باب: نماز کی فرضیت کا بیان اور حضرت انسؓ کی حدیث کی سند میں راویوں کے اختلاف اور اس(کے متن)میں ان کے لفظی اختلاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Salah
(Chapter: Enjoining As-Salah And Mentioning The Differences Reported by The Narrators In The Chain Of The Hadith Of Anas Bin Malik (May Allah Be Pleased With Him), And The Different Wordings In It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
451.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کو معراج کروائی گئی تو آپ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا۔ اور وہ (اس کی جڑ) چھٹے آسمان میں ہے۔ نیچے سے جو چیز اوپر جاتی ہے وہ وہاں جاکر رک جاتی ہے۔ اور اوپر سے جو کچھ اترتا ہے وہ بھی وہاں آکر رک جاتا ہے، حتیٰ کہ وہاں سے وصول کرلیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: (اذ یغشی السدرۃ یغشی) (النجم۵۳:۱۶) سے مراد سونے کے پتنگے ہیں (جنھوں نے سدرۃ المنتہیٰ کو ڈھانپ رکھا تھا۔) وہاں آپ کو تین چیزیں عطا فرمائی گئیں: پانچ نمازیں، سورۂ بقرہ کی آخری آیات اور آپ کی امت کے ہر اس شخص کے کبائر معاف کردیے جائیں گے جو اس حال میں فوت ہوا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا تھا۔
تشریح:
(1) براق کا ذکر روایات معراج میں بیت المقدس تک ہی ملتا ہے، اس لیے کہا گیا ہے کہ بیت المقدس سے آگے آسمانوں کا سفر ایک سیڑھی نما چیز ”معراج“ کے ذریعے سے ہوا لیکن اس کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں۔ واللہ اعلم۔ (2) بیت المقدس میں تمام انبیاء علیہم السلام کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کے لیے حاضر ہونا اور آپ کا ان کی امامت کروانا آپ کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے جو کسی اور نبی کو نصیب نہیں ہوا۔ ظاہر تو یہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام جسمانی طور پر حاضر تھے نہ کہ صرف روحانی طور پر جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی طور پر بیت المقدس اور آسمانوں پر تشریف لے گئے۔ فوت شدہ انبیاء علیہم السلام کے جسم بھی اللہ تعالیٰ محفوظ رکھتا ہے۔ (سنن ابی داود، الصلاة، حدیث:۱۰۴۷) اگر انبیاء علیہم السلام صرف روحانی طور پر ہی لائے گئے ہوں تو بھی واقعہ کی اہمیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بہرحال یہ معاملہ برزخ کا ہے جو انسان کی رسائی سے باہر ہے۔ (3)عام احادیث میں سدرۃ المنتہیٰ تک جانے کا ذکر ہی ملتا ہے مگر صحیحین کی ایک روایت میں ایک اور مقام پر آپ کے چڑھنے کا ذکر ہے جہاں سے آپ کو قلموں کی سرسراہٹ بھی سنائی دی۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: ۳۴۹، وصحیح مسلم، الایمان، حدیث:۱۶۳) لیکن اس مقام کا کوئی نام ذکر نہیں کیا گیا۔ (4)سورۃ البقرہ کی آخری آیات کا نزول بالاتفاق مدنی ہے اور واقعہ معراج مکی ہے۔ معراج میں سورۂ بقرہ کی آخری آیات دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیات عطا کرنے کا وعدہ کرلیا گیا جب کہ نزول بعد میں مدینہ منورہ میں ہوا۔ واللہ أعلم۔ (5)کبائر کی معافی کی دو صورتیں ہوں گی: جس کو اللہ تعالیٰ چاہے گا پہلے مرحلے ہی میں اپنے فضل و کرم سے معاف فرما کر جنت میں داخل فرما دے گا کیونکہ بعض کے بلاتوبہ بھی کبائر معاف ہوجائیں گے، ورنہ جہنم میں سزا بھگت کر پھر معافی ہوگی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
451
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
450
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
452
تمہید کتاب
امام نسائی طہارت اور اس سے متعلق دیگر احکام و مسائل بیان کرنے کے بعد ایسی عبادت سے متعلق احکام و مسائل بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جس سے پہلے طہارت شرط ہے اور وہ عبادت نماز ہے جس کی بابت احادیث میں مروی ہے کہ دین اسلام میں شہادتین کے اقرار کے بعد نماز دین کا اہم ترین رکن ہے اور حقوق اللہ میں سے اسی کا سب سے پہلے حساب ہوگا ذیل میں اسی عبادت کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور اس کی فرضیت و اہمیت کی احادیث کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے تاکہ قارئین احکام و مسائل جاننے اور پڑھنے سے قبل اس کی اہمیت اور فضیلت بھی جان لیں ۔صلاة (نماز) کے لغوی معنی’’ دعا‘‘ پر مشتمل ہے اس لیے اسے اس نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔(سبل السلام:1/193) شرعی اصطلاح میں نماز چند اقوال و افعال کا نام ہے جن کا آغاز چند مخصوص شرائط کے ساتھ تکبیر تحریمہ سے ہوتا ہے اور اختتام سلام پر ۔دیکھیے: الفقه على المذاهب الأربعة ،ص:103،طبع جديد دارابن الهيثم)توحید و رسالت کے اقرار کے بعد ایک بالغ مسلمان مرد و عورت پانچ وقت اقامت صلاۃ کا پابند ہے ‘نیز نماز ارکان خمسہ میں سے اسلام کا دوسرا اہم رکن ہے لہذا جو شخص جانتے بوجھتے اس کی فرضیت کا منکر ہو‘وہ بالاتفاق دائرہ اسلام سے خارج ہوگا نماز مومن کی ایک اہم پہچان ہے یہ برائی اور بے ۔حیائی سے روکتی ہے اس کی مداومت و محافظت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلاح و فوز کا وعدہ ہے بلوغت سے تا دم حیات انسان اس کا پابند ہے عذر کی صورت میں کیفیت ادا میں تو اس کی تخفیف ہے لیکن معافی قطعاً نہیں اس کا مقصد اعظم تو یاد الٰہی ہے لیکن عاجزی دور ماندگی کے اظہار کے لیے اللہ کے سامنے یہ ایک عمدہ صورت ہے یہ نفس کا سکون اورروح کی غذا ہے ہم و غم اور دکھ درد کا کامیاب علاج ہے مردن دلوں کی مایوسی اور ویرانی کے لیے آب حیات ہے راہ راست رب العالیمن سے مناجات کا ذریعہ ارو مومن کی معراج ہے بے صبری میں نسخۂ کیمیا اور مومن کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔[جعلت قرة عيني فى الصلاةِ] بہر حال قرآن کریم کی بیسیوں آیات میں نماز کا حکم اس کی اہمیت کے لیے کافی ہے علاوہ ازیں احادیث میں اس کے احکام و اوامر اس کی اہمیت و وقعت کو چار چاند لگا دیتے ہیں لہذا تارک الصلاۃ یا اس کے حق میں سستی برتنے والے کے لیے بالکل گنجائش کا کوئی راستہ نہیں نکلتا یاد رہے نماز کی ادائیگی کے لیے ’’ اقامت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اپنے اندر وسیع تر مفہوم رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ نماز اپنی حدودوقیود ‘فرائض و واجبات ‘شرائط اور مسنون طریقے کے مطابق ادا کی جائے تب مذکورہ بالا فوائد کا حصول ممکن اور اقامت صلاۃ کا اہتمام ہو سکتا ہے وگرنہ مرضی یا وقت گزاری کی نماز عنداللہ شرف قبولیت حاصل نہیں کر سکتی۔آپﷺ کا فرمان ہے ۔[خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ]’’جس شخص نے عمد طریقے سے ان (نمازوں) کا وضو کیا ‘ بروقت ان کی ادائیگی کی اور ان کے رکوع اور خشوع کو مکمل طور پر بجا لایا تو اس کے حق میں اللہ کا وعدہ اور ذمہ ہے کہ وہ اسے بخش دے گا ۔ اور جس نے (اس طرح) بجا آوری نہ کی تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی ذمہ نہیں ‘چاہے تو اسے بخش اور چاہے تو اسے عذاب دے۔‘‘(وانظر صحيح سنن أبي داود (مفصل) للالبانى ،حديث :452)نماز کی اہمیت وفضیلت سے متعلق کچھ دیگر احادیث بطور دیل و حجت کے حاضر خدمت ہیں:حضرت ابوہریرہ ٰ سے مروی حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے پوچھا:” مجھے بتاؤ اگر تم میں سے کسی ایک کےگھر کے سامنے نہر بہہ رہی ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ مرتب نہاۓ کیا اس کے بدن پر میل کچیل باقی رہ جائے گا؟‘‘ صحابہ کرام نے جواب دیا: نہیں۔ تب آپ ﷺنے فرمایا: ’پانچ نمازوں کی مثال ایسے ہی ہے۔ اللہ تعالی ان کی وجہ سے خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح البخاري، مواقيت الصلاة)حديث:۵۲۸، وصحيح مسلم المساجد حديث:۲۹۷) نیز حضرت عبداللہ بن مسعود سے منقول ہے رسول ﷺ نے فرمایا: (گناہوں کی وجہ سے) تم جلتے ہو جھلستے ہو۔ جب تم صبح کی نماز پڑھتے ہو تو یہ گناہوں کو دھو ڈالتی ہے پھر تم جھلستے ہی رہتے ہو یہاں تک کہ ظہر کی نماز پڑھتے ہو تو یہ خطاؤں کو دھو ڈالتی ہے۔ پھر تم ( گناہوں کی وجہ سے )آگ میں جلتے جھلتے ہو اور جب صبح کی نماز پڑتے ہو تو یہ گناہوں کو دھوڈالتی ہے عصر کی نماز پڑھ لیتے ہو تو یہ انھیں دھو دیتی ہے۔ پھر (خطاؤں کی تپش سے )جلتے ہو حتی کہ تم عشاء کی نماز پڑھتے ہو تو یہ نماز ان (گناہوں) کو دھو ڈالتی ہے پھر تم سو جاتے ہو تمہارا کچھ بھی نہیں لکھا جاتا یہاں تک کہ تم بیدار ہو جاؤ(المعجم الكبير للطبرانى ،حديث:8739 موقوفا والاوسط له،ٍحديث:2224- وصحيح الترغيب والترهيب،حديث :357) نيز حضرت انس بن مالك سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہر نماز کے وقت منادی کرتا ہے اے بنی نوع انسان! تم نے جو آگ بھڑکائی ہے اسے بجھانے کے لیے اٹھو یعنی نماز پر پر‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانى ،حديث 9452 وانظر صحيح الترغيب والترهيب، حديث :358)اسی طرح آپ کا فرمان ہے کہ جب بندۂ مسلمان نماز پڑھتا ہے تو اس کی خطائیں اس کے سر پر بلند ہوتی ہیں جب بھی وہ سجدہ کرتا ہے تو اس سے گرتی جاتی ہیں بالآخرجب وہ نماز سے فارغ ہو جاتا ہے تو اس کی لغزشیں گر (معاف ہو)چکی ہوتی ہیں ۔‘‘ترک صلاۃ یا اس میں کمی کوتاہی یا سستی کفریہ و تیرہ اور منافقانہ روش ہے نبئ اکرمﷺ نے بندے اور کفر و شرک کے درمیان حد امتیاز ترک صلاۃ کو قرار دیا ہے ۔صحیح مسلم الایمان حدیث 82) امیرالمؤمنین عمر فاروق جب زخمی تھے ‘انھوں نے نماز ادا کی اور فرمایا دجو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘یہ تو تھی نماز کی فرضیت اور اہمیت و فضیلت جبکہ نماز کے دیگر احکام و مسائل امام نسائی نے بیان کیے ہیں جن کی تفصیل آگے اپنے اپنے مقام پر آئے گی ۔ انشاءاللہ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کو معراج کروائی گئی تو آپ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا۔ اور وہ (اس کی جڑ) چھٹے آسمان میں ہے۔ نیچے سے جو چیز اوپر جاتی ہے وہ وہاں جاکر رک جاتی ہے۔ اور اوپر سے جو کچھ اترتا ہے وہ بھی وہاں آکر رک جاتا ہے، حتیٰ کہ وہاں سے وصول کرلیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: (اذ یغشی السدرۃ یغشی) (النجم۵۳:۱۶) سے مراد سونے کے پتنگے ہیں (جنھوں نے سدرۃ المنتہیٰ کو ڈھانپ رکھا تھا۔) وہاں آپ کو تین چیزیں عطا فرمائی گئیں: پانچ نمازیں، سورۂ بقرہ کی آخری آیات اور آپ کی امت کے ہر اس شخص کے کبائر معاف کردیے جائیں گے جو اس حال میں فوت ہوا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) براق کا ذکر روایات معراج میں بیت المقدس تک ہی ملتا ہے، اس لیے کہا گیا ہے کہ بیت المقدس سے آگے آسمانوں کا سفر ایک سیڑھی نما چیز ”معراج“ کے ذریعے سے ہوا لیکن اس کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں۔ واللہ اعلم۔ (2) بیت المقدس میں تمام انبیاء علیہم السلام کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کے لیے حاضر ہونا اور آپ کا ان کی امامت کروانا آپ کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے جو کسی اور نبی کو نصیب نہیں ہوا۔ ظاہر تو یہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام جسمانی طور پر حاضر تھے نہ کہ صرف روحانی طور پر جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی طور پر بیت المقدس اور آسمانوں پر تشریف لے گئے۔ فوت شدہ انبیاء علیہم السلام کے جسم بھی اللہ تعالیٰ محفوظ رکھتا ہے۔ (سنن ابی داود، الصلاة، حدیث:۱۰۴۷) اگر انبیاء علیہم السلام صرف روحانی طور پر ہی لائے گئے ہوں تو بھی واقعہ کی اہمیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بہرحال یہ معاملہ برزخ کا ہے جو انسان کی رسائی سے باہر ہے۔ (3)عام احادیث میں سدرۃ المنتہیٰ تک جانے کا ذکر ہی ملتا ہے مگر صحیحین کی ایک روایت میں ایک اور مقام پر آپ کے چڑھنے کا ذکر ہے جہاں سے آپ کو قلموں کی سرسراہٹ بھی سنائی دی۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: ۳۴۹، وصحیح مسلم، الایمان، حدیث:۱۶۳) لیکن اس مقام کا کوئی نام ذکر نہیں کیا گیا۔ (4)سورۃ البقرہ کی آخری آیات کا نزول بالاتفاق مدنی ہے اور واقعہ معراج مکی ہے۔ معراج میں سورۂ بقرہ کی آخری آیات دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیات عطا کرنے کا وعدہ کرلیا گیا جب کہ نزول بعد میں مدینہ منورہ میں ہوا۔ واللہ أعلم۔ (5)کبائر کی معافی کی دو صورتیں ہوں گی: جس کو اللہ تعالیٰ چاہے گا پہلے مرحلے ہی میں اپنے فضل و کرم سے معاف فرما کر جنت میں داخل فرما دے گا کیونکہ بعض کے بلاتوبہ بھی کبائر معاف ہوجائیں گے، ورنہ جہنم میں سزا بھگت کر پھر معافی ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ (معراج کی شب) جب رسول اللہ ﷺ کو لے جایا گیا تو جبرائیل ؑ آپ کو لے کر سدرۃ المنتہیٰ پہنچے، یہ چھٹے آسمان پر ہے ۱؎ جو چیزیں نیچے سے اوپر چڑھتی ہیں ۲؎ یہیں ٹھہر جاتی ہیں، اور جو چیزیں اس کے اوپر سے اترتی ہیں ۳؎ یہیں ٹھہر جاتی ہیں، یہاں تک کہ یہاں سے وہ لی جاتی ہیں ۴؎ عبداللہ بن مسعود ؓ نے آیت کریمہ «إذ يغشى السدرة يغشى» ۵؎ (جب کہ سدرۃ کو ڈھانپ لیتی تھیں وہ چیزیں جو اس پر چھا جاتی تھیں) پڑھی اور (اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے) کہا: وہ سونے کے پروانے تھے، تو (وہاں) آپ کو تین چیزیں دی گئیں: پانچ نمازیں، سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں ۶؎، اور آپ کی امت میں سے اس شخص کی کبیرہ گناہوں کی بخشش، جو اللہ کے ساتھ بغیر کچھ شرک کئے مرے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس سے پہلے انس رضی اللہ عنہ والی روایت میں ہے کہ ساتویں آسمان پر ہے، دونوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان پر ہے اور شاخیں ساتویں آسمان پر ہیں۔ ۲؎ : یعنی نیک اعمال یا روحیں وغیرہ ۔ ۳؎ : یعنی اوامر اور فرامین الٰہی وغیرہ۔ ۴؎ : مطلب یہ ہے کہ فرشتے یہیں سے اسے وصول کرتے ہیں اور جہاں حکم ہوتا ہے اسے پہنچاتے ہیں۔ ۵؎ : النجم : ۱۶۔ ۶؎ : یعنی یہ طے ہوا کہ آپ کو عنقریب یہ آیتیں دی جائیں گی، یہ تاویل اس لیے کرنی پڑ رہی ہے کہ یہ آیتیں مدنی ہیں اور معراج کا واقعہ مکی دور میں پیش آیا تھا، یا یہ کہا جائے کہ یہ آیتیں مکی ہیں اور باقی پوری سورت مدنی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that ‘Abdullah said: “When the Messenger of Allah (ﷺ) was taken on the Night Journey, he came to Sidrah Al Muntaha, which is in the sixth heaven. That is where everything that comes up from below ends, and where everything that comes down from above, until it is taken from it. Allah says: When what covered the lote-tree did cover it!. He said: “It was moths of gold. And I was given three things: The five daily prayers, the last verses of Sarah Al-Ba qarah, and whoever of my Ummah dies without associating anything with Allah will be forgiven for Al Muqhimat.” (Sahih)