تشریح:
(1) اکثر اہل علم کے نزدیک جانور اور حیوان بطور قرض لیا جا سکتا ہے۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ قرض کی ادائیگی کے وقت بہتر اور اعلیٰ چیز دینا افضل اور احسن عمل ہے بشرطیکہ قرض حاصل کرنے کے موقع پر اس قسم کو کوئی شرط نہ لگائی گئی ہو۔ اگر قرض دینے والا اس قسم کی کوئی شرط لگائے گا تو یہ بالا تفاق حرام ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی قول ہے۔
(3) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر بھی صریح دلالت کرتی ہے کہ جب قرض کی ادائیگی کا وقت آ جائے تو قرض خواہ واپسی کا مطالبہ کر سکتا ہے، نیز یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مقروض کو کسی قسم کے لیت و لعل اور ٹال مٹول سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ قرض کی بر وقت ادائیگی کو یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔
(4) رسول اللہ ﷺ عام طور پر ضرورت مند محتاجوں اور سائلوں کی خاطر قرض لیا کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیکی اور اطاعت کے امور میں تعاون کی خاطر قرض اٹھانا جائز ہے، نیز تمام مباح امور کے لیے قرض لینا دینا درست ہے۔
(5) یہ حدیث مبارکہ اس مسئلے کے اثبات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ امام وقت، یعنی مسلمانوں کا خلیفہ اور حکمران، محتاج رعایا اور ضرورت مند عوام کی خاطر قرض اٹھا سکتا ہے اور اس کی ادائیگی بیت المال میں جمع ہونے والی زکاۃ صدقات کی رقم سے ہوگی۔ اس سلسلے میں ضروری اور اہم بات یہ ہے کہ اس قسم کے قرض کی رقم صرف ضرورت مند لوگوں اور جائز امور پر خرچ ہونی چاہیے۔ ایسی رقم سے آج کے حکمران کو اللے تللے اور عیاشیاں کرتے ہیں یہ سراسر ناجائز اور حرام ہے۔ اس قسم کے قرض کی ادائیگی نہ تو بیت المال کے ذمے ہو گی اور نہ قومی خزانے کے ذمے، بلکہ عیاشی کرنے والے حکمرانوں ہی کی ذاتی رقم سے قرض ادا کرنا ضروری ہو گا۔
(6) قرض کی ادائیگی میں وکالت، یعنی کسی کو وکیل بنانا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو فرمایا تھا کہ تو جا کر اس کا قرض ادا کر دے۔
(7) جانور قرض پر لیا جا سکتا ہے۔ وقت مقررہ پر اس جیسا جانور واپس کر دیا جائے جیسے کسی سے رقم ادھار یا قرض لے کر مقررہ وقت پر واپس کر دی جاتی ہے۔ جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں مگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ جائز نہیں کیونکہ یہ قرض نہیں، بیع ہے۔ اور حیوان کی حیوان کے بدلے ادھار بیع درست نہیں جیسا کہ ایک صریح حدیث (۴۶۲۴) میں ہے۔ وہ اس حدیث کو منسوخ سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ ایک حدیث نہیں، اس قسم کی کئی احادیث ہیں جن میں جانور قرض لینے اور بعد میں ادا کرنے کا ذکر ہے۔ دراصل شریعت لوگوں کی مجبوریوں کا بھی لحاظ رکھتی ہے۔ اگر کوئی اصول لوگوں کے لیے مشکل کا باعث بنے تو وہ اصول قابل لحاظ نہیں رہتا۔ بلی کے جوٹھے کو احناف بھی پاک کہتے ہیں، حالانکہ وہ حرام جانور ہے۔ پلید چوہے کھاتی ہے۔ اسی طرح اگر ضرورت پڑجائے تو جانور قرض پر لیا جا سکتا ہے اور وقت مقررہ پر اس جیسا جانور واپس کر دیا جائے، نیز یہ نہی والی روایت کا مفہوم بھی قطعی نہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس حدیث کا مطلب یہ بتایا کہ حیوان کی حیوان کے بدلے بیع اس وقت منع ہے جب ادھار دونوں طرف سے ہو۔ اگر ادھار ایک طرف سے ہو تو کوئی حرج نہیں۔ مذکورہ بالا صورت میں بھی ادھار ایک طرف سے ہی ہے۔ واللہ أعلم۔