باب: کھجوروں کے ایک ڈھیر کا سودا، جس کا ماپ معلوم نہیں، مقرر ماپ کی کھجوروں کے ساتھ کرنا
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling A Heap Of Dried Dates Whose Volume Is Unknown for A Heap of Dried dates Whose Volume Is Known)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4547.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ کھجوروں کے اس ڈھیر کا سودا، جس کا وزن معلوم نہ ہو، مقررہ وزن کی کھجوروں کے ساتھ کیا جائے۔
تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ کھجوروں وغیرہ کا ایسا ڈھیر جس کی مقدار، یعنی اس کا وزن یا ماپ معلوم نہ ہو تو اسے معلوم مقدار والے ڈھیر کے عوض نہیں بیچا جا سکتا کیونکہ اس طرح ایک فریق کی حق تلفی ہو گی اور شرعاََ یہ حرام ہے، نیز معلوم ہوا کہ ایک ہی جنس کی دو چیزوں کی خرید و فروخت کمی بیشی کے ساتھ نہیں ہو سکتی بلکہ اس میں تساوی ہاتھوں ہاتھ لینے دینے کی شرط ضروری ہے۔ (2) اس حدیث مبارکہ کے مفہوم سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ اگر دونوں ڈھیروں کی جنس مختلف ہو تو نا معلوم ماپ یا وزن والی ڈھیری کا سودا، معلوم و معین ماپ یا وزن والی ڈھیری سے کر دیا جائے تو یہ درست بیع ہو گی۔ اشارۃ النص سے اس کی تائید ہو رہی ہے۔ (3) عرب لوگ اس دور میں کھجوروں کو تولنے کی بجائے ماپا کرتے تھے جبکہ آج کل لوگ وزن کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے عربی میں اصل لفظ ”کیل“ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنیٰ ماپنے کے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4565
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4547
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4471
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4547
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4560
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4561
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4551
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ کھجوروں کے اس ڈھیر کا سودا، جس کا وزن معلوم نہ ہو، مقررہ وزن کی کھجوروں کے ساتھ کیا جائے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ کھجوروں وغیرہ کا ایسا ڈھیر جس کی مقدار، یعنی اس کا وزن یا ماپ معلوم نہ ہو تو اسے معلوم مقدار والے ڈھیر کے عوض نہیں بیچا جا سکتا کیونکہ اس طرح ایک فریق کی حق تلفی ہو گی اور شرعاََ یہ حرام ہے، نیز معلوم ہوا کہ ایک ہی جنس کی دو چیزوں کی خرید و فروخت کمی بیشی کے ساتھ نہیں ہو سکتی بلکہ اس میں تساوی ہاتھوں ہاتھ لینے دینے کی شرط ضروری ہے۔ (2) اس حدیث مبارکہ کے مفہوم سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ اگر دونوں ڈھیروں کی جنس مختلف ہو تو نا معلوم ماپ یا وزن والی ڈھیری کا سودا، معلوم و معین ماپ یا وزن والی ڈھیری سے کر دیا جائے تو یہ درست بیع ہو گی۔ اشارۃ النص سے اس کی تائید ہو رہی ہے۔ (3) عرب لوگ اس دور میں کھجوروں کو تولنے کی بجائے ماپا کرتے تھے جبکہ آج کل لوگ وزن کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے عربی میں اصل لفظ ”کیل“ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنیٰ ماپنے کے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بے ناپی کھجور کے ڈھیر کو ناپی ہوئی کھجور سے بیچنے سے منع فرمایا۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی: دونوں کھجوریں خشک ہوں جن کو برابر برابر کے حساب سے بیچ سکتے ہیں، مگر دونوں کی ناپ معلوم ہونی چاہیئے، کیونکہ ایسی چیزوں کی خرید و فروخت میں کم و بیش ہونا جائز نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir bin 'Abdullah said: "The Messenger of Allah (ﷺ) forbade selling a heap of dried dates whose volume is unknown for known volume of dried dates.