Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Allowing more when weighing goods for sale)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4594.
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ماپ مدینے والوں کے مطابق ہونا چاہیے اور وزن مکے والوں کے مطابق۔“ یہ الفاظ اسحاق کے ہیں۔
تشریح:
(1) اس روایت میں امام نسائی رحمہ اللہ کے دو استاد ہیں: ایک اسحاق بن ابراہیم اور دوسرے محمد بن اسماعیل۔ روایت کے مذکورہ الفاظ استاد اسحاق (بن راہویہ) کے ہیں۔ دوسرے استاد محمد بن اسماعیل (ابن علیہ) کے بیان کردہ الفاظ ان سے قدرے مختلف ہیں۔ (2) عرب میں باقاعدہ حکومت نہیں تھی کہ ایک ہی وزن اور ایک ہی ماپ رائج ہو بلکہ مختلف وزن اور ماپ رائج تھے۔ شریعت میں زکاۃ، عشر، کفارات و دیگر ضروریات کے احکام نازل ہوئے تو وزن اور ماپ معین کرنا ضروری تھا۔ رسول اللہ ﷺ ایک منظم حکومت بھی وجود میں لا چکے تھے، لہٰذا انتظامی لحاظ سے بھی وزن اور ماپ کے پیمانے معین کرنا ضروری تھے، اس لیے آپ نے وزن مکے والوں کا اور ماپ مدینے والوں کا سرکاری اور شرعی طور پر معین فرما دیا۔ اس دور میں وزن عموماً سونے چاندی اور دیگر دھاتوں کا ہوتا تھا۔ غلے میں ماپ رائج تھا۔ مدینہ منورہ کے لوگ زمیندار تھے۔ وہاں غلہ وافر ہوتا تھا، اس لیے آپ نے ماپ، یعنی مد، صاع اور وسق وغیرہ مدینہ منورہ کے رائج فرمائے۔ مکے والوں کے ہاں دس درہم سات دینار کے وزن کے برابر ہوتے تھے اور دینار ساڑھے چار ماشے کا ہوتا تھا۔ اب زکاۃ ودیت وغیرہ میں یہی وزن معتبر ہوگا۔ اور عشر وصدقۃ الفطر اور کفارات میں مدینے والوں کا مد وصاع معتبر ہوگا۔ مدینے والوں کا صاع معتبر ہوگا۔ مدینے والوں کا صاع چار مد کا ہوتا تھا۔ وزن میں یہ ۳/۵۱ رطل کے برابر تھا۔ مد اور صاع برتن تھے جن میں وہ غلہ اور کھجوریں ڈال کر ماپا کرتے تھے۔ آج کل غلے اور کھجوروں کا وزن کیا جاتا ہے، اس لیے مد اور صاع کے وزن میں اختلاف ہو گیا ہے۔ ویسے بھی ایک ہی برتن میں ڈالی جانے والی اشیاء کا وزن ایک نہیں ہو سکتا بلکہ ہر ایک کا وزن الگ الگ ہوگا، مثلاً: پانی، دودھ، پارہ، شربت، کھجور، گندم، چینی وغیرہ اپنا الگ الگ وزن رکھتے ہیں۔ درہم، دینار اور مد وصاع بعد میں بھی بدلتے رہے ہیں۔ مختلف حکومتوں نے اپنے اپنے حساب سے کمی بیشی کی مگر شریعت میں آپ کے دور کے درہم، دینار اور مد و صاع ہی وزن اور ماپ میں معتبر ہوں گے، مثلاً: کوفی صاع مدینے کے صاع سے بڑا تھا، لیکن صدقۃ الفطر وغیرہ میں مدینے کا صاع ہی چلے گا۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 267 :
رواه ابن الأعرابي في " معجمه " ( 167 / 2 ) و أبو داود ( 2340 ) و النسائي
( 7 / 281 المطبعة المصرية ) و ابن حبان ( 1105 ) و الطبراني ( 3 / 202 / 1 )
و الطحاوي في " مشكل الآثار " ( 2 / 99 ) و أبو نعيم في " الحلية " ( 4 / 20 )
و البيهقي ( 6 / 31 ) من طريقين عن سفيان عن حنظلة عن طاووس عن ابن عمر
مرفوعا .
قلت : و هذا سند صحيح كما قال ابن الملقن في " الخلاصة " ( 64 - 65 )
و صححه ابن حبان و الدارقطني و النووي و ابن دقيق العيد و العلائي كما
في " فيض القدير " و رواه بعضهم عن سفيان به فقال " عن ابن عباس " بدل
" ابن عمر " و هو خطأ كما بينته في تخريج أحاديث بيوع الموسوعة الفقهية ،
ثم في " الإرواء " ( 1331 ) .
قال الإمام أبو جعفر الطحاوي رحمه الله :
" تأملنا هذا الحديث ، فوجدنا مكة لم يكن بها ثمرة و لا زرع حينئذ ، و كذلك
كانت قبل ذلك الزمان ، ألا ترى إلى قول إبراهيم عليه السلام : ( ربنا إني أسكنت
من ذريتي بواد غير ذي زرع ) ، و إنما كانت بلد متجر ، يوافي الحاج إليها
بتجارات فيبيعونها هناك ، و كانت المدينة بخلاف ذلك ، لأنها دار النخل ، و من
ثمارها حياتهم ، و كانت الصدقات تدخلها فيكون الواجب فيها من صدقة تؤخذ كيلا ،
فجعل النبي صلى الله عليه وسلم الأمصار كلها لهذين المصريين أتباعا ، و كان
الناس يحتاجون إلى الوزن في أثمان ما يبتاعون ، و فيما سواها مما يتصرفون فيه
من العروض و من أداء الزكوات و ما سوى ذلك مما يستعملونه ، فيما يسلمونه فيه من
غيره من الأشياء التي يكيلونها ، و كانت السنة قد منعت من إسلام موزون في موزون
و من إسلام مكيل في مكيل ، و أجازت إسلام المكيل في موزون ، و الموزون في مكيل
و منعت من بيع الموزون بالموزون ، إلا مثلا بمثل ، و من بيع المكيل بالمكيل إلا
مثلا بمثل ، و كان الوزن في ذلك أصله ما كان عليه بمكة ، و المكيال مكيال أهل
المدينة ، لا يتغير عن ذلك ، و إن غيره الناس عما كان عليه إلى ما سواه من ضده
فيرحبون بذلك إلى معرفة الأشياء المكيلات التي لها حكم المكيال إلى ما كان عليه
أهل المكاييل فيها يومئذ ، و في الأشياء الموزونات إلى ما كان عليه أهل الميزان
يومئذ ، و أن أحكامها لا تتغير عن ذلك و لا تنقلب عنها إلى أضدادها " .
قلت : و من ذلك يتبين لنا أن النبي صلى الله عليه وسلم هو أول من وضع أصل توحيد
الموازين و المكاييل ، و وجه المسلمين إلى الرجوع في ذلك إلى أهل هذين البلدين
المفضلين : مكة المكرمة و المدينة المنورة . فليتأمل العاقل هذا و لينظر حال
المسلمين اليوم و اختلافهم في مكاييلهم و موازينهم ، على أنواع شتى بسبب هجرهم
لهذا التوجيه النبوي الكريم . و لما شعر بعض المسؤولين في بعض الدول العربية
المسلمة بسوء هذا الاختلاف اقترح البعض عليهم توحيد ذلك و غيره كالمقاييس ،
بالرجوع إلى عرف الكفار فيها ! فوا أسفاه ، لقد كنا سادة و قادة لغيرنا بعلمنا
و تمسكنا بشريعتنا ، و إذا بنا اليوم أتباع و مقلدون ! و لمن ! لمن كانوا في
الأمس القريب يقلدوننا ، و يأخذون العلوم عنا ! و لكن لابد لهذا الليل من أن
ينجلي ، و لابد للشمس أن تشرق مرة أخرى ، و ها قد لاحت تباشير الصبح ، و أخذت
الدول الإسلامية تعتمد على نفسها في كل شؤون حياتها ، بعد أن كانت فيها عالة
على غيرها ، و لعلها تسير في ذلك على هدي كتاب ربها و سنة نبيها .
و لله في خلقه شؤون .
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4612
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4594
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4517
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4594
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4607
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4608
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4598
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ماپ مدینے والوں کے مطابق ہونا چاہیے اور وزن مکے والوں کے مطابق۔“ یہ الفاظ اسحاق کے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت میں امام نسائی رحمہ اللہ کے دو استاد ہیں: ایک اسحاق بن ابراہیم اور دوسرے محمد بن اسماعیل۔ روایت کے مذکورہ الفاظ استاد اسحاق (بن راہویہ) کے ہیں۔ دوسرے استاد محمد بن اسماعیل (ابن علیہ) کے بیان کردہ الفاظ ان سے قدرے مختلف ہیں۔ (2) عرب میں باقاعدہ حکومت نہیں تھی کہ ایک ہی وزن اور ایک ہی ماپ رائج ہو بلکہ مختلف وزن اور ماپ رائج تھے۔ شریعت میں زکاۃ، عشر، کفارات و دیگر ضروریات کے احکام نازل ہوئے تو وزن اور ماپ معین کرنا ضروری تھا۔ رسول اللہ ﷺ ایک منظم حکومت بھی وجود میں لا چکے تھے، لہٰذا انتظامی لحاظ سے بھی وزن اور ماپ کے پیمانے معین کرنا ضروری تھے، اس لیے آپ نے وزن مکے والوں کا اور ماپ مدینے والوں کا سرکاری اور شرعی طور پر معین فرما دیا۔ اس دور میں وزن عموماً سونے چاندی اور دیگر دھاتوں کا ہوتا تھا۔ غلے میں ماپ رائج تھا۔ مدینہ منورہ کے لوگ زمیندار تھے۔ وہاں غلہ وافر ہوتا تھا، اس لیے آپ نے ماپ، یعنی مد، صاع اور وسق وغیرہ مدینہ منورہ کے رائج فرمائے۔ مکے والوں کے ہاں دس درہم سات دینار کے وزن کے برابر ہوتے تھے اور دینار ساڑھے چار ماشے کا ہوتا تھا۔ اب زکاۃ ودیت وغیرہ میں یہی وزن معتبر ہوگا۔ اور عشر وصدقۃ الفطر اور کفارات میں مدینے والوں کا مد وصاع معتبر ہوگا۔ مدینے والوں کا صاع معتبر ہوگا۔ مدینے والوں کا صاع چار مد کا ہوتا تھا۔ وزن میں یہ ۳/۵۱ رطل کے برابر تھا۔ مد اور صاع برتن تھے جن میں وہ غلہ اور کھجوریں ڈال کر ماپا کرتے تھے۔ آج کل غلے اور کھجوروں کا وزن کیا جاتا ہے، اس لیے مد اور صاع کے وزن میں اختلاف ہو گیا ہے۔ ویسے بھی ایک ہی برتن میں ڈالی جانے والی اشیاء کا وزن ایک نہیں ہو سکتا بلکہ ہر ایک کا وزن الگ الگ ہوگا، مثلاً: پانی، دودھ، پارہ، شربت، کھجور، گندم، چینی وغیرہ اپنا الگ الگ وزن رکھتے ہیں۔ درہم، دینار اور مد وصاع بعد میں بھی بدلتے رہے ہیں۔ مختلف حکومتوں نے اپنے اپنے حساب سے کمی بیشی کی مگر شریعت میں آپ کے دور کے درہم، دینار اور مد و صاع ہی وزن اور ماپ میں معتبر ہوں گے، مثلاً: کوفی صاع مدینے کے صاع سے بڑا تھا، لیکن صدقۃ الفطر وغیرہ میں مدینے کا صاع ہی چلے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”«مکیال» (ناپنے کا آلہ) مدینے والوں کا معتبر ہے اور وزن اہل مکہ کا معتبر ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Umar said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: "Volume is to be measured according to the system of the people of Al-Madinah, and weight is to be measured according to the system of the people of Makkah."' (Sahih) This is the wording of Ishaq (one of the narrators).