Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling Wheat For Wheat)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4561.
حضرت مسلم بن یسار اور حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت معاویہ ؓ ایک جگہ اکٹھے تھے تو حضرت عبادہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، کھجوریں کھجوروں کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جوکے بدلے بیچنے سے منع فرمایا۔ ایک استاد نے، نمک نمک کے بدلے، کے الفاظ بیان کیے، جبکہ دوسرے نے یہ الفاظ نہیں بیان کیے الا یہ کہ وہ (دونوں طرف سے مقدار میں) برابر ہوں (اور نقد سودا ہو)۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا، اس نے سودی لین دین کیا۔ یہ الفاظ (زیادہ دیا یا زیادہ لیا) بھی ایک ہی استاد نے بیان کیے تھے، دوسرے نے نہیں کیے، البتہ آپ نے ہمیں اجازت دی کہ ہم سونے کو چاندی کے بدلے یا چاندی کو سونے کے بدلے اور گندم کو جوکے بدلے اور جو کو گندم کے بدلے جیسے چاہیں کم و بیش بیچ خرید سکتے ہیں بشر طیکہ سودا نقد ہو۔
تشریح:
سونے اور چاندی کو اللہ تعالیٰ نے تجارت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ اور یہ قیمت بنتے ہیں۔ جب سونے کے مقابلے میں سونا یا چاندی کے مقابلے میں چاندی ہو تو ان میں کمی بیشی منع ہے، لہٰذا جو چیزیں قیمت بنتی ہوں، ان میں بھی کمی بیشی منع ہو گی، مثلاََ: کرنسی نوٹ، بانڈ اور سر ٹیفکیٹ وغیرہ۔ سو روپے کا بانڈ یا سر ٹیفکیٹ سو روپے سے زائد میں خریدا یا بیچا نہیں جا سکتا ورنہ سود بن جائے۔ اگر لوہے یا تابنے کے سکے بنائے جائیں یا لوہے تانبے کو بطور قیمت استعمال کیا جائے تو ان کی بیع یا تبادلے میں بھی کمی بیشی منع ہو گی، مثلاََ: سو روپے کا کرنسی نوٹ تبادلے میں سو روپوں کے سکوں کے برابر تصور کیا جائے گا۔ کمی بیشی منع ہو گی۔ آج کل مروجہ شیئرز (حصص) بھی اپنی اصل مالیت سے کم و بیش فروخت نہیں کیے جا سکتے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4579
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4561
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4485
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4561
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4574
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4575
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4565
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت مسلم بن یسار اور حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت معاویہ ؓ ایک جگہ اکٹھے تھے تو حضرت عبادہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، کھجوریں کھجوروں کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جوکے بدلے بیچنے سے منع فرمایا۔ ایک استاد نے، نمک نمک کے بدلے، کے الفاظ بیان کیے، جبکہ دوسرے نے یہ الفاظ نہیں بیان کیے الا یہ کہ وہ (دونوں طرف سے مقدار میں) برابر ہوں (اور نقد سودا ہو)۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا، اس نے سودی لین دین کیا۔ یہ الفاظ (زیادہ دیا یا زیادہ لیا) بھی ایک ہی استاد نے بیان کیے تھے، دوسرے نے نہیں کیے، البتہ آپ نے ہمیں اجازت دی کہ ہم سونے کو چاندی کے بدلے یا چاندی کو سونے کے بدلے اور گندم کو جوکے بدلے اور جو کو گندم کے بدلے جیسے چاہیں کم و بیش بیچ خرید سکتے ہیں بشر طیکہ سودا نقد ہو۔
حدیث حاشیہ:
سونے اور چاندی کو اللہ تعالیٰ نے تجارت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ اور یہ قیمت بنتے ہیں۔ جب سونے کے مقابلے میں سونا یا چاندی کے مقابلے میں چاندی ہو تو ان میں کمی بیشی منع ہے، لہٰذا جو چیزیں قیمت بنتی ہوں، ان میں بھی کمی بیشی منع ہو گی، مثلاََ: کرنسی نوٹ، بانڈ اور سر ٹیفکیٹ وغیرہ۔ سو روپے کا بانڈ یا سر ٹیفکیٹ سو روپے سے زائد میں خریدا یا بیچا نہیں جا سکتا ورنہ سود بن جائے۔ اگر لوہے یا تابنے کے سکے بنائے جائیں یا لوہے تانبے کو بطور قیمت استعمال کیا جائے تو ان کی بیع یا تبادلے میں بھی کمی بیشی منع ہو گی، مثلاََ: سو روپے کا کرنسی نوٹ تبادلے میں سو روپوں کے سکوں کے برابر تصور کیا جائے گا۔ کمی بیشی منع ہو گی۔ آج کل مروجہ شیئرز (حصص) بھی اپنی اصل مالیت سے کم و بیش فروخت نہیں کیے جا سکتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عبید (ابن عتیک) (ان کو ابن ہرمز بھی کہا جاتا ہے) بیان کرتے ہیں کہ عبادہ بن صامت اور معاویہ ؓ ایک جگہ اکٹھا ہوئے، عبادہ ؓ نے لوگوں سے حدیث بیان کی کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے، گیہوں گیہوں کے بدلے اور جَو جَو کے بدلے (ان دونوں راویوں میں سے ایک نے کہا:) نمک نمک کے بدلے، (دوسرے نے یہ نہیں کہا) بیچنے سے منع کیا مگر برابر برابر، نقدا نقد (ان میں سے ایک نے کہا:) جس نے زیادہ دیا یا زیادہ طلب کیا، اس نے سود لیا، (اسے دوسرے (راوی) نے نہیں کہا) اور ہمیں حکم دیا کہ ہم سونا چاندی کے بدلے، چاندی سونے کے بدلے، گیہوں جَو کے بدلے اور جَو گیہوں کے بدلے بیچیں، نقدا نقد جس طرح چاہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Muslim bin Yasar and Abdullah bin Ubaid who was called Ibn Hurmuz narrated that 'Ubadah bin As-Samit and Muawiyah met at a stopping place on the road. 'Ubadah told them: "The Messenger of Allah (ﷺ) forbade selling gold for gold, silver for silver, dates for dates, wheat for wheat, barley for barley"- one of them said: "salt for salt," but the other did not say it-"unless it was equal amount for equal amount, like for like." One of them said: "Whoever gives more or takes more has engaged in Riba," but he other one did not say it. "And he commanded us to sell gold for silver and silver for gold, and wheat for barley and barley for wheat, hand to hand, however we wanted.