باب: کھجور کے (درخت پر لگے ہوئے) تازہ پھل کا خشک کھجوروں سے سودا کرنا
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling Fresh Dates Still O The Tree For Dried Dates)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4532.
حضرت سالم کے والد محترم (حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خشک کھجوروں کے بدلے درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کے سودے سے منع فرمایا ہے۔
تشریح:
(1) تازہ اور خشک کھجور کی آپس میں خرید و فروخت ممنوع ہے کیونکہ تازہ کھجور خشک ہونے کے بعد کم ہو جائے گی اور ہم جنس چیز میں کمی بیشی جائز نہیں۔ ہاں بیع عرایا میں تازہ کھجور کا خشک کھجور کے ساتھ سودا کرنا درست ہے، اس لیے کہ اس میں فریقین، یعنی عطیہ دینے اور قبول کرنے والوں کے لیے مشکلات پیدا ہو جائیں گی کیونکہ عطیہ کرنے والے، عطیہ نہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ (2) یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب ایک ہی جنس کا تازہ پھل خشک ہو کر وزن میں کم ہو جاتا ہو تو اس جنس کے خشک اور تر (تازہ) پھل کی باہمی بیع حرام ہے اگر چہ سودا کرتے وقت دونوں (پھل) وزن اور کیل (ماپ) میں برابر ہی ہوں۔ اس کی وجہ یہ کہ ہے تساوی، یعنی باہمی برابری کا اعتبار اس وقت معبتر اور صحیح ہوتا ہے جب وہ اشیاء حالت کمال کو پہنچ کر بھی برابر ہی رہیں اور ادھر یہ بات نہیں کیونکہ کھجور جب خشک ہو جاتی ہے تو اس کا وزن بہر صورت تازہ حالت کی نسبت کم ہو جاتا ہے اور پھر اس کا تعین بھی نا ممکن ہے کہ وزن کتنا کم ہوتا ہے، البتہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وزن اور ماپ برابر برابر ہونے کی صورت میں خشک اور تازہ کھجور کے باہمی سودے کو جائز قرار دیتے ہیں جبکہ صاحبین (امام صاحب کے شاگردان امام محمد بن حسن اور امام ابو یوسف اس مسئلے میں اپنے استاد محترم کی مخالفت کرتے ہیں اور اس مسئلے میں مما نعت کی بابت وارد صحیح احادیث کی بنیاد پر انھوں نے حدیث رسول کو قبول اور اپنے استاد صاحب کی بات کو رد کر دیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخيرة العقبى شرح سنن النسائي للأتيوبي:۲۷۵/۳۴) (3) اس قسم کی بیع کو مزابنہ کہا جاتا ہے۔ یہ عموماََ تو منع ہے مگر عریہ (عطیہ میں دیے گئے درخت) میں غرباء کی سہولت کے لیے رخصت دی گئی ہے جیسا کہ تفصیل فائدہ نمبرا میں بیان ہو چکی ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث نمبر: ۳۹۱۰)
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4549
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4532
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4456
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4532
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4544
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4545
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4536
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت سالم کے والد محترم (حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ) سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خشک کھجوروں کے بدلے درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کے سودے سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) تازہ اور خشک کھجور کی آپس میں خرید و فروخت ممنوع ہے کیونکہ تازہ کھجور خشک ہونے کے بعد کم ہو جائے گی اور ہم جنس چیز میں کمی بیشی جائز نہیں۔ ہاں بیع عرایا میں تازہ کھجور کا خشک کھجور کے ساتھ سودا کرنا درست ہے، اس لیے کہ اس میں فریقین، یعنی عطیہ دینے اور قبول کرنے والوں کے لیے مشکلات پیدا ہو جائیں گی کیونکہ عطیہ کرنے والے، عطیہ نہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ (2) یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب ایک ہی جنس کا تازہ پھل خشک ہو کر وزن میں کم ہو جاتا ہو تو اس جنس کے خشک اور تر (تازہ) پھل کی باہمی بیع حرام ہے اگر چہ سودا کرتے وقت دونوں (پھل) وزن اور کیل (ماپ) میں برابر ہی ہوں۔ اس کی وجہ یہ کہ ہے تساوی، یعنی باہمی برابری کا اعتبار اس وقت معبتر اور صحیح ہوتا ہے جب وہ اشیاء حالت کمال کو پہنچ کر بھی برابر ہی رہیں اور ادھر یہ بات نہیں کیونکہ کھجور جب خشک ہو جاتی ہے تو اس کا وزن بہر صورت تازہ حالت کی نسبت کم ہو جاتا ہے اور پھر اس کا تعین بھی نا ممکن ہے کہ وزن کتنا کم ہوتا ہے، البتہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وزن اور ماپ برابر برابر ہونے کی صورت میں خشک اور تازہ کھجور کے باہمی سودے کو جائز قرار دیتے ہیں جبکہ صاحبین (امام صاحب کے شاگردان امام محمد بن حسن اور امام ابو یوسف اس مسئلے میں اپنے استاد محترم کی مخالفت کرتے ہیں اور اس مسئلے میں مما نعت کی بابت وارد صحیح احادیث کی بنیاد پر انھوں نے حدیث رسول کو قبول اور اپنے استاد صاحب کی بات کو رد کر دیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخيرة العقبى شرح سنن النسائي للأتيوبي:۲۷۵/۳۴) (3) اس قسم کی بیع کو مزابنہ کہا جاتا ہے۔ یہ عموماََ تو منع ہے مگر عریہ (عطیہ میں دیے گئے درخت) میں غرباء کی سہولت کے لیے رخصت دی گئی ہے جیسا کہ تفصیل فائدہ نمبرا میں بیان ہو چکی ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث نمبر: ۳۹۱۰)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے درخت کے پھل (کھجور) توڑے ہوئے پھلوں (کھجور) سے بیچنے سے منع فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Salim, from his father, that: the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) forbade selling fresh dates still on the tree for dried dates.