Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling What the Seller Does Not Have)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4611.
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا محترم (حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(ایک دوسرے سے مشروط) قرض اور بیع جائز نہیں۔ اور بیع میں دو شرطیں جائز نہیں اور جو چیز تیرے پاس نہیں، اس کی بیع بھی جائز نہیں۔“
تشریح:
(1) ایسی چیز جو فروخت کرنے والے کے پاس نہ ہو اس کا فروخت کرنا شرعاََ نا جائز اور حرام ہے۔ ہمارے ہاں اکثر دکاندار حضرات، اپنی ”گاہکی“ پکی کرنے کے لیے اس قسم کی قبیح حرکات کا ارتکاب عام طور پر کرتے رہتے ہیں، حالانکہ شریعتِ مطہرہ نے اس قسم کے ”تعاون“ کو ناجائز قرار دیا ہے۔ بعض دکاندار اس سے بھی ایک قدم آگے چلے جاتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ جو چیز ان کے پاس نہیں ہوتی آنے والے سے اس کی قیمت لے لیتے ہیں اور چند دن بعد چیز لا دینے کا وعدہ کر لیتے ہیں۔ یہ پہلی صورت سے بھی زیادہ خطرناک صورت ہے، اس لیے کہ یہ معلوم ہی نہیں کہ مطلوبہ چیز ملے گی یا نہیں؟ اگر ملے گی تو گاہک کو پسند آئے گی یا نہیں؟ یہ بھی معلوم نہیں۔ پسند آ جانے کی صورت میں قیمت کی کمی بیشی کا معاملہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ بنا بریں شریعت مطہرہ کی ہدایات کے مطابق ایسی ہر بیع سے بچنا چاہیے جو شر فساد کا ذریعہ بن سکتی ہو۔ (2) یہ حدیث مبارکہ ایسی بیع سے روکتی ہے جو قرض لینے یا دینے کی شرط پر کی جائے، نیز یہ حدیث مبارکہ ایسی بیع کو بھی حرام ٹھہراتی ہے جسے دو شرطوں کے ساتھ معلق کر دیا جائے۔ (3) ”قرض اور بیع“ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرض بیع کی شرط پر ہو۔ اور وہ اس طرح کہ ایک شخص دوسرے سے کہے میں تجھے تب قرض دوں گا کہ تو مجھ سے فلاں چیز اتنے کی خریدے۔ یا بیع قرض شرط پر ہو، اور وہ اس طرح کہ ایک شخص دوسرے سے کہے کہ میں تجھ سے فلاں چیز خریدتا ہوں اس شرط پر کہ تو مجھے قرض دے۔ ان صورتوں میں چونکہ قرض سے مفاد حاصل کیا جا رہا ہے اور یہ سود ہے، اس لیے ان صورتوں سے منع فرما دیا گیا۔ (4) ”بیع میں دو شرطیں“ اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے: میں تجھے فلاں چیز نقد دس روپے میں اور ادھار بارہ روپے میں دیتا ہوں اور معاملہ کسی ایک شرط پر طے نہ ہو تو یہ سود ہے، البتہ کسی ایک شرط پر معاملہ طے ہو جائے، مثلا: گاہک ادھار بارہ روپے میں لے جائے یا نقد دس روپے میں لے جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اب ایک شرط رہ گئی، دو نہ رہیں۔ نقد اور ادھار بھاؤ میں فرق فطری ہے جیسے تھوک اور پر چون بھاؤ میں فرق، لہٰذا اس میں کوئی حرج نہیں، نیز یکمشت ادائیگی اور قسطوں والی ادائیگی میں فرق بھی اسی طرح ہے۔ (5) ”جو چیز تیرے پاس نہیں“ مثلاََ: غلام بھاگ گیا ہے تو اس کو پکڑنے سے پہلے اسے بیچا نہیں جا سکتا۔ اسی طرح کسی کی چیز بھی نہیں بیچی جا سکتی۔ اسی طرح غلہ وغیرہ قبضے میں لینے سے پہلے بیچنا منع ہے، البتہ اگر کوئی چیز بذات خود معین نہ ہو بلکہ اس کی صفات معین کر لی جائیں تو چیز موجود نہ ہونے کے باوجود اس کی بیع ہو سکتی ہے، مثلاََ کسی سے کہا جائے کہ میں گندم کی کٹائی کے موقع پر تجھ سے فلاں قسم کی بیس من گندم اتنے بھاؤ سے لوں گا اور رقم بھی اسے ادا کر دے، خواہ اس کے پاس گندم یا گندم کا کھیت موجود نہ ہو بلکہ خواہ اس کے پاس سرے سے زمین ہی نہ ہو کیونکہ وہ بازار سے گندم خرید کر مہیا کر سکتا ہے، البتہ اگر کہا جائے کہ فلاں کھیت کی گندم خریدتا ہوں جبکہ اس کھیت میں گندم ابھی پکی نہ ہو یا اس کھیت میں گندم بیجی ہی نہ گئی ہو تو یہ بیع درست نہیں کیونکہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس کھیت سے گندم پیدا ہو گی۔ اگر پیدا ہو گی کیسی پیدا ہو گی؟ ابہام والی بیع درست نہیں، جیسے اڑتے معین پرندے کی بیع یا پانی میں تیرتی معین مچھلی کی بیع درست نہیں۔ ابہام کے علاوہ ان میں ”پاس نہ ہونے والی“ خرابی بھی ہے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4629
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4611
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4532
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4611
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4624
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4625
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4615
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا محترم (حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(ایک دوسرے سے مشروط) قرض اور بیع جائز نہیں۔ اور بیع میں دو شرطیں جائز نہیں اور جو چیز تیرے پاس نہیں، اس کی بیع بھی جائز نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ایسی چیز جو فروخت کرنے والے کے پاس نہ ہو اس کا فروخت کرنا شرعاََ نا جائز اور حرام ہے۔ ہمارے ہاں اکثر دکاندار حضرات، اپنی ”گاہکی“ پکی کرنے کے لیے اس قسم کی قبیح حرکات کا ارتکاب عام طور پر کرتے رہتے ہیں، حالانکہ شریعتِ مطہرہ نے اس قسم کے ”تعاون“ کو ناجائز قرار دیا ہے۔ بعض دکاندار اس سے بھی ایک قدم آگے چلے جاتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ جو چیز ان کے پاس نہیں ہوتی آنے والے سے اس کی قیمت لے لیتے ہیں اور چند دن بعد چیز لا دینے کا وعدہ کر لیتے ہیں۔ یہ پہلی صورت سے بھی زیادہ خطرناک صورت ہے، اس لیے کہ یہ معلوم ہی نہیں کہ مطلوبہ چیز ملے گی یا نہیں؟ اگر ملے گی تو گاہک کو پسند آئے گی یا نہیں؟ یہ بھی معلوم نہیں۔ پسند آ جانے کی صورت میں قیمت کی کمی بیشی کا معاملہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ بنا بریں شریعت مطہرہ کی ہدایات کے مطابق ایسی ہر بیع سے بچنا چاہیے جو شر فساد کا ذریعہ بن سکتی ہو۔ (2) یہ حدیث مبارکہ ایسی بیع سے روکتی ہے جو قرض لینے یا دینے کی شرط پر کی جائے، نیز یہ حدیث مبارکہ ایسی بیع کو بھی حرام ٹھہراتی ہے جسے دو شرطوں کے ساتھ معلق کر دیا جائے۔ (3) ”قرض اور بیع“ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرض بیع کی شرط پر ہو۔ اور وہ اس طرح کہ ایک شخص دوسرے سے کہے میں تجھے تب قرض دوں گا کہ تو مجھ سے فلاں چیز اتنے کی خریدے۔ یا بیع قرض شرط پر ہو، اور وہ اس طرح کہ ایک شخص دوسرے سے کہے کہ میں تجھ سے فلاں چیز خریدتا ہوں اس شرط پر کہ تو مجھے قرض دے۔ ان صورتوں میں چونکہ قرض سے مفاد حاصل کیا جا رہا ہے اور یہ سود ہے، اس لیے ان صورتوں سے منع فرما دیا گیا۔ (4) ”بیع میں دو شرطیں“ اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے: میں تجھے فلاں چیز نقد دس روپے میں اور ادھار بارہ روپے میں دیتا ہوں اور معاملہ کسی ایک شرط پر طے نہ ہو تو یہ سود ہے، البتہ کسی ایک شرط پر معاملہ طے ہو جائے، مثلا: گاہک ادھار بارہ روپے میں لے جائے یا نقد دس روپے میں لے جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اب ایک شرط رہ گئی، دو نہ رہیں۔ نقد اور ادھار بھاؤ میں فرق فطری ہے جیسے تھوک اور پر چون بھاؤ میں فرق، لہٰذا اس میں کوئی حرج نہیں، نیز یکمشت ادائیگی اور قسطوں والی ادائیگی میں فرق بھی اسی طرح ہے۔ (5) ”جو چیز تیرے پاس نہیں“ مثلاََ: غلام بھاگ گیا ہے تو اس کو پکڑنے سے پہلے اسے بیچا نہیں جا سکتا۔ اسی طرح کسی کی چیز بھی نہیں بیچی جا سکتی۔ اسی طرح غلہ وغیرہ قبضے میں لینے سے پہلے بیچنا منع ہے، البتہ اگر کوئی چیز بذات خود معین نہ ہو بلکہ اس کی صفات معین کر لی جائیں تو چیز موجود نہ ہونے کے باوجود اس کی بیع ہو سکتی ہے، مثلاََ کسی سے کہا جائے کہ میں گندم کی کٹائی کے موقع پر تجھ سے فلاں قسم کی بیس من گندم اتنے بھاؤ سے لوں گا اور رقم بھی اسے ادا کر دے، خواہ اس کے پاس گندم یا گندم کا کھیت موجود نہ ہو بلکہ خواہ اس کے پاس سرے سے زمین ہی نہ ہو کیونکہ وہ بازار سے گندم خرید کر مہیا کر سکتا ہے، البتہ اگر کہا جائے کہ فلاں کھیت کی گندم خریدتا ہوں جبکہ اس کھیت میں گندم ابھی پکی نہ ہو یا اس کھیت میں گندم بیجی ہی نہ گئی ہو تو یہ بیع درست نہیں کیونکہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس کھیت سے گندم پیدا ہو گی۔ اگر پیدا ہو گی کیسی پیدا ہو گی؟ ابہام والی بیع درست نہیں، جیسے اڑتے معین پرندے کی بیع یا پانی میں تیرتی معین مچھلی کی بیع درست نہیں۔ ابہام کے علاوہ ان میں ”پاس نہ ہونے والی“ خرابی بھی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ادھار اور بیع ایک ساتھ جائز نہیں۱؎، اور نہ ہی ایک بیع میں دو شرطیں درست ہیں۲؎، اور نہ اس چیز کی بیع درست ہے جو سرے سے تمہارے پاس ہو ہی نہ۔“ ۳؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس کی صورت یہ ہے کہ بیچنے والا خریدار کے ہاتھ آٹھ سو کا سامان ایک ہزار روپے کے بدلے اس شرط پر بیچے کہ بیچنے والا خریدار کو ایک ہزار روپے بطور قرض دے گا (دیکھئیے باب رقم ۷۰) گویا بیع کی اگر یہ شکل نہ ہوتی تو بیچنے والا خریدار کو قرض نہ دیتا اور اگر قرض کا وجود نہ ہوتا تو خریدار یہ سامان نہ خریدتا۔ ۲؎ : مثلاً کوئی کہے کہ یہ غلام میں نے تجھ سے ایک ہزار نقد اور دو ہزار ادھار میں بیچا (دیکھئیے باب رقم ۷۲) یہ ایسی بیع ہے جو دو شرطیں ہیں یا مثلاً کوئی یوں کہے کہ میں نے تم سے اپنا یہ کپڑا اتنے اتنے میں اس شرط پر بیچا کہ اس کا دھلوانا اور سلوانا میرے ذمہ ہے۔ ۳؎ : بیچنے والے کے پاس جو چیز موجود نہیں ہے اسے بیچنے سے اس لیے روک دیا گیا ہے کہ اس میں دھوکہ دھڑی کا خطرہ ہے جیسے کوئی شخص اپنے بھاگے ہوئے غلام یا اونٹ بیچے جب کہ ان دونوں کے واپسی کی ضمانت بیچنے والا نہیں دے سکتا البتہ ایسی چیز کی بیع جو اپنی صفت کے اعتبار سے خریدار کے لیے بالکل واضح ہو جائز ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع سلم کی اجازت دی ہے باوجود یہ کہ بیچی جانے والی چیز بیچنے والے کے پاس بروقت موجود نہیں ہوتی۔ (کیونکہ چیز کے سامنے آنے کے بعد اختلاف اور جھگڑا پیدا ہو سکتا ہے)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from'Amr bin Shu'aib, from his father that his grandfather, Said: that the Messenger of Allah (ﷺ) said: "It is not permissible to lend on the condition of a sale, or to have two conditions in one transaction, or to sell what you do not have." (Sahih)