Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling Silver For Gold On Credit.)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4577.
حضرت ابو منہال نے فرمایا: میں نے حضرت براء بن عازب ؓ سے سونے اور چاندی کے تبادلے کے بارے میں پوچھا تو وہ فرمانے لگے: حضرت زید بن ارقم ؓ سے پوچھو۔ وہ مجھ سے بہتر اور زیادہ علم والے ہیں۔ میں نے حضرت زید ؓ سے پوچھا۔ وہ فرمانے لگے: حضرت براء سے پوچھو۔ وہ مجھ سے بہتر اور زیادہ علم والے ہیں۔ پھر ان دونوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے سونے چاندی کے ادھار تبادلے سے منع فرمایا ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ایک صاحب علم کو فتویٰ دیتے وقت اپنے سے بڑے یا دیگر اصحاب العلم سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے، نیز ان سے مدد لے اور تعاون حاصل کرے تاکہ بعد ازاں کسی قسم کی پریشانی لاحق نہ ہو جیسا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے یہی مسئلہ پوچھنے کی تلقین فرمائی۔ اہل علم کی یہی شان ہوا کرتی ہے۔ (2) ”وہ مجھ سے بہتر ہیں۔“ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کسر نفسی اور تواضع ہے کہ دوسرے کو اپنے سے بہتر اور بڑا عالم خیال کرتے تھے۔ کاش! آج علماء وفضلاء اور اہل علم میں یہ عظیم جذبہ پیدا ہو جائے اور خودنمائی وخود پسندی کی بیماری سے ”صحت یاب ہو جائیں۔“ آمین! اہل علم کو یہی رویہ اپنانا چاہیے، اس میں برکت اور احترام ہے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4595
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4577
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4501
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4577
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4590
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4591
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4581
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابو منہال نے فرمایا: میں نے حضرت براء بن عازب ؓ سے سونے اور چاندی کے تبادلے کے بارے میں پوچھا تو وہ فرمانے لگے: حضرت زید بن ارقم ؓ سے پوچھو۔ وہ مجھ سے بہتر اور زیادہ علم والے ہیں۔ میں نے حضرت زید ؓ سے پوچھا۔ وہ فرمانے لگے: حضرت براء سے پوچھو۔ وہ مجھ سے بہتر اور زیادہ علم والے ہیں۔ پھر ان دونوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے سونے چاندی کے ادھار تبادلے سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ایک صاحب علم کو فتویٰ دیتے وقت اپنے سے بڑے یا دیگر اصحاب العلم سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے، نیز ان سے مدد لے اور تعاون حاصل کرے تاکہ بعد ازاں کسی قسم کی پریشانی لاحق نہ ہو جیسا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے یہی مسئلہ پوچھنے کی تلقین فرمائی۔ اہل علم کی یہی شان ہوا کرتی ہے۔ (2) ”وہ مجھ سے بہتر ہیں۔“ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کسر نفسی اور تواضع ہے کہ دوسرے کو اپنے سے بہتر اور بڑا عالم خیال کرتے تھے۔ کاش! آج علماء وفضلاء اور اہل علم میں یہ عظیم جذبہ پیدا ہو جائے اور خودنمائی وخود پسندی کی بیماری سے ”صحت یاب ہو جائیں۔“ آمین! اہل علم کو یہی رویہ اپنانا چاہیے، اس میں برکت اور احترام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابومنہال کہتے ہیں کہ میں نے بیع صرف کے بارے میں براء بن عازب ؓ سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: زید بن ارقم ؓ سے معلوم کر لو، وہ مجھ سے بہتر ہیں اور زیادہ جاننے والے ہیں۔ چنانچہ میں نے زید ؓ سے پوچھا تو انہوں نے کہا: براء ؓ سے معلوم کرو وہ مجھ سے بہتر ہیں اور زیادہ جاننے والے ہیں، تو ان دونوں نے کہا: ”رسول اللہ ﷺ نے سونے کے بدلے چاندی ادھار بیچنے سے روکا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Al-Minhal said: "I asked Al-Bara' bin 'Azib about money exchange. He said: 'Ask Zaid bin Arqam (RA), for he is better than me and more knowledgeable.' So I asked Zaid and he said: 'Ask Al-Bara' for he is better than me and more knowledgeable.' And they both said: 'The Messenger of Allah (ﷺ) forbade (selling) silver for gold on credit.