی صریح دلیل ہے کہ شریعت نے ہر اس سبب اور ذریعے کو قطعی طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے جو باہمی بغض و عناد کی طرف لے جانے والا ہو یا بخیلی، حسد اور کینے وغیرہ تک پہنچا دینے والا ہو۔ الغرض! شریعت مطہرہ نے ہر وہ دروازہ مسدود کر دیا ہے جو مذکورہ یا ان جیسی دیگر اشیاء کی طرف کھلتا ہو۔ (5) ”برتن انڈیل دے“ یعنی اس کو نکاح کے فوائد سے محروم کر دے۔ باقی دیکھئے روایت: ۴۴۹۶۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4518
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4502
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4426
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4502
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4513
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4514
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4506
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے، دھوکے سے بھاؤ نہ بڑھاؤ، کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ کرے اور نہ اس کے پیغام نکاح پر پیغام بھیجے اور نہ کوئی عورت اپنی (سوکن) بہن کی طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ اس کے برتن کو انڈیل دے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ بھی نکاح کرے جو اس کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے، اسے مل جائے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مصنف رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے مسلمان بھائی کے سودے پر سودا کرے۔ یہ بات یاد رہنا چاہیے کہ سودے میں خرید و فروخت، دونوں چیزیں ہی آتی ہیں۔ تفصیل اس طرح ہے کہ کوئی شخص خریدار سے یہ کہے کہ اس سے یہ چیز نہ خرید۔ میں تجھے اس سے سستی دیتا ہوں اور نہ کوئی بیچنے والے سے یہ کہے کہ اسے نہ بیچ، میں یہ چیز اس سے زیادہ قیمت میں تجھ سے خرید لوں گا۔ یہ دونوں کام حرام ہیں۔ (2) یہ حدیث مبارکہ اس سے بھی روکتی ہے کہ کسی دیہاتی شخص کی چیز کوئی شہری بیچے، اس لیے کہ شہری کے لیے حرام ہے کہ وہ دیہاتی سے کہے کہ تو اپنا مال میرے پاس رکھ دے جب قیمت زیادہ ہو جائے گی، میں تیری چیز مہنگے داموں بیچ دوں گا۔ ہاں، اگر دیہاتی شخص کو منڈی وغیرہ کے بھاؤ کا کوئی علم نہیں یا یہ خطرہ ہے کہ خریدار اسے ”پینڈو“ سمجھتے ہوئے دھوکا دے کر اس کی چیز سستے داموں اس سے خرید لے گا او اسے لاعلمی کی وجہ سے اپنی چیز کی اصل اور مناسب قیمت بھی نہیں ملے گی اور کوئی شہری ازراہِ ہمدردی اس کا سودا، کما حقہ، مناسب قیمت کے عوض بیچ دے تو یہ عمل قابل تعریف ہے اور ایسا شخص عنداللہ اجر و ثواب کا حق دار ہے۔ ممانعت وہاں ہے جہاں شہری اپنا اُلو سیدھا کرنے کے چکر میں ہو، دیہاتی کی خیر خواہی سرے سے مطلوب ہی نہ ہو۔ (3) یہ حدیث مبارکہ بیع نجش کی حرمت کی بھی دلیل ہے۔ بیع نجش کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص کا مقصد چیز خریدنا بالکل نہیں ہوتا لیکن دو سودا کرنے والوں کے پاس آ کر وہ بکنے والی چیز کی زیادہ قیمت لگا دیتا ہے تاکہ خریدار دھوکا کھا جائے اور ایک کم قیمت چیز، زیادہ قیمت میں خرید لے۔ ایسے عموماً دکانداروں کے ”پالتو“ ایجنٹ ہی ہوتے ہیں، وہ اپنی اس ناجائز حرکت اور غیر شرعی کام کے باقاعدہ پیسے لیتے ہیں۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہر وہ صورت ناجائز اور حرام ہے جس سے دوسرے مسلمان کو نقصان پہنچانا مقصود ہو اور وہ صورت جائز اور ممدوح ہے جس میں دوسرے مسلمان کی خیر خواہی مطلوب ہو اور اس سے شریعت کا کوئی تقاضا بھی مجروح نہ ہوتا ہو۔ و اللہ أعلم۔ (4) یہ حدیث مبارکہ اس اہم اصول کی بھی صریح دلیل ہے کہ شریعت نے ہر اس سبب اور ذریعے کو قطعی طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے جو باہمی بغض و عناد کی طرف لے جانے والا ہو یا بخیلی، حسد اور کینے وغیرہ تک پہنچا دینے والا ہو۔ الغرض! شریعت مطہرہ نے ہر وہ دروازہ مسدود کر دیا ہے جو مذکورہ یا ان جیسی دیگر اشیاء کی طرف کھلتا ہو۔ (5) ”برتن انڈیل دے“ یعنی اس کو نکاح کے فوائد سے محروم کر دے۔ باقی دیکھئے روایت: ۴۴۹۶۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال ہرگز نہ بیچے، اور نہ بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے کا کام کرو، اور نہ آدمی اپنے (مسلمان) بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ لگائے، اور نہ (مسلمان) بھائی کی شادی کے پیغام پر پیغام بھیجے اور نہ عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ جو اس کے برتن میں ہے اسے بھی اپنے لیے انڈیل لے (یعنی جو اس کی قسمت میں تھا وہ اسے مل جائے) بلکہ (بلا مطالبہ و شرط) نکاح کرے، کیونکہ اسے وہی ملے گا جو اس کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: The Messenger of Allah (ﷺ) said: "No town-dweller should sell for a desert-dweller, do not artificially inflate prices, no man should urge a seller to cancel a sale already agreed upon with another buy so as to by the goods himself, no one should make a proposal over the proposal of his brother and no woman should make a proposal over the proposal of his brother and no woman should ask for her sister in faith) to be divorced so as to turn over what is in her vessel Deprived her of her share of maintenance) and so that she may get married in her place: she will have what Allah has decreed or her.