Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Buying Dried Dates With Fresh Dates)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4545.
حضرت سعد ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے تازہ کھجوروں کے عوض خشک کھجوریں خریدنے یا بیچنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے اپنے ارد گرد بیٹھے ہوئے حاضرین سے فرمایا: ”کیا تازہ کھجور خشک ہو کر وزن میں کم ہو جاتی ہے؟“ انھوں نے کہا: ہاں پھر آپ نے ایسے سودے سے منع فرما دیا۔
تشریح:
(1) چونکہ تازہ کھجور خشک ہونے کے بعد کم ہو جاتی ہے، اس لیے ایک فریق کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ سود ہی کی ایک صورت ہے، لہٰذا رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ شارع علیہ السلام محض اشیاء کی حرمت بیان نہیں فرماتے تھے بلکہ بسا اوقات حرمت کی وجہ بھی بیان فرما دیتے تھے تا کہ لوگ علی وجہ البصیرت ممنوعہ چیز سے رک جائیں، نیز انھیں ممنوعہ چیز کی بابت مکمل طور پر انشراح صدر ہو جیسا کہ مذکورہ مسئلے میں آپ نے حاضرین ہی سے پوچھا: ”کیا خشک ہو کر تازہ کھجور کا وزن کم ہو جاتا ہے؟“ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ یقینا! اس حقیقت کا علم رسول اللہ ﷺ کو بھی تھا لیکن آپ نے ان سے پوچھا تا کہ ان کے سامنے حرمت کی وجہ بالکل واضح ہو جائے۔ (3) لوگوں کے مال کسی بھی باطل طریقے سے کھانا حرام ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾(النساء:۲۹:۴)”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے مال آپس میں باطل اور ناحق طریقے سے نہ کھاؤ۔“
الحکم التفصیلی:
قلت : أما زيد فهو إبن عياش أبو زيد الزرقي فقد قيل فيه : مجهول لكن وثقه ابن حبان والدارقطني وقال الحافظ في " التقريب " : " صدوق " وصحح حديثه هذا الترمذي وإبن خزيمة وابن حبان والحاكم كما تقدم ووافقه الذهبي وصححه أيضا ابن المديني كما قال الحافظ في " بلوغ المرام " . فالحديث صحيح إن شاء الله تعالى غير أن الزيادة التي رواها يحيى : " نسيئة " لا تصح لتفرد بها دون من ذكرنا من الثقات . ويؤيده أن عمران بن أبي أنس قال : سمعت أبا عياش يقول : " سألت سعد بن أبي وقاص عن اشتراء السلت بالتمر ( كذا ولعله بالبر ) فقال سعد " فذكره مثل رواية مالك دون الزيادة . أخرجه الحاكم ( 2 / 43 ) وعنه البيهقي من طريق محرمة بن بكير عن أبيه عن عمران به . وقال : " صحيح الإسناد " . ووافقه الذهبي . قلت : لكن خالفه عمرو بن الحارث فقال : عن بكير بن عبد الله : عن عمران ابن أبي أنس أن مولى لبني مخزوم حدثه أنه سأل سعد بن أبي وقاص عن الرجل يسلف الرجل الرطب بالتمر إلى أجل ؟ فقال سعد : نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن هذا " . أخرجه الطحاوي . ورجاله ثقات كلهم وكذلك رجال الحاكم . لكن لعل روايته أرجح من رواية الطحاوي لأن مخرمة ابن بكير وهو ابن عبد الله بن الأشح أعرف بحديث أبيه من غيره من الثقات مع موافقتها لرواية عبد الله بن يزيد على ما رواه الجماعة عنه . وقد رجح روايتهم عنه الإمام الدارقطني وتبعه البيهقي فنقل عنه أنه قال عقب رواية يحيى الشاذة :
" خالفه مالك وإسماعيل بن أمية والضحاك بن عثمان وأسامة ابن زيد ولم يقولوا فيه " نسيئة " واجتماع هؤلاء الأربعة على خلاف ما رواه يحيى يدل على ضبطهم للحديث وفيهم إمام حافظ وهو مالك بن أنس " . قال البيهقي : " والعلة المنقولة في هذا الخبر تدل على خطأ هذه اللفظة وقد رواه عمران ابن أبي أنس عن أبي عياش نحو رواية الجماعة " . ثم ساقها
ابن ماجة ( 2264 ) //
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4563
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4545
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4469
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4545
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4558
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4559
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4549
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت سعد ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے تازہ کھجوروں کے عوض خشک کھجوریں خریدنے یا بیچنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے اپنے ارد گرد بیٹھے ہوئے حاضرین سے فرمایا: ”کیا تازہ کھجور خشک ہو کر وزن میں کم ہو جاتی ہے؟“ انھوں نے کہا: ہاں پھر آپ نے ایسے سودے سے منع فرما دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) چونکہ تازہ کھجور خشک ہونے کے بعد کم ہو جاتی ہے، اس لیے ایک فریق کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ سود ہی کی ایک صورت ہے، لہٰذا رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ شارع علیہ السلام محض اشیاء کی حرمت بیان نہیں فرماتے تھے بلکہ بسا اوقات حرمت کی وجہ بھی بیان فرما دیتے تھے تا کہ لوگ علی وجہ البصیرت ممنوعہ چیز سے رک جائیں، نیز انھیں ممنوعہ چیز کی بابت مکمل طور پر انشراح صدر ہو جیسا کہ مذکورہ مسئلے میں آپ نے حاضرین ہی سے پوچھا: ”کیا خشک ہو کر تازہ کھجور کا وزن کم ہو جاتا ہے؟“ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ یقینا! اس حقیقت کا علم رسول اللہ ﷺ کو بھی تھا لیکن آپ نے ان سے پوچھا تا کہ ان کے سامنے حرمت کی وجہ بالکل واضح ہو جائے۔ (3) لوگوں کے مال کسی بھی باطل طریقے سے کھانا حرام ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾(النساء:۲۹:۴)”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے مال آپس میں باطل اور ناحق طریقے سے نہ کھاؤ۔“
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے تازہ کھجوروں کے بدلے خشک کھجور بیچنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے اپنے اردگرد موجود لوگوں سے سوال کیا: جب تازہ کھجور سوکھ جاتی ہے تو کیا کم ہو جاتی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اگر کسی کے پاس خشک کھجوریں ہوں اور وہ تازہ کھجوریں کھانا چاہتا ہے تو ایک دوسرے کے بدلے برابر یا کم و بیش کے حساب سے خرید و فروخت کرنے کی بجائے خشک کھجوروں کو پیسوں سے فروخت کر دے، پھر ان پیسوں سے تازہ کھجوریں خرید لے، ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے (دیکھئیے نمبر ۴۵۵۷)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Sa'd said: "The Messenger of Allah (ﷺ) was asked about (buying) fresh dates with dried dates, and he said to those who were around him: 'Will fresh dates decrease (in weight or volume) when they dry out?" they said Yes,' so he forbade that.