Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling food before taking possession of it)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4595.
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو آدمی غلہ (غذائی جنس) خریدے، وہ کسی کو فروخت نہ کرے حتیٰ کہ اسے (پورا پورا) اپنے قبضے میں لے لے۔“
تشریح:
(1) جب کوئی شخص غذائی اجناس خریدے تو اسے اس وقت تک آگے نہیں بیچ سکتا جب تک وہ اسے مکمل طور پر اپنے قبضے میں نہ لے لے۔ اگر وہ مکیل چیز ہے تو اس کا ماپ پورا کرے اور اگر وہ موزون ہے تو اس کا وزن پورا کر لے۔ اگر ماپے تو لے اور قبضے میں لیے بغیر ہی بیچے گا تو شرعاً یہ کام ناجائز اور حرام ہوگا۔ باب کے تحت درج تمام احادیث اس مسئلے کی پوری پوری وضاحت کر رہی ہیں جبکہ ہمارے ہاں آج کل یہ وبا عام ہے کہ تاجر لوگ عموماً سودے پر سودا کیے جاتے ہیں جبکہ اصل چیز (مبیع) ایک ہی جگہ کسی سٹور وغیرہ میں پڑی رہتی ہے، کوئی خریدار اسے دیکھتا ہے نہ اس کا وزن یا کیل (ماپ تول) ہی معلوم کرتا ہے بلکہ اسے آگے سے آگے فروخت کیا جاتا ہے، اس طرح وہ اپنے پیسوں ہی پر نفع پہ نفع لیے جاتے ہیں، چيز کو دیکھنے تک کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور نہ انھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مبیع چیز درست حالت میں ہے یا خراب ہو چکی ہے؟ غرض کسی کو کچھ علم نہیں ہوتا لیکن چیز آگے بک رہی ہوتی ہے بالآخر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آخری خریدار کو نقصان ہوتا ہے اور یہی چیز باہمی جھگڑے فساد کا باعث بنتی ہے۔ شریعت مطہرہ کا حکم بالکل واضح اور دو ٹوک ہے کہ جب کوئی شخص غذائی جنس، یعنی غلہ وغیرہ خریدے تو اسے چاہیے کہ اس چیز کو وہاں سے اٹھا کر اپنے قبضے میں کر لے، اور کسی دوسری جگہ اسے فروخت کر دے۔ (2) اس حدیث میں یہ حکم صرف غلے کے بارے میں ہے۔ امام نسائی کا ذہن بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ فروخت کے لیے قبضے کی شرط صرف غلے میں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ ہر چیز میں فروخت سے پہلے قبضہ ضروری خیال کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد رحمہ اللہ زمین ومکان کے علاوہ تمام اشیاء میں اس حکم کو رائج فرماتے ہیں۔ گویا انھوں نے منقولہ وغیرہ منقول اشیاء میں فرق کیا ہے کہ منقولہ میں قبضہ ضروری ہے۔ باقی رہی جائیداد غیر منقولہ تو اس کو کون سا اٹھایا یا منتقل کیا جا سکتا ہے کہ اس پر قبضے کی قید ضروری ہو۔ (3) بیچنے سے پہلے قبضے کی قید لگانے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ قبضے میں لینے سے مال کی جانچ پڑتال ہو جائے، اس کی اصل کیفیت معلوم ہو جائے، نیز خریدار چیز کے خریدنے کے بعد کچھ محنت بھی کرے، مثلاً: وہ غلہ وہاں سے اٹھا کر اپنی دکان میں لے جائے۔ اگر وہ ڈھیر تولا نہیں گیا تھا تو اس کو تولے تاکہ یہ محنت اس منافع کا جواز بن سکے جو وہ بیچ کر حاصل کرے گا۔ اگر کسی نے کوئی چیز خرید کر اسی جگہ پڑی کی پڑی بیچ دی تو گویا اس نے پیسہ لگانے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کیا اور تھوڑا پیسہ لگا کر زیادہ پیسہ کمایا۔ یہ سود کے مشابہ ہے۔ کسی کو پیسہ دیا، پھر کچھ عرصے کے بعد زیادہ لے لیا۔ اسلام بلا محنت کمائی کو جوا اور سود قرار دیتا ہے۔ حلال کی کمائی وہی ہے جو محنت اور کام کے عوض ہو۔ رقم پر سود لینا، بانڈ خرید کر یا کسی اور طریقے سے (قرعہ اندازی کے ذریعے سے) انعام حاصل کرنا یہ سب حرام ہیں کیونکہ محنت سے خالی ہیں۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4613
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4595
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4518
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4595
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4608
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4609
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4599
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو آدمی غلہ (غذائی جنس) خریدے، وہ کسی کو فروخت نہ کرے حتیٰ کہ اسے (پورا پورا) اپنے قبضے میں لے لے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) جب کوئی شخص غذائی اجناس خریدے تو اسے اس وقت تک آگے نہیں بیچ سکتا جب تک وہ اسے مکمل طور پر اپنے قبضے میں نہ لے لے۔ اگر وہ مکیل چیز ہے تو اس کا ماپ پورا کرے اور اگر وہ موزون ہے تو اس کا وزن پورا کر لے۔ اگر ماپے تو لے اور قبضے میں لیے بغیر ہی بیچے گا تو شرعاً یہ کام ناجائز اور حرام ہوگا۔ باب کے تحت درج تمام احادیث اس مسئلے کی پوری پوری وضاحت کر رہی ہیں جبکہ ہمارے ہاں آج کل یہ وبا عام ہے کہ تاجر لوگ عموماً سودے پر سودا کیے جاتے ہیں جبکہ اصل چیز (مبیع) ایک ہی جگہ کسی سٹور وغیرہ میں پڑی رہتی ہے، کوئی خریدار اسے دیکھتا ہے نہ اس کا وزن یا کیل (ماپ تول) ہی معلوم کرتا ہے بلکہ اسے آگے سے آگے فروخت کیا جاتا ہے، اس طرح وہ اپنے پیسوں ہی پر نفع پہ نفع لیے جاتے ہیں، چيز کو دیکھنے تک کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور نہ انھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مبیع چیز درست حالت میں ہے یا خراب ہو چکی ہے؟ غرض کسی کو کچھ علم نہیں ہوتا لیکن چیز آگے بک رہی ہوتی ہے بالآخر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آخری خریدار کو نقصان ہوتا ہے اور یہی چیز باہمی جھگڑے فساد کا باعث بنتی ہے۔ شریعت مطہرہ کا حکم بالکل واضح اور دو ٹوک ہے کہ جب کوئی شخص غذائی جنس، یعنی غلہ وغیرہ خریدے تو اسے چاہیے کہ اس چیز کو وہاں سے اٹھا کر اپنے قبضے میں کر لے، اور کسی دوسری جگہ اسے فروخت کر دے۔ (2) اس حدیث میں یہ حکم صرف غلے کے بارے میں ہے۔ امام نسائی کا ذہن بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ فروخت کے لیے قبضے کی شرط صرف غلے میں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ ہر چیز میں فروخت سے پہلے قبضہ ضروری خیال کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد رحمہ اللہ زمین ومکان کے علاوہ تمام اشیاء میں اس حکم کو رائج فرماتے ہیں۔ گویا انھوں نے منقولہ وغیرہ منقول اشیاء میں فرق کیا ہے کہ منقولہ میں قبضہ ضروری ہے۔ باقی رہی جائیداد غیر منقولہ تو اس کو کون سا اٹھایا یا منتقل کیا جا سکتا ہے کہ اس پر قبضے کی قید ضروری ہو۔ (3) بیچنے سے پہلے قبضے کی قید لگانے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ قبضے میں لینے سے مال کی جانچ پڑتال ہو جائے، اس کی اصل کیفیت معلوم ہو جائے، نیز خریدار چیز کے خریدنے کے بعد کچھ محنت بھی کرے، مثلاً: وہ غلہ وہاں سے اٹھا کر اپنی دکان میں لے جائے۔ اگر وہ ڈھیر تولا نہیں گیا تھا تو اس کو تولے تاکہ یہ محنت اس منافع کا جواز بن سکے جو وہ بیچ کر حاصل کرے گا۔ اگر کسی نے کوئی چیز خرید کر اسی جگہ پڑی کی پڑی بیچ دی تو گویا اس نے پیسہ لگانے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کیا اور تھوڑا پیسہ لگا کر زیادہ پیسہ کمایا۔ یہ سود کے مشابہ ہے۔ کسی کو پیسہ دیا، پھر کچھ عرصے کے بعد زیادہ لے لیا۔ اسلام بلا محنت کمائی کو جوا اور سود قرار دیتا ہے۔ حلال کی کمائی وہی ہے جو محنت اور کام کے عوض ہو۔ رقم پر سود لینا، بانڈ خرید کر یا کسی اور طریقے سے (قرعہ اندازی کے ذریعے سے) انعام حاصل کرنا یہ سب حرام ہیں کیونکہ محنت سے خالی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے غلہ خریدا تو وہ اسے اس وقت تک نہ بیچے جب تک اسے مکمل طور پر اپنی تحویل میں نہ لے لے۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : خرید و فروخت میں شریعت اسلامیہ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ خریدی ہوئی چیز کو خریدار جب تک بیچنے والے سے مکمل طور پر اپنی تحویل میں نہ لے لے دوسرے سے نہ بیچے، اور یہ تحویل و تملک اور قبضہ ہر چیز پر اسی چیز کے حساب سے ہو گا، نیز اس سلسلے میں ہر علاقہ کے عرف (رسم رواج) کا اعتبار بھی ہو گا کہ وہاں کس چیز پر کیسے قبضہ مانا جاتا ہے، البتہ منقولہ چیزوں کے سلسلے میں شریعت نے ایک عام اصول برائے مکمل قبضہ یہ بتایا ہے کہ اس چیز کو بیچنے والے کی جگہ سے خریدار اپنی جگہ میں منتقل کر لے، یا ناپنے والی چیز کو ناپ لے اور تولنے والی چیز کو تول لے، اور اندازہ والی چیز کی جگہ بدل لے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Umar (RA) said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Whoever buys food, let him not sell it until he has taken possession of it.