Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Borrowing Animals)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4617.
حضرت ابو رافع ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی سے ایک جوان اونٹ قرض لیا۔ وہ شخص آپ سے اپنے اونٹ کی واپسی کا مطالبہ کرنے آیا۔ آپ نے ایک آدمی سے کہا: ”جاؤ، اس کو ایک جوان اونٹ خرید دو۔“ وہ واپس آ کر کہنے لگا: مجھے تو رباعی اونٹ مل رہا ہے جو اس کے اونٹ سے بہت بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ”یہی دے دو۔ بہترین مسلمان وہ ہے جو (قرض وغیرہ کی) ادائیگی میں اچھا ہو۔“
تشریح:
(1) اکثر اہل علم کے نزدیک جانور اور حیوان بطور قرض لیا جا سکتا ہے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ قرض کی ادائیگی کے وقت بہتر اور اعلیٰ چیز دینا افضل اور احسن عمل ہے بشرطیکہ قرض حاصل کرنے کے موقع پر اس قسم کو کوئی شرط نہ لگائی گئی ہو۔ اگر قرض دینے والا اس قسم کی کوئی شرط لگائے گا تو یہ بالا تفاق حرام ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی قول ہے۔ (3) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر بھی صریح دلالت کرتی ہے کہ جب قرض کی ادائیگی کا وقت آ جائے تو قرض خواہ واپسی کا مطالبہ کر سکتا ہے، نیز یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مقروض کو کسی قسم کے لیت و لعل اور ٹال مٹول سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ قرض کی بر وقت ادائیگی کو یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ (4) رسول اللہ ﷺ عام طور پر ضرورت مند محتاجوں اور سائلوں کی خاطر قرض لیا کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیکی اور اطاعت کے امور میں تعاون کی خاطر قرض اٹھانا جائز ہے، نیز تمام مباح امور کے لیے قرض لینا دینا درست ہے۔ (5) یہ حدیث مبارکہ اس مسئلے کے اثبات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ امام وقت، یعنی مسلمانوں کا خلیفہ اور حکمران، محتاج رعایا اور ضرورت مند عوام کی خاطر قرض اٹھا سکتا ہے اور اس کی ادائیگی بیت المال میں جمع ہونے والی زکاۃ صدقات کی رقم سے ہوگی۔ اس سلسلے میں ضروری اور اہم بات یہ ہے کہ اس قسم کے قرض کی رقم صرف ضرورت مند لوگوں اور جائز امور پر خرچ ہونی چاہیے۔ ایسی رقم سے آج کے حکمران کو اللے تللے اور عیاشیاں کرتے ہیں یہ سراسر ناجائز اور حرام ہے۔ اس قسم کے قرض کی ادائیگی نہ تو بیت المال کے ذمے ہو گی اور نہ قومی خزانے کے ذمے، بلکہ عیاشی کرنے والے حکمرانوں ہی کی ذاتی رقم سے قرض ادا کرنا ضروری ہو گا۔ (6) قرض کی ادائیگی میں وکالت، یعنی کسی کو وکیل بنانا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو فرمایا تھا کہ تو جا کر اس کا قرض ادا کر دے۔ (7) جانور قرض پر لیا جا سکتا ہے۔ وقت مقررہ پر اس جیسا جانور واپس کر دیا جائے جیسے کسی سے رقم ادھار یا قرض لے کر مقررہ وقت پر واپس کر دی جاتی ہے۔ جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں مگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ جائز نہیں کیونکہ یہ قرض نہیں، بیع ہے۔ اور حیوان کی حیوان کے بدلے ادھار بیع درست نہیں جیسا کہ ایک صریح حدیث (۴۶۲۴) میں ہے۔ وہ اس حدیث کو منسوخ سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ ایک حدیث نہیں، اس قسم کی کئی احادیث ہیں جن میں جانور قرض لینے اور بعد میں ادا کرنے کا ذکر ہے۔ دراصل شریعت لوگوں کی مجبوریوں کا بھی لحاظ رکھتی ہے۔ اگر کوئی اصول لوگوں کے لیے مشکل کا باعث بنے تو وہ اصول قابل لحاظ نہیں رہتا۔ بلی کے جوٹھے کو احناف بھی پاک کہتے ہیں، حالانکہ وہ حرام جانور ہے۔ پلید چوہے کھاتی ہے۔ اسی طرح اگر ضرورت پڑجائے تو جانور قرض پر لیا جا سکتا ہے اور وقت مقررہ پر اس جیسا جانور واپس کر دیا جائے، نیز یہ نہی والی روایت کا مفہوم بھی قطعی نہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس حدیث کا مطلب یہ بتایا کہ حیوان کی حیوان کے بدلے بیع اس وقت منع ہے جب ادھار دونوں طرف سے ہو۔ اگر ادھار ایک طرف سے ہو تو کوئی حرج نہیں۔ مذکورہ بالا صورت میں بھی ادھار ایک طرف سے ہی ہے۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4635
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4617
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4538
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4617
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4630
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4631
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4621
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابو رافع ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی سے ایک جوان اونٹ قرض لیا۔ وہ شخص آپ سے اپنے اونٹ کی واپسی کا مطالبہ کرنے آیا۔ آپ نے ایک آدمی سے کہا: ”جاؤ، اس کو ایک جوان اونٹ خرید دو۔“ وہ واپس آ کر کہنے لگا: مجھے تو رباعی اونٹ مل رہا ہے جو اس کے اونٹ سے بہت بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ”یہی دے دو۔ بہترین مسلمان وہ ہے جو (قرض وغیرہ کی) ادائیگی میں اچھا ہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اکثر اہل علم کے نزدیک جانور اور حیوان بطور قرض لیا جا سکتا ہے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ قرض کی ادائیگی کے وقت بہتر اور اعلیٰ چیز دینا افضل اور احسن عمل ہے بشرطیکہ قرض حاصل کرنے کے موقع پر اس قسم کو کوئی شرط نہ لگائی گئی ہو۔ اگر قرض دینے والا اس قسم کی کوئی شرط لگائے گا تو یہ بالا تفاق حرام ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی قول ہے۔ (3) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر بھی صریح دلالت کرتی ہے کہ جب قرض کی ادائیگی کا وقت آ جائے تو قرض خواہ واپسی کا مطالبہ کر سکتا ہے، نیز یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مقروض کو کسی قسم کے لیت و لعل اور ٹال مٹول سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ قرض کی بر وقت ادائیگی کو یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ (4) رسول اللہ ﷺ عام طور پر ضرورت مند محتاجوں اور سائلوں کی خاطر قرض لیا کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیکی اور اطاعت کے امور میں تعاون کی خاطر قرض اٹھانا جائز ہے، نیز تمام مباح امور کے لیے قرض لینا دینا درست ہے۔ (5) یہ حدیث مبارکہ اس مسئلے کے اثبات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ امام وقت، یعنی مسلمانوں کا خلیفہ اور حکمران، محتاج رعایا اور ضرورت مند عوام کی خاطر قرض اٹھا سکتا ہے اور اس کی ادائیگی بیت المال میں جمع ہونے والی زکاۃ صدقات کی رقم سے ہوگی۔ اس سلسلے میں ضروری اور اہم بات یہ ہے کہ اس قسم کے قرض کی رقم صرف ضرورت مند لوگوں اور جائز امور پر خرچ ہونی چاہیے۔ ایسی رقم سے آج کے حکمران کو اللے تللے اور عیاشیاں کرتے ہیں یہ سراسر ناجائز اور حرام ہے۔ اس قسم کے قرض کی ادائیگی نہ تو بیت المال کے ذمے ہو گی اور نہ قومی خزانے کے ذمے، بلکہ عیاشی کرنے والے حکمرانوں ہی کی ذاتی رقم سے قرض ادا کرنا ضروری ہو گا۔ (6) قرض کی ادائیگی میں وکالت، یعنی کسی کو وکیل بنانا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو فرمایا تھا کہ تو جا کر اس کا قرض ادا کر دے۔ (7) جانور قرض پر لیا جا سکتا ہے۔ وقت مقررہ پر اس جیسا جانور واپس کر دیا جائے جیسے کسی سے رقم ادھار یا قرض لے کر مقررہ وقت پر واپس کر دی جاتی ہے۔ جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں مگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ جائز نہیں کیونکہ یہ قرض نہیں، بیع ہے۔ اور حیوان کی حیوان کے بدلے ادھار بیع درست نہیں جیسا کہ ایک صریح حدیث (۴۶۲۴) میں ہے۔ وہ اس حدیث کو منسوخ سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ ایک حدیث نہیں، اس قسم کی کئی احادیث ہیں جن میں جانور قرض لینے اور بعد میں ادا کرنے کا ذکر ہے۔ دراصل شریعت لوگوں کی مجبوریوں کا بھی لحاظ رکھتی ہے۔ اگر کوئی اصول لوگوں کے لیے مشکل کا باعث بنے تو وہ اصول قابل لحاظ نہیں رہتا۔ بلی کے جوٹھے کو احناف بھی پاک کہتے ہیں، حالانکہ وہ حرام جانور ہے۔ پلید چوہے کھاتی ہے۔ اسی طرح اگر ضرورت پڑجائے تو جانور قرض پر لیا جا سکتا ہے اور وقت مقررہ پر اس جیسا جانور واپس کر دیا جائے، نیز یہ نہی والی روایت کا مفہوم بھی قطعی نہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس حدیث کا مطلب یہ بتایا کہ حیوان کی حیوان کے بدلے بیع اس وقت منع ہے جب ادھار دونوں طرف سے ہو۔ اگر ادھار ایک طرف سے ہو تو کوئی حرج نہیں۔ مذکورہ بالا صورت میں بھی ادھار ایک طرف سے ہی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابورافع ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے اونٹ کے بچے میں بیع سلم کی، وہ شخص اپنے نوجوان اونٹ کا تقاضا کرتا ہوا آیا تو آپ نے ایک شخص سے کہا: ”جاؤ، اس کے لیے نوجوان اونٹ خرید دو“، اس نے آپ کے پاس آ کر کہا: مجھے تو سوائے بہترین، «رباعی» (جو ساتویں برس میں لگ چکا ہو) نوجوان اونٹ کے کوئی نہیں ملا، آپ نے فرمایا: ”اسے وہی دے دو، اس لیے کہ بہترین مسلمان وہ ہے جو قرض ادا کرنے میں بہتر ہو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Rafi that the Messenger of Allah (ﷺ) borrowed a young camel from a man, and then he came to get his camel back. He said to a man: "Go and buy a young camel for him." He came and said: "I could only get a Raba camel of good quality." He said: "Give it to him, for the best of the Muslims is the one who is best in repaying.