Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Allowing more when weighing goods for sale)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4592.
حضرت سوید بن قیس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اور مخرمہ عبدی علاقہ ہجر سے (بیچنے کے لیے) کپڑے لائے۔ رسول اللہ ﷺ مقام منیٰ میں ہمارے پاس تشریف لائے اور ایک تولنے والا اجرت پر تول رہا تھا۔ آپ نے ہم سے ایک شلوار خریدی، پھر تولنے والے سے فرمایا: ”(قیمت) تول اور جھکا کر دے۔“
تشریح:
(1) سودا دیتے وقت کچھ نہ کچھ زیادہ دینا چاہیے، یعنی تولتے وقت ترازو جھکتا ہونا چاہیے۔ باہمی خیر خواہی، ہمدردی اور اسلامی بھائی چارے کا تقاضا یہی ہے چہ جائیکہ ڈنڈی ماری جائے، یہ حرام ہے۔ اس طرح برکت اٹھ جاتی ہے۔ أعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْه۔ (2) حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ کپڑے کی تجارت شرعاً جائز ہے اور یہ حلال روزی کمانے کا بہترین ذریعہ بھی ہے، نیز دوسرے ممالک سے مال منگوانے کی مشروعیت پر بھی دلالت کرتی ہے، یعنی درآمد و برآمد کا کاروبار، شرعاً درست ہے۔ (3) یہ حدیث مبارکہ جس طرح جھکتا تول کر دینے کے استحباب پر دلالت کرتی ہے بعینہٖ اسی طرح کم تول کر دینے کی کراہت اور اس کے غیر مشروع ہونے پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ اس طرح انسان کی حق تلفی ہوتی ہے جو کبیرہ گناہ ہے۔ (4) ”اجرت پر تول رہا تھا۔“ یعنی قیمت میں سونا چاندی تول رہا تھا اور وہ تولنے کے پیسے لیتا تھا۔ اس سے خریدار کو ادائیگی کی سہولت ہوتی تھی کیونکہ قیمت کا تول خریدار کے ذمہ ہوتا ہے جبکہ سامانِ فروخت کا تول بیچنے والے کے ذمے۔ یہ معنیٰ بھی ہو سکتے ہیں کہ تولنے والا قیمت تول تول کر لے رہا تھا۔ اس صورت میں بیچنے والوں نے اسے مقرر کیا ہوگا۔ (5) ”شلوار خریدی“ ظاہر ہے پہننے کے لیے خریدی ہوگی، تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ گھر کے کسی اور فرد کے لیے خریدی ہو۔ آپ سے شلوار کی تعریف ثابت ہے کہ یہ پردے والا لباس ہے۔ (6) ”جھکا کر دے“ تاکہ کمی کا احتمال نہ رہے۔ اور یہ حکم وزن کے علاوہ ماپ اور پیمائش میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ دینے والے کو چاہیے کہ ان میں بھی کچھ زائد ہی دے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4610
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4592
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4515
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4592
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4605
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4606
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4596
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت سوید بن قیس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اور مخرمہ عبدی علاقہ ہجر سے (بیچنے کے لیے) کپڑے لائے۔ رسول اللہ ﷺ مقام منیٰ میں ہمارے پاس تشریف لائے اور ایک تولنے والا اجرت پر تول رہا تھا۔ آپ نے ہم سے ایک شلوار خریدی، پھر تولنے والے سے فرمایا: ”(قیمت) تول اور جھکا کر دے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) سودا دیتے وقت کچھ نہ کچھ زیادہ دینا چاہیے، یعنی تولتے وقت ترازو جھکتا ہونا چاہیے۔ باہمی خیر خواہی، ہمدردی اور اسلامی بھائی چارے کا تقاضا یہی ہے چہ جائیکہ ڈنڈی ماری جائے، یہ حرام ہے۔ اس طرح برکت اٹھ جاتی ہے۔ أعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْه۔ (2) حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ کپڑے کی تجارت شرعاً جائز ہے اور یہ حلال روزی کمانے کا بہترین ذریعہ بھی ہے، نیز دوسرے ممالک سے مال منگوانے کی مشروعیت پر بھی دلالت کرتی ہے، یعنی درآمد و برآمد کا کاروبار، شرعاً درست ہے۔ (3) یہ حدیث مبارکہ جس طرح جھکتا تول کر دینے کے استحباب پر دلالت کرتی ہے بعینہٖ اسی طرح کم تول کر دینے کی کراہت اور اس کے غیر مشروع ہونے پر بھی دلالت کرتی ہے کیونکہ اس طرح انسان کی حق تلفی ہوتی ہے جو کبیرہ گناہ ہے۔ (4) ”اجرت پر تول رہا تھا۔“ یعنی قیمت میں سونا چاندی تول رہا تھا اور وہ تولنے کے پیسے لیتا تھا۔ اس سے خریدار کو ادائیگی کی سہولت ہوتی تھی کیونکہ قیمت کا تول خریدار کے ذمہ ہوتا ہے جبکہ سامانِ فروخت کا تول بیچنے والے کے ذمے۔ یہ معنیٰ بھی ہو سکتے ہیں کہ تولنے والا قیمت تول تول کر لے رہا تھا۔ اس صورت میں بیچنے والوں نے اسے مقرر کیا ہوگا۔ (5) ”شلوار خریدی“ ظاہر ہے پہننے کے لیے خریدی ہوگی، تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ گھر کے کسی اور فرد کے لیے خریدی ہو۔ آپ سے شلوار کی تعریف ثابت ہے کہ یہ پردے والا لباس ہے۔ (6) ”جھکا کر دے“ تاکہ کمی کا احتمال نہ رہے۔ اور یہ حکم وزن کے علاوہ ماپ اور پیمائش میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ دینے والے کو چاہیے کہ ان میں بھی کچھ زائد ہی دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سوید بن قیس ؓ کہتے ہیں کہ میں اور مخرفہ عبدی ؓ مقام ہجر سے کپڑا لائے، ہم منیٰ میں تھے کہ ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ آ گئے، وہاں ایک تولنے والا تھا جو اجرت پر تول رہا تھا، تو آپ نے ہم سے پاجامہ خریدا اور تولنے والے سے فرمایا: ”جھکتا ہوا تولو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Suwaid bin Qais said: "Makhrafah Al-Abdi and I brought some cloth from Hajar, and the Messenger of Allah (ﷺ) came to us while we were in Mina where there w a man who weighed (goods) in return for payment. He bought some trousers from us, and said to the man who weighed: 'Weigh it, and allow more.