Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling Wheat For Wheat)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4560.
حضرت مسلم بن یسار اور عبد اللہ بن عتیک سے روایت ہے کہ ایک منزل میں حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت معاویہ ؓ جمع ہوئے تو حضرت عبادہ ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سونے کے بدلے سونے، چاندی کے بدلے چاندی، گندم کے بدلے گندم، جو کے بدلے جو، کھجوروں کے بدلے کھجوریں… ان دونوں استادوں (مسلم بن یسار اور عبد اللہ بن عتیک) میں سے ایک نے (یہ بھی) کہا، جبکہ دوسرے نے یہ الفاظ نہیں کہے… اور نمک کے بدلے نمک کے سودے سے منع فرمایا الا یہ کہ وہ دونوں برابر اور نقد ہوں، البتہ ہمیں اجازت عطا فرمائی کہ ہم سونے کو چاندی کے بدلے، چاندی کو سونے کے بدلے، گندم کو جو کے بدلے اور جو کو گندم کے بدلے جیسے چاہیں کم و بیش خریدو فروخت کر سکتے ہیں بشر طیکہ سودا نقد ہو۔ (جنس ایک ہونے کی صورت میں) جو شخص زیادہ دے یا زیادہ لے، اس نے سودی لین دین کیا۔
تشریح:
1) گندم کے بدلے گندم بیچنی شرعاََ جائز ہے بشر طیکہ دونوں طرف سے گندم برابر ہو، نیز فریقین اسے اسی مجلس میں اپنے اپنے قبضے میں بھی لے لیں۔ (2) اس حدیث مبارکہ کے مختلف طرق (سندیں) دیکھنے سے بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ سے جو عہد وفا باندھا تھا اسے نہ صرف نبھایا بلکہ وفا کا حق ادا کر دیا۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر جو بیعت کی تھی اس کے تقاضے پورے کیے، خواہ اس ایفائے عہد سے ان کے کسی امیر کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو یا نا گواری محسوس ہوتی ہو۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی انھی جلیل القدر عظماء میں سے تھے جنھوں نے نبی ﷺ سے اس بات پر بیعت کی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے حدیث بیان کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایک غزوے میں لوگوں کو بہت سی غنیمتیں حاصل ہوئیں۔ غنیمتوں میں چاندی کے برتن بھی تھے۔ اس وقت ان لوگوں کے امیر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تھے اور انھوں نے ایک شخص کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو، وہ چاندی کے برتن جو بطور غنیمت ملے تھے، وہ برتن بیچ دے اور لوگوں کو بیت المال سے جو عطایا ملتے تھے جب وہ ملیں گے تو اس وقت ان چاندی کے برتنوں کی قیمت ان سے وصولی کر لی جائے گی۔ لوگوں نے دھڑا دھڑ یہ سودا کرنا شروع کر دیا۔ سیدنا عبادہ بن صامت تک یہ بات پہنچی تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ حدیث سنا دی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے سونے چاندی کی بیع ادھار پر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ان کی خرید و فروخت نقد کی صورت میں ہو سکتی ہے ورنہ نہیں۔ یہ سن کر لوگوں نے چاندی کے جو برتن ان سے خرید لیے تھے واپس کر دیے اور سودا ختم کر دیا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انھوں نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جو ہم نے آپ سے نہیں سنی ہوتیں، حالانکہ ہم بھی رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہے ہیں۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ یہ بات سن کر پھر کھڑے ہو گئے اور وہی حدیث مبارکہ دوبارہ سنا دی جو انھوں نے پہلے سنائی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ ہم نے جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے وہ ضرور بیان کریں گے، خواہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو کتنا ہی نا گوار گزرے یا فرمایا کہ اس سے معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی ذلت محسوس کریں اور ساتھ ہی حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ یہ مسئلہ بیان کرنے کی وجہ سے اگر میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ایک رات بھی نہ رہ سکوں تو مجھے اس کی قطعاََ کوئی پروا نہیں۔ میں نے جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے سن رکھا ہے، وہ ضرور بیان کروں گا، خواہ آج کا کوئی حکمران اسے پسند کرے یا نہ کرے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحيح مسلم، المساقاة، باب الصرف و بيع الذهب بالورق نقدا، حديث:۱۵۸۷) اس تفصیل سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لا يخافون لومة لائم کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے علمائے حق پر جو بھاری ذمہ داری عائد کی ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے حق کھل کر بیان کریں، حق کو قطعاََ نہ چھپائیں، نیز عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے والے بن جائیں اور دنیا میں شهداء الله بن کر رہیں۔ (3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سنن کی تبلیغ کا خصوصی اہتمام کیا جائے علم رسول پھیلا یا جائے چاہے کوئی بڑے سے بڑا شخص اس کو نا پسند ہی کرتا ہو۔ حق بات برملا اور سب کے سامنے کہنی چاہیے۔ (4) حدیث مبارکہ سے مذکورہ اشیاء کی باہمی خرید و فروخت کا جواز بھی نکلتا ہے۔ ہم جنس اشیاء میں برابری اور تقابض کی شرط ہے۔ لیکن اگر جنس مختلف ہو جائے تو ان میں کمی بیشی تو جائز ہے لیکن سودے کا ہاتھوں ہاتھ ہونا شرط ہے۔ (5) اس حدیث مبارکہ سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو گندم اور جو، کو ایک ہی جنس شمار کرتے ہیں۔ یہ دونوں ایک جنس نہیں بلکہ دو مختلف جنسیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے مذکورہ الفاظ اس کی صریح دلیل ہیں، آپ نے فرمایا: ”گندم کے عوض جو اور جو کے عوض گندم بیچ سکتے ہو جس طرح چاہو بشرطیکہ سودا نقد بہ نقد ہو، یعنی ادھار کسی طرف سے نہ ہو۔“ (6) مذکورہ چھ چیزوں میں کمی بیشی تو واقعی سود ہے، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ ان چھ کے علاوہ دوسری کون سی اشیاء میں کمی بیشی سود میں شمار ہو گی۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے تمام مکیلات و موزونات (جن چیزوں کو ماپا تولا جا سکے) کو اس حکم میں داخل کیا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ان کے علاوہ تمام ماکولات (جو چیزیں کھانے اور خوراک کے کام آتی ہیں) اس حکم کے تحت داخل ہیں بشر طیکہ ان کو ذخیرہ کیا جا سکے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے دونوں قیود کو ملحوظ رکھا ہے، یعنی وہ مکیلہ و موزون بھی ہوں خوراک بھی ہوں۔ اہل ظاہر کا موقف ہے کہ سود صرف ان مذکورہ چھ چیزوں میں منحصر ہے۔ ان کے علاوہ کسی بھی چیز میں کمی بیشی سود شمار نہیں ہو گی، مگر یہ بات عقلی طور پر قابل قبول نہیں کیونکہ شریعت کے احکام کسی نہ کسی مقصد کی خاطر لاگو ہوتے ہیں۔ مذکورہ چیزوں کی بیع کمی بیشی کے ساتھ روکنے میں ایک مقصد سادگی اور قناعت پسندی بھی ہے۔ ظاہر ہے اچھی گندم ناقص گندم کے مقابلے میں ملنے سے تو رہی۔ کوئی شخص بھی ردی کھجوروں کے مقابلے میں اعلیٰ قسم کی کھجوریں نہیں دے گا۔ مذکور قسم کی بیع سے روکنے کا یہ فائدہ ہوگا کہ لوگ اپنے پاس موجود گندم، جو کھجوروں پر ہی قناعت کریں گے اور ذائقے کی تلاش میں سر گرداں نہیں ہوں گے۔ اس سے مہنگائی ختم ہو گی۔ عموما لوگوں کے پاس جنس ہی ہوتی ہے۔ پیسے کم ہی ہوتے ہیں، لہٰذا وہ اعلیٰ سے اعلیٰ کے حصول کے چکر میں نہیں پڑیں گے اور سادگی اور قناعت کا دور دورہ ہو گا۔ معاشرہ افرا تفری سے محفوظ رہے گا۔ اس مقصد کو پیش نظر رکھا جائے تو امام مالک رحمہ اللہ کی بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ یہ حکم ان تمام چیزوں کے بارے میں ہے جو بطور خوراک استعمال ہوتی ہوں اور ان کو ذخیرہ بھی کیا جا سکے۔ جبکہ اہل ظاہر کا مسلک اس حدیث سے بھی رد ہوتا ہے جس میں بیل پر لگے انگوروں کی بیع معین منقیٰ سے کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ ایسی بیع میں بھی کمی بیشی کا خطرہ ہو سکتا ہے، حالانکہ منقیٰ یا انگور اس حدیث میں مذکور چھ چیزوں میں داخل نہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک کی رو سے لوہا، پیتل وغیرہ بھی اس حکم میں آ جائیں گے، حالانکہ یہ چیزیں بذات خود فروخت ہونے کی بجائے عموما ان کی مصنوعات ہی فروخت ہوتی ہیں اور مصنوعات میں یہ حکم جاری کرنا تقریباََ نا ممکن ہے کیونکہ وہاں سودا صرف مادے کا نہیں بلکہ کار یگری اور مہارت کا بھی ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (7) ”ایک منزل میں“ ان الفاظ سے ظاہرََا گھر بھی مراد ہو سکتا ہے۔ اور سفر کی منزل بھی، یہ دوسرا معنی ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی مذکورہ بالا تفصیلی حدیث: ۱۵۸۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ دشمنوں کے ساتھ ایک لڑائی کے موقع پر پیش آیا اور وہ یقینا سفر میں تھے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4578
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4560
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4484
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4560
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4573
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4574
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4564
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت مسلم بن یسار اور عبد اللہ بن عتیک سے روایت ہے کہ ایک منزل میں حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت معاویہ ؓ جمع ہوئے تو حضرت عبادہ ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سونے کے بدلے سونے، چاندی کے بدلے چاندی، گندم کے بدلے گندم، جو کے بدلے جو، کھجوروں کے بدلے کھجوریں… ان دونوں استادوں (مسلم بن یسار اور عبد اللہ بن عتیک) میں سے ایک نے (یہ بھی) کہا، جبکہ دوسرے نے یہ الفاظ نہیں کہے… اور نمک کے بدلے نمک کے سودے سے منع فرمایا الا یہ کہ وہ دونوں برابر اور نقد ہوں، البتہ ہمیں اجازت عطا فرمائی کہ ہم سونے کو چاندی کے بدلے، چاندی کو سونے کے بدلے، گندم کو جو کے بدلے اور جو کو گندم کے بدلے جیسے چاہیں کم و بیش خریدو فروخت کر سکتے ہیں بشر طیکہ سودا نقد ہو۔ (جنس ایک ہونے کی صورت میں) جو شخص زیادہ دے یا زیادہ لے، اس نے سودی لین دین کیا۔
حدیث حاشیہ:
1) گندم کے بدلے گندم بیچنی شرعاََ جائز ہے بشر طیکہ دونوں طرف سے گندم برابر ہو، نیز فریقین اسے اسی مجلس میں اپنے اپنے قبضے میں بھی لے لیں۔ (2) اس حدیث مبارکہ کے مختلف طرق (سندیں) دیکھنے سے بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ سے جو عہد وفا باندھا تھا اسے نہ صرف نبھایا بلکہ وفا کا حق ادا کر دیا۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر جو بیعت کی تھی اس کے تقاضے پورے کیے، خواہ اس ایفائے عہد سے ان کے کسی امیر کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو یا نا گواری محسوس ہوتی ہو۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی انھی جلیل القدر عظماء میں سے تھے جنھوں نے نبی ﷺ سے اس بات پر بیعت کی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے حدیث بیان کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایک غزوے میں لوگوں کو بہت سی غنیمتیں حاصل ہوئیں۔ غنیمتوں میں چاندی کے برتن بھی تھے۔ اس وقت ان لوگوں کے امیر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تھے اور انھوں نے ایک شخص کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو، وہ چاندی کے برتن جو بطور غنیمت ملے تھے، وہ برتن بیچ دے اور لوگوں کو بیت المال سے جو عطایا ملتے تھے جب وہ ملیں گے تو اس وقت ان چاندی کے برتنوں کی قیمت ان سے وصولی کر لی جائے گی۔ لوگوں نے دھڑا دھڑ یہ سودا کرنا شروع کر دیا۔ سیدنا عبادہ بن صامت تک یہ بات پہنچی تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ حدیث سنا دی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے سونے چاندی کی بیع ادھار پر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ان کی خرید و فروخت نقد کی صورت میں ہو سکتی ہے ورنہ نہیں۔ یہ سن کر لوگوں نے چاندی کے جو برتن ان سے خرید لیے تھے واپس کر دیے اور سودا ختم کر دیا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انھوں نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جو ہم نے آپ سے نہیں سنی ہوتیں، حالانکہ ہم بھی رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہے ہیں۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ یہ بات سن کر پھر کھڑے ہو گئے اور وہی حدیث مبارکہ دوبارہ سنا دی جو انھوں نے پہلے سنائی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ ہم نے جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے وہ ضرور بیان کریں گے، خواہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو کتنا ہی نا گوار گزرے یا فرمایا کہ اس سے معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی ذلت محسوس کریں اور ساتھ ہی حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ یہ مسئلہ بیان کرنے کی وجہ سے اگر میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ایک رات بھی نہ رہ سکوں تو مجھے اس کی قطعاََ کوئی پروا نہیں۔ میں نے جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے سن رکھا ہے، وہ ضرور بیان کروں گا، خواہ آج کا کوئی حکمران اسے پسند کرے یا نہ کرے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحيح مسلم، المساقاة، باب الصرف و بيع الذهب بالورق نقدا، حديث:۱۵۸۷) اس تفصیل سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لا يخافون لومة لائم کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے علمائے حق پر جو بھاری ذمہ داری عائد کی ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے حق کھل کر بیان کریں، حق کو قطعاََ نہ چھپائیں، نیز عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے والے بن جائیں اور دنیا میں شهداء الله بن کر رہیں۔ (3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سنن کی تبلیغ کا خصوصی اہتمام کیا جائے علم رسول پھیلا یا جائے چاہے کوئی بڑے سے بڑا شخص اس کو نا پسند ہی کرتا ہو۔ حق بات برملا اور سب کے سامنے کہنی چاہیے۔ (4) حدیث مبارکہ سے مذکورہ اشیاء کی باہمی خرید و فروخت کا جواز بھی نکلتا ہے۔ ہم جنس اشیاء میں برابری اور تقابض کی شرط ہے۔ لیکن اگر جنس مختلف ہو جائے تو ان میں کمی بیشی تو جائز ہے لیکن سودے کا ہاتھوں ہاتھ ہونا شرط ہے۔ (5) اس حدیث مبارکہ سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو گندم اور جو، کو ایک ہی جنس شمار کرتے ہیں۔ یہ دونوں ایک جنس نہیں بلکہ دو مختلف جنسیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے مذکورہ الفاظ اس کی صریح دلیل ہیں، آپ نے فرمایا: ”گندم کے عوض جو اور جو کے عوض گندم بیچ سکتے ہو جس طرح چاہو بشرطیکہ سودا نقد بہ نقد ہو، یعنی ادھار کسی طرف سے نہ ہو۔“ (6) مذکورہ چھ چیزوں میں کمی بیشی تو واقعی سود ہے، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ ان چھ کے علاوہ دوسری کون سی اشیاء میں کمی بیشی سود میں شمار ہو گی۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے تمام مکیلات و موزونات (جن چیزوں کو ماپا تولا جا سکے) کو اس حکم میں داخل کیا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ان کے علاوہ تمام ماکولات (جو چیزیں کھانے اور خوراک کے کام آتی ہیں) اس حکم کے تحت داخل ہیں بشر طیکہ ان کو ذخیرہ کیا جا سکے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے دونوں قیود کو ملحوظ رکھا ہے، یعنی وہ مکیلہ و موزون بھی ہوں خوراک بھی ہوں۔ اہل ظاہر کا موقف ہے کہ سود صرف ان مذکورہ چھ چیزوں میں منحصر ہے۔ ان کے علاوہ کسی بھی چیز میں کمی بیشی سود شمار نہیں ہو گی، مگر یہ بات عقلی طور پر قابل قبول نہیں کیونکہ شریعت کے احکام کسی نہ کسی مقصد کی خاطر لاگو ہوتے ہیں۔ مذکورہ چیزوں کی بیع کمی بیشی کے ساتھ روکنے میں ایک مقصد سادگی اور قناعت پسندی بھی ہے۔ ظاہر ہے اچھی گندم ناقص گندم کے مقابلے میں ملنے سے تو رہی۔ کوئی شخص بھی ردی کھجوروں کے مقابلے میں اعلیٰ قسم کی کھجوریں نہیں دے گا۔ مذکور قسم کی بیع سے روکنے کا یہ فائدہ ہوگا کہ لوگ اپنے پاس موجود گندم، جو کھجوروں پر ہی قناعت کریں گے اور ذائقے کی تلاش میں سر گرداں نہیں ہوں گے۔ اس سے مہنگائی ختم ہو گی۔ عموما لوگوں کے پاس جنس ہی ہوتی ہے۔ پیسے کم ہی ہوتے ہیں، لہٰذا وہ اعلیٰ سے اعلیٰ کے حصول کے چکر میں نہیں پڑیں گے اور سادگی اور قناعت کا دور دورہ ہو گا۔ معاشرہ افرا تفری سے محفوظ رہے گا۔ اس مقصد کو پیش نظر رکھا جائے تو امام مالک رحمہ اللہ کی بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ یہ حکم ان تمام چیزوں کے بارے میں ہے جو بطور خوراک استعمال ہوتی ہوں اور ان کو ذخیرہ بھی کیا جا سکے۔ جبکہ اہل ظاہر کا مسلک اس حدیث سے بھی رد ہوتا ہے جس میں بیل پر لگے انگوروں کی بیع معین منقیٰ سے کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ ایسی بیع میں بھی کمی بیشی کا خطرہ ہو سکتا ہے، حالانکہ منقیٰ یا انگور اس حدیث میں مذکور چھ چیزوں میں داخل نہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک کی رو سے لوہا، پیتل وغیرہ بھی اس حکم میں آ جائیں گے، حالانکہ یہ چیزیں بذات خود فروخت ہونے کی بجائے عموما ان کی مصنوعات ہی فروخت ہوتی ہیں اور مصنوعات میں یہ حکم جاری کرنا تقریباََ نا ممکن ہے کیونکہ وہاں سودا صرف مادے کا نہیں بلکہ کار یگری اور مہارت کا بھی ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (7) ”ایک منزل میں“ ان الفاظ سے ظاہرََا گھر بھی مراد ہو سکتا ہے۔ اور سفر کی منزل بھی، یہ دوسرا معنی ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی مذکورہ بالا تفصیلی حدیث: ۱۵۸۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ دشمنوں کے ساتھ ایک لڑائی کے موقع پر پیش آیا اور وہ یقینا سفر میں تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عتیک کہتے ہیں کہ ایک دن عبادہ بن صامت اور معاویہ ؓ اکٹھا ہوئے، عبادہ ؓ نے لوگوں سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سونے کو سونے کے بدلے، چاندی کو چاندی کے بدلے، گیہوں کو گیہوں کے بدلے، جَو کو جَو کے بدلے اور کھجور کو کھجور کے بدلے (ان میں سے ایک نے کہا: نمک کو نمک کے بدلے، دوسرے نے یہ نہیں کہا) بیچنے سے منع کیا، مگر برابر برابر اور نقدا نقد، اور ہمیں حکم دیا کہ ہم سونا چاندی کے بدلے، چاندی سونے کے بدلے، گیہوں جو کے بدلے، جَو گیہوں کے بدلے نقداً نقد بیچیں جیسے بھی ہم چاہیں ۱؎ ان (دونوں تابعی راویوں) میں سے ایک نے یہ بھی کہا: ”جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو اس نے سود لیا۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی کمی زیادتی کے ساتھ بیچ سکتے ہیں جب جنس مختلف ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Muslim bin Yasar and 'Abdullah bin 'Atik said: "Ubadah bin As-Samit and Muawiyah met at a stopping place on the road. 'Ubadah told them: 'The Messenger of Allah (ﷺ) forbade selling gold for gold, silver for silver, wheat for wheat, barley for barley, dates for dates"'- one of them said: 'salt for salt,"' but the other did not say it-"unless it was like for like, hand to hand. And he commanded us to sell gold for silver and silver for gold, and wheat for barley and barley for wheat, and to hand, however we wanted."' And one of them said: "Whoever gives more or ask for more has engaged in Riba.