باب: صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے اس شرط پر پھل خریدنا کہ خریدار انھیں (درختوں سے) کاٹ اور توڑلے گا پکنے تک (درختوں پر) باقی نہیں رکھ چھوڑے گا
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Buying Fruits Before Their Condition is Known On Condition That he Will Pick Them And Not Leave Them Until They Ripen)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4526.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پھل پکنے سے پہلے ان کو بیچنے سے منع فرمایا۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! پکنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ سرخ ہو جائیں (پکنے کے قریب ہو جائیں اور کسی قسم کی آفت کا احتمال نہ رہے۔“) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بتاؤ اگر اللہ تعالیٰ پھل روک لے تو تم میں سے کوئی کس بنا پر اپنے بھائی سے رقم لے گا؟“
تشریح:
(1) اس باب سے مًلف رحمہ اللہ کا مقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ فوراََ کاٹ لینے کی شرط پر، پکنے سے پہلے پھلوں کی خرید صفروخت جائز ہے لیکن اس صورت میں جب اس سے انتفاع ممکن ہو۔ امام شافعی،احمد اور جمہور علماء کا یہی موقف ہے۔ ہمارے ہاں عموما اچار کےلیے آم پکنے سے پہلے کاٹ لیے جاتے ہیں۔ (2) ہمارے ہاں جو یہ رواج ہے کہ لوگ اپنے باغ کا پھل کئی سال کے لیے بیچ دیتے ہیں تو یہ عمل اس حدیث کی رو ناجائز اور حرام ہے۔ جب موجود پھل، جو ابھی تک کھانے کے قابل نہیں ہوا، اس کی خرید و فروخت ممنوع ہے تو آئندہ سال یا کئی سالوں کا ٹھیکہ، جو کہ بالکل معدوم پھلوں کا ہوتا ہے، کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ اس ممانعت کی وجہ بالکل واضح ہے کہ اس میں نرا دھوکا ہی دھوکا ہے، نیز یہ مجہول چیز کی بیع ہے جو کہ شرعاََ ناجائز ہے۔ مزید بر آں یہ بھی کہ یہ ایک ایسی چیز کی بیع ہے جو بیچنے والے کے پاس نہیں ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: [لاتبعْماليسَعندكَ]”جو چیز تیرے پاس نہیں وہ مت بیچ۔“(جامع الترمذي، البيوع ،باب، ما جاء في كراهية بيع ما ليس عنده حديث :۱۲۳۲وسسن النسائي، البيوع، باب بيع ما ليس عند البائع، حديث: ۴۶۱۷) (3) ”سرخ ہو جائیں“ یعنی پھل رنگ بدلنا شروع کر دیں، خواہ وہ سرخ ہونے لگیں یا زرد۔ اس سے معلوم ہوا کہ پکنے سے مراد مکمل پکنا نہیں بلکہ آفت سے محفوظ ہونا ہے ورنہ صرف رنگ بدلنے سے تو پھل مکمل پک نہیں جاتا۔ ہاں، پکنا شروع ہو جاتا ہے۔ گویا پکنے کا آغاز کافی ہے۔ (4) ”کس بنا پر رقم لے گا؟“ گویا اگر اس نے فوراََ پھل کاٹ لینا ہو تو رقم لے سکتا ہے کیونکہ آپ نے پھل پکنے سے رک جانے کی صورت میں رقم لینے سے روکا ہے۔ اگر فورََا کاٹ لیے جائیں تو پکنے کا مسئلہ ہی نہیں بنتا۔ باب پر اسی استدلال ہے اور یہی صحیح ہے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4543
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4526
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4450
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4526
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4538
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4539
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4530
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پھل پکنے سے پہلے ان کو بیچنے سے منع فرمایا۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! پکنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ سرخ ہو جائیں (پکنے کے قریب ہو جائیں اور کسی قسم کی آفت کا احتمال نہ رہے۔“) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بتاؤ اگر اللہ تعالیٰ پھل روک لے تو تم میں سے کوئی کس بنا پر اپنے بھائی سے رقم لے گا؟“
حدیث حاشیہ:
(1) اس باب سے مًلف رحمہ اللہ کا مقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ فوراََ کاٹ لینے کی شرط پر، پکنے سے پہلے پھلوں کی خرید صفروخت جائز ہے لیکن اس صورت میں جب اس سے انتفاع ممکن ہو۔ امام شافعی،احمد اور جمہور علماء کا یہی موقف ہے۔ ہمارے ہاں عموما اچار کےلیے آم پکنے سے پہلے کاٹ لیے جاتے ہیں۔ (2) ہمارے ہاں جو یہ رواج ہے کہ لوگ اپنے باغ کا پھل کئی سال کے لیے بیچ دیتے ہیں تو یہ عمل اس حدیث کی رو ناجائز اور حرام ہے۔ جب موجود پھل، جو ابھی تک کھانے کے قابل نہیں ہوا، اس کی خرید و فروخت ممنوع ہے تو آئندہ سال یا کئی سالوں کا ٹھیکہ، جو کہ بالکل معدوم پھلوں کا ہوتا ہے، کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ اس ممانعت کی وجہ بالکل واضح ہے کہ اس میں نرا دھوکا ہی دھوکا ہے، نیز یہ مجہول چیز کی بیع ہے جو کہ شرعاََ ناجائز ہے۔ مزید بر آں یہ بھی کہ یہ ایک ایسی چیز کی بیع ہے جو بیچنے والے کے پاس نہیں ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: [لاتبعْماليسَعندكَ]”جو چیز تیرے پاس نہیں وہ مت بیچ۔“(جامع الترمذي، البيوع ،باب، ما جاء في كراهية بيع ما ليس عنده حديث :۱۲۳۲وسسن النسائي، البيوع، باب بيع ما ليس عند البائع، حديث: ۴۶۱۷) (3) ”سرخ ہو جائیں“ یعنی پھل رنگ بدلنا شروع کر دیں، خواہ وہ سرخ ہونے لگیں یا زرد۔ اس سے معلوم ہوا کہ پکنے سے مراد مکمل پکنا نہیں بلکہ آفت سے محفوظ ہونا ہے ورنہ صرف رنگ بدلنے سے تو پھل مکمل پک نہیں جاتا۔ ہاں، پکنا شروع ہو جاتا ہے۔ گویا پکنے کا آغاز کافی ہے۔ (4) ”کس بنا پر رقم لے گا؟“ گویا اگر اس نے فوراََ پھل کاٹ لینا ہو تو رقم لے سکتا ہے کیونکہ آپ نے پھل پکنے سے رک جانے کی صورت میں رقم لینے سے روکا ہے۔ اگر فورََا کاٹ لیے جائیں تو پکنے کا مسئلہ ہی نہیں بنتا۔ باب پر اسی استدلال ہے اور یہی صحیح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پھلوں کو بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ خوش رنگ ہو جائیں، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! یہ خوش رنگ ہونا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہاں تک کہ لال ہو جائیں“ اور فرمایا: ”دیکھو! اگر اللہ تعالیٰ پھلوں کو روک دے (پکنے سے پہلے گر جائیں) تو تم میں کوئی اپنے بھائی کا مال کس چیز کے بدلے لے گا۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب خریدار سے توڑنے کی شرط نہ لگائی گئی ہو، اگر فوری طور پر توڑ لینے کی شرط لگائی ہو تو اب یہ خریدار کی وجہ سے ہے کہ وہی اپنی قیمت کے بدلے اسی سودے پر راضی ہو گیا۔ اب بیچنے والے کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے، اور نہ ہی پھلوں کے کسی آفت کے شکار ہونے کا خطرہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from ''Anas bin Malik (RA) that: the Messenger of Allah (ﷺ) forbade selling fruits before they ripen. It was said: "O Messenger of Allah what does ripen mean?" he said: 'when they turn red." And the Messenger of Allah (ﷺ) said: "What do you think if Allah withholds the fruits (causes it not to ripen), why would any one of you take his brother's wealth?