باب: کھجور کی بیع کھجور کے بدلے میں کمی بیشی کے ساتھ (جائز نہیں)
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling Dates for Dates Of Different Quality)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4553.
حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر میں (کھجوروں کی وصولی کے سلسلے میں) ایک آدمی مقرر فرمایا۔ وہ جنیب (عمدہ) کھجوریں لے کر آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی (اعلیٰ) ہوتی ہیں؟“ اس نے کہا: نہیں، اے اللہ کے رسول! ہم ملی جلی اور ردی کھجوروں کے دو صاع دے کر اس کا ایک صاع اور تین صاع دے کر اس قسم کے دو صاع خریدتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایسے نہ کرو۔ ردی اور ملی جلی کھجوروں کو رقم کے ساتھ الگ بیچو اور پھر رقم کے ساتھ جنیب کھجوریں خریدو۔“
تشریح:
(1) کھجور کے عوض کھجور کا کمی بیشی کے ساتھ سودا کرنا، حرام ہے خواہ کھجور کی ایک قسم کتنی ہی عمدہ و اعلیٰ اور دوسری کتنی ہی ردی ہو۔ (2) یہ حدیث صراحتاََ دلالت کرتی ہے کہ سودی کاروبار کرنا قطعاََ حرام ہے ایسا کیا ہوا سودا صحیح نہیں ہو گا۔ (3) بعض معاملات میں حرام کام کامرتکب اس وقت تک معذور سمجھائے گا جب تک اسے اس کام کی حرمت کا علم نہ ہو۔ یہ یاد رہے کہ عذر بالجہل مطلقاََ قابل قبول نہیں، تاہم بعض معاملات، جن کا شریعت مطہرہ اور عرفِ عام لحاظ رکھیں، ان میں ایسا عذر قابل قبول ہو گا۔ (4) اس حدیث مبارکہ سے خود ساختہ صوفیوں کے اس خشک زہد کا رد ہوتا ہے جو اچھی اشیاء کے استعمال سے گریز کرتے اور اپنے باطل زعم میں اسے تقویٰ سمجھتے ہیں، اپنے آپ کو مشقت میں مبتلا کرکے اسے نفس کشی کا نام دیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑا عابد و زاہد بھلا کون ہو سکتا ہے؟ لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنے استعمال کے لیے، ردی کھجور کے عوض اچھی اور عمدہ کھجور پسند کی ہے اور اسے خریدا ہے۔ (5) امام اور دینی و مذہبی ذمہ دار شخص کو خصوصی طور پر دین کے معاملات کو اہمیت دینی چاہیے۔ جن لوگوں کو ان کا علم نہ ہو انھیں تعلیم دینی چاہیے اور انھیں نا جائز و حرام امور سے متنبہ کر کے جائز و مباح اور حلال امور کی طرف ان کی راہنمائی کونی چاہیے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابی کی رہنمائی فرماتے ہوئے اسے حرام کام سے ہٹا کر حلال کی طرف راستہ دکھایا۔ (6) یہ حدیث ربوا بالفضل کی حرمت کی صریح دلیل ہے۔ (7) شکوک و شبہات میں مبتلا شخص کی تلاش حق میں اس وقت تک مدد کرنی چاہیے جب تک کہ اس کے لیے حق واضح نہ ہو جائے۔ (8) جنیب اعلیٰ قسم کی کھجور تھی اور ”جمع“ ردی کھجور جس میں گٹھلی نہیں ہوتی تھی۔ یا جمع سے مراد ملی جلی کھجوریں ہیں۔ کوئی کسی قسم کی کوئی کسی قسم کی جیسا کہ صدقہ و عشر میں عام ہوتا ہے۔ چونکہ خیبر میں بھی ہر قسم کی کھجوروں سے حصہ وصول کیا گیا تھا، لہٰذا وہ ملی جلی تھیں۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4571
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4553
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4477
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4553
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4566
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4567
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4557
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر میں (کھجوروں کی وصولی کے سلسلے میں) ایک آدمی مقرر فرمایا۔ وہ جنیب (عمدہ) کھجوریں لے کر آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی (اعلیٰ) ہوتی ہیں؟“ اس نے کہا: نہیں، اے اللہ کے رسول! ہم ملی جلی اور ردی کھجوروں کے دو صاع دے کر اس کا ایک صاع اور تین صاع دے کر اس قسم کے دو صاع خریدتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایسے نہ کرو۔ ردی اور ملی جلی کھجوروں کو رقم کے ساتھ الگ بیچو اور پھر رقم کے ساتھ جنیب کھجوریں خریدو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) کھجور کے عوض کھجور کا کمی بیشی کے ساتھ سودا کرنا، حرام ہے خواہ کھجور کی ایک قسم کتنی ہی عمدہ و اعلیٰ اور دوسری کتنی ہی ردی ہو۔ (2) یہ حدیث صراحتاََ دلالت کرتی ہے کہ سودی کاروبار کرنا قطعاََ حرام ہے ایسا کیا ہوا سودا صحیح نہیں ہو گا۔ (3) بعض معاملات میں حرام کام کامرتکب اس وقت تک معذور سمجھائے گا جب تک اسے اس کام کی حرمت کا علم نہ ہو۔ یہ یاد رہے کہ عذر بالجہل مطلقاََ قابل قبول نہیں، تاہم بعض معاملات، جن کا شریعت مطہرہ اور عرفِ عام لحاظ رکھیں، ان میں ایسا عذر قابل قبول ہو گا۔ (4) اس حدیث مبارکہ سے خود ساختہ صوفیوں کے اس خشک زہد کا رد ہوتا ہے جو اچھی اشیاء کے استعمال سے گریز کرتے اور اپنے باطل زعم میں اسے تقویٰ سمجھتے ہیں، اپنے آپ کو مشقت میں مبتلا کرکے اسے نفس کشی کا نام دیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑا عابد و زاہد بھلا کون ہو سکتا ہے؟ لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنے استعمال کے لیے، ردی کھجور کے عوض اچھی اور عمدہ کھجور پسند کی ہے اور اسے خریدا ہے۔ (5) امام اور دینی و مذہبی ذمہ دار شخص کو خصوصی طور پر دین کے معاملات کو اہمیت دینی چاہیے۔ جن لوگوں کو ان کا علم نہ ہو انھیں تعلیم دینی چاہیے اور انھیں نا جائز و حرام امور سے متنبہ کر کے جائز و مباح اور حلال امور کی طرف ان کی راہنمائی کونی چاہیے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابی کی رہنمائی فرماتے ہوئے اسے حرام کام سے ہٹا کر حلال کی طرف راستہ دکھایا۔ (6) یہ حدیث ربوا بالفضل کی حرمت کی صریح دلیل ہے۔ (7) شکوک و شبہات میں مبتلا شخص کی تلاش حق میں اس وقت تک مدد کرنی چاہیے جب تک کہ اس کے لیے حق واضح نہ ہو جائے۔ (8) جنیب اعلیٰ قسم کی کھجور تھی اور ”جمع“ ردی کھجور جس میں گٹھلی نہیں ہوتی تھی۔ یا جمع سے مراد ملی جلی کھجوریں ہیں۔ کوئی کسی قسم کی کوئی کسی قسم کی جیسا کہ صدقہ و عشر میں عام ہوتا ہے۔ چونکہ خیبر میں بھی ہر قسم کی کھجوروں سے حصہ وصول کیا گیا تھا، لہٰذا وہ ملی جلی تھیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری اور ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو خیبر کا عامل بنایا، وہ «جنیب» (نامی عمدہ قسم کی) کھجور لے کر آیا تو آپ نے فرمایا: ”کیا خیبر کی ساری کھجوریں اسی طرح ہیں؟“ وہ بولا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم یہ کھجور دو صاع کے بدلے ایک صاع یا تین صاع کے بدلے دو صاع لیتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو، گھٹیا اور ردی کھجوروں کو درہم (پیسوں) سے بیچ دو، پھر درہم سے «جنیب» خرید لو۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہی معاملہ ہر طرح کے پھلوں اور غلوں میں کرنا چاہیئے، اگر کسی کو گھٹیا اور ردی قسم کے بدلے اچھے قسم کا پھل یا غلہ چاہیئے تو وہ قیمت سے خریدے، بدلے میں نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Sa'eed Al'Khudri and Abu Hurairah (RA) that: the Messenger of Allah (ﷺ) appointed a man in charge of kharibar and he brought some Janib dates. The Messenger of Allah said; "Are all the dates if khaibar like this?" He said: "No (by Allah, O Messenger of Allah) we take a Sa of these for two for three Sas (of other types of dates)." The Messenger of Allah said: "do not do that Sell the mixed dates for Dirhams then buy the Janib dates with the Dirhams.