Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling Barley For Barley)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4564.
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سونا سونے کے بدلے تول کر عین برابر دیا جائے، ڈلی ہو یا سکہ۔ چاندی چاندی کے برابر تول کر عین برابر دی جائے، ڈلی ہو یا سکہ۔ اسی طرح نمک نمک کے برابر، کھجور کھجور کے برابر، گندم گندم کے برابر اور جو جو کے برابر خریدے بیچے جائیں۔ جو شخص زیادہ دے یا زیادہ لے، اس نے سودی کاروبار کیا۔ مذکورہ الفاظ محمد بن مثنیٰ کے ہیں، یعقوب نے ”جو جو کے برابر“ والے الفاظ ذکر نہیں کیے۔
تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ روایت دو استادوں سے بیان کی، ایک محمد بن مثنیٰ اور دوسرے یعقوب بن ابراہیم۔ دونوں استاد ساری روایت ایک جیسی بیان کرتے ہیں لیکن یہ جملہ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ صرف استاد محمد بن مثنیٰ بیان کرتے ہیں، دوسرے استاد نے یہ جملہ بیان نہیں کیا۔ (2) مذکورہ روایت بیان کرنے والے ایک استاد کا نام سنن نسائی میں یعقوب بن ابراہیم بیان کیا گیا ہے۔ سنن النسائی (المجتبیٰ) کے تمام نسخوں میں یہی نام مذکور ہے لیکن یہ غلط ہے۔ درست نام ”ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی“ ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ کے ایک استاد یعقوب بن ابراہیم الدورقی بھی ہیں لیکن مذکورہ روایت ان کی بیان کردہ نہیں بلکہ یہ ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی کی بیان کردہ ہے۔ یہ تمام تر وضاحت حافظ مزی رحمہ اللہ نے تحفۃ الاشراف میں بیان کی ہے۔ دیکھیے: (تحفة الأشراف: ۴/ ۴۵۰) مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي للاتبوبي: ۳۴/ ۳۶۲)
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4582
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4564
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4488
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4564
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4577
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4578
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4568
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سونا سونے کے بدلے تول کر عین برابر دیا جائے، ڈلی ہو یا سکہ۔ چاندی چاندی کے برابر تول کر عین برابر دی جائے، ڈلی ہو یا سکہ۔ اسی طرح نمک نمک کے برابر، کھجور کھجور کے برابر، گندم گندم کے برابر اور جو جو کے برابر خریدے بیچے جائیں۔ جو شخص زیادہ دے یا زیادہ لے، اس نے سودی کاروبار کیا۔ مذکورہ الفاظ محمد بن مثنیٰ کے ہیں، یعقوب نے ”جو جو کے برابر“ والے الفاظ ذکر نہیں کیے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ روایت دو استادوں سے بیان کی، ایک محمد بن مثنیٰ اور دوسرے یعقوب بن ابراہیم۔ دونوں استاد ساری روایت ایک جیسی بیان کرتے ہیں لیکن یہ جملہ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ صرف استاد محمد بن مثنیٰ بیان کرتے ہیں، دوسرے استاد نے یہ جملہ بیان نہیں کیا۔ (2) مذکورہ روایت بیان کرنے والے ایک استاد کا نام سنن نسائی میں یعقوب بن ابراہیم بیان کیا گیا ہے۔ سنن النسائی (المجتبیٰ) کے تمام نسخوں میں یہی نام مذکور ہے لیکن یہ غلط ہے۔ درست نام ”ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی“ ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ کے ایک استاد یعقوب بن ابراہیم الدورقی بھی ہیں لیکن مذکورہ روایت ان کی بیان کردہ نہیں بلکہ یہ ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی کی بیان کردہ ہے۔ یہ تمام تر وضاحت حافظ مزی رحمہ اللہ نے تحفۃ الاشراف میں بیان کی ہے۔ دیکھیے: (تحفة الأشراف: ۴/ ۴۵۰) مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي للاتبوبي: ۳۴/ ۳۶۲)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سونا سونے کے بدلے، ڈلا ہو یا سکہ، برابر برابر ہو، چاندی چاندی کے بدلے ڈالا ہویا سکہ، برابر برابر ہو، نمک نمک کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے، گیہوں گیہوں کے بدلے اور جَو جَو کے بدلے برابر برابر اور یکساں ہو، لہٰذا جو زیادہ دے یا زیادہ کا مطالبہ کرے تو اس نے سود لیا۔“ یہ الفاظ محمد بن المثنیٰ کے ہیں، ابراہیم بن یعقوب نے ”جَو جَو کے بدلے“ کا ذکر نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Ubadah bin As-Samit said: "The Messenger of Allah said: 'Gold for gold, of equal measure; silver for silver, of equal measure; salt for salt, dates for dates wheat for wheat, barley for barley, like for like. Whoever gives more or takes more has engaged in Riba."' (Sahih) The wording is that of Muhammad Yaqub did not mention - "Wheat for wheat".