باب: اندازاً خریدا ہوا غلہ (پہلی جگہ سے) منتقل کیے بغیر بیچنے کی ممانعت کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: .Selling food that one has Bought Unmeasured before removing it from the Place of Sale)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4605.
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے مبارک زمانے میں ہم غلہ خریدتے تھے تو آپ ہمارے پاس اس شخص کو بھیجتے تھے جو ہمیں حکم دیتا تھا کہ اسے آگے بیچنے سے پہلے اس جگہ سے کسی اور جگہ منتقل کیا جائے جہاں پر خریدا گیا تھا۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے اس طرح بیع کرنے سے منع فرمایا ہے بلکہ اس مقصد کے لیے آپ نے آدمی بھی متعین کیے تھے جو لوگوں کو خریدی ہوئی چیز پہلی جگہ سے منتقل کیے بغیر فروخت کرنے سے روکتے تھے۔ (2) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز کے ڈھیر کی اندازاً بیع جائز ہے، خواہ اس کے درست وزن یا مقدار کا علم نہ بھی ہو، تاہم یہ ضروری ہے کہ اس میں نہ تو ملاوٹ ہو اور نہ کوئی اور خرابی ہی ہو۔ (3) یہ حدیث مبارکہ اس مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ فساد اور حرام بیوع کرنے والوں کی اصلاح اور اس ضمن میں ان کی تادیب ضروری ہے جیسا کہ حدیث: ۴۶۱۲ میں ہے کہ اس قسم کی خرید و فروخت کرنے والوں کی پٹائی کی جاتی تھی۔ اور یہ رسول اللہ ﷺ کے زریں دور کی بات ہے۔ (4) ”کسی اور جگہ منتقل کیا جائے۔“ تاکہ قبضہ محقق ہو جائے، نیز کچھ محنت بھی ہو جائے تاکہ منافع حاصل کرنے کا جواز بن سکے۔ (مزید دیکھیے حدیث: ۴۵۹۹۔ فائدہ۲)
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4623
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4605
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4526
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4605
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4618
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4619
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4609
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے مبارک زمانے میں ہم غلہ خریدتے تھے تو آپ ہمارے پاس اس شخص کو بھیجتے تھے جو ہمیں حکم دیتا تھا کہ اسے آگے بیچنے سے پہلے اس جگہ سے کسی اور جگہ منتقل کیا جائے جہاں پر خریدا گیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے اس طرح بیع کرنے سے منع فرمایا ہے بلکہ اس مقصد کے لیے آپ نے آدمی بھی متعین کیے تھے جو لوگوں کو خریدی ہوئی چیز پہلی جگہ سے منتقل کیے بغیر فروخت کرنے سے روکتے تھے۔ (2) اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز کے ڈھیر کی اندازاً بیع جائز ہے، خواہ اس کے درست وزن یا مقدار کا علم نہ بھی ہو، تاہم یہ ضروری ہے کہ اس میں نہ تو ملاوٹ ہو اور نہ کوئی اور خرابی ہی ہو۔ (3) یہ حدیث مبارکہ اس مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ فساد اور حرام بیوع کرنے والوں کی اصلاح اور اس ضمن میں ان کی تادیب ضروری ہے جیسا کہ حدیث: ۴۶۱۲ میں ہے کہ اس قسم کی خرید و فروخت کرنے والوں کی پٹائی کی جاتی تھی۔ اور یہ رسول اللہ ﷺ کے زریں دور کی بات ہے۔ (4) ”کسی اور جگہ منتقل کیا جائے۔“ تاکہ قبضہ محقق ہو جائے، نیز کچھ محنت بھی ہو جائے تاکہ منافع حاصل کرنے کا جواز بن سکے۔ (مزید دیکھیے حدیث: ۴۵۹۹۔ فائدہ۲)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اناج خریدتے تھے، پھر آپ ایک شخص کو ہمارے پاس بھیجتے جو ہمیں حکم دیتا کہ اسے اس جگہ سے کسی دوسری جگہ منتقل کر لے جہاں سے ہم نے خریدا ہے قبل اس کے کہ ہم اسے فروخت کریں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Abdullah bin 'Umar said: "During the time the Messenger of Allah (ﷺ) we used to buy food, and he sent someone to tell us to remove it from the place where we had bought it, to another place, before selling.