باب: کھجوروں کی کھجوروں کے ساتھ بیع (کیسے ہونی چاہیے؟)
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling Dates For Dates)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4559.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کھجور کا سودا کھجور کے ساتھ، گندم کا گندم کے ساتھ، جو کا جو کے ساتھ اور نمک کا نمک کے ساتھ سودا نقد (اور برابر) ہونا چاہیے۔ جو زیادہ دے یا زیادہ لے، اس نے سود کا لین دین کیا۔ الا یہ کہ جنسیں بدل جائیں۔“
تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ کھجور کا کھجور کے عوض سودا جائز ہے بشر طیکہ دونوں طرف سے نقد بہ نقد اور برابری ہو۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں مذکورہ اشیاء کی ایک دوسرے کے عوض بیع جائز ہے بشرطیکہ وہ اشیاء برابر مقدار میں ہوں، سودا نقد ہو اور اسی مجلس میں دونوں فریق چیز کو اپنے اپنے قبضے میں لے لیں۔ (3) سود لینے سے، صرف لینے والا ہی گناہ گار نہیں ہوتا بلکہ دینے والا بھی مجرم ہوتا ہے، لہٰذا سود لینے والے اور دینے والے دونوں کو اس سے بچنا چاہیے۔ (4) حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جنس بدل جائے تو کمی بیشی جائز ہے۔ امام نو وی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جنس کے مختلف ہونے کی صورت میں بھی تقابض (دونوں فریقوں کا چیز قبضے میں لینا) ضروری اور و اجب ہے۔ اس پر تقریباََ تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ (5) ”جنسیں بدل جائیں“ مثلاََ: کھجور کا سودا گندم کے ساتھ، گندم کا جو کے ساتھ، جو کا نمک کے ساتھ۔ ایسی صورت میں کمی بیشی جائز ہے، مثلاََ: دوکلو گندم دے کر نصف کلو کھجور لے تو کوئی حرج نہیں، البتہ سودا نقد ہونا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4577
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4559
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4483
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4559
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4572
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4573
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4563
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کھجور کا سودا کھجور کے ساتھ، گندم کا گندم کے ساتھ، جو کا جو کے ساتھ اور نمک کا نمک کے ساتھ سودا نقد (اور برابر) ہونا چاہیے۔ جو زیادہ دے یا زیادہ لے، اس نے سود کا لین دین کیا۔ الا یہ کہ جنسیں بدل جائیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ کھجور کا کھجور کے عوض سودا جائز ہے بشر طیکہ دونوں طرف سے نقد بہ نقد اور برابری ہو۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں مذکورہ اشیاء کی ایک دوسرے کے عوض بیع جائز ہے بشرطیکہ وہ اشیاء برابر مقدار میں ہوں، سودا نقد ہو اور اسی مجلس میں دونوں فریق چیز کو اپنے اپنے قبضے میں لے لیں۔ (3) سود لینے سے، صرف لینے والا ہی گناہ گار نہیں ہوتا بلکہ دینے والا بھی مجرم ہوتا ہے، لہٰذا سود لینے والے اور دینے والے دونوں کو اس سے بچنا چاہیے۔ (4) حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جنس بدل جائے تو کمی بیشی جائز ہے۔ امام نو وی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جنس کے مختلف ہونے کی صورت میں بھی تقابض (دونوں فریقوں کا چیز قبضے میں لینا) ضروری اور و اجب ہے۔ اس پر تقریباََ تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ (5) ”جنسیں بدل جائیں“ مثلاََ: کھجور کا سودا گندم کے ساتھ، گندم کا جو کے ساتھ، جو کا نمک کے ساتھ۔ ایسی صورت میں کمی بیشی جائز ہے، مثلاََ: دوکلو گندم دے کر نصف کلو کھجور لے تو کوئی حرج نہیں، البتہ سودا نقد ہونا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کھجور کے بدلے کھجور، گیہوں کے بدلے گیہوں، جَو کے بدلے جَو اور نمک کے بدلے نمک میں خرید و فروخت نقدا نقد ہے، جس نے زیادہ دیا، یا زیادہ لیا تو اس نے سود لیا، سوائے اس کے کہ جنس بدل جائے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : سود صرف انہی چار چیزوں میں کمی زیادتی میں نہیں ہے، بلکہ اگلی حدیث میں دو اور چیزوں کا تذکرہ ہے، نیز صرف انہی چھ کی بیع میں تفاضل سود نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کی ہر چیز میں موجود ہے سوائے ان چیزوں کے جن کو شریعت نے مستثنیٰ کر دیا ہے جیسے: جانور، پس ایک اونٹ کے بدلے دو اونٹ بیچ سکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Dates for dates, wheat for wheat, barley for barley, salt for salt, exchanged hand to hand. Whoever gives more or takes more has engaged in Riba unless they are of different types.