باب: حیوان کی حیوان کے بدلے ادھار بیع (نا جائز ہے)
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling Animals in Exchange for animals on Credit)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4620.
حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حیوان کے بدلے حیوان کی ادھار بیع سے منع فرمایا۔
تشریح:
پچھلے باب کی روایات حیوان قرض لینے کے بارے میں تھیں اور وہ جائز ہے۔ یہ باب اور یہ حدیث حیوان کی بیع کے بارے میں ہے۔ قرض تو ہوتا ہی ادھار ہے، البتہ بیع نقد بھی ہو سکتی ہے ادھار بھی۔ حیوان کی بیع حیوان کے ساتھ نقد تو درست ہے، خواہ کمی بیشی ہی ہو، مثلاََ: ایک طرف ایک جانور ہے اور دوسری طرف دو یا تین تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ آئندہ باب میں صراحت ہے لیکن حیوان کی بیع حیوان کے بدلے میں ہو تو ادھار درست نہیں۔ جن لوگوں نے پچھلے باب کی حدیثوں میں بیان کردہ قرض کی صورت کو بیع قرار دیا ہے انھیں اس روایت کی تاویل کرنا پڑے گی جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ حیوان کی بیع حیوان کے بدلے اس وقت منع ہے جب دونوں طرف ادھار ہو جیسا کہ بيع الكالِيبالكالِيمیں ہوتا ہے۔ اگر ادھار ایک طرف ہو تو بیع جائز ہے۔ اس تاویل سے پچھلے باب کی روایات اس حدیث کے خلاف نہیں رہیں گی لیکن صحیح یہ ہے کہ ادھار بیع تو ہر صورت میں منع ہے۔ ادھار ایک طرف ہو یا دونوں طرف، البتہ حیوان کا قرض جائز ہے۔ گویا بیع اور قرض کے حکم میں فرق ہے۔ اس طریقے سے نہ تو حدیث کی تاویل کرنی پڑے گی اور نہ سابقہ احادیث کا انکار۔ اور یہی طریقہ صحیح ہے۔ بیع اور قرض میں فرق صرف حیوان کے مسئلے ہی میں نہیں دیگر اشیاء میں بھی جاری و ساری ہے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4638
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4620
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4541
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4620
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4633
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4634
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4624
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حیوان کے بدلے حیوان کی ادھار بیع سے منع فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
پچھلے باب کی روایات حیوان قرض لینے کے بارے میں تھیں اور وہ جائز ہے۔ یہ باب اور یہ حدیث حیوان کی بیع کے بارے میں ہے۔ قرض تو ہوتا ہی ادھار ہے، البتہ بیع نقد بھی ہو سکتی ہے ادھار بھی۔ حیوان کی بیع حیوان کے ساتھ نقد تو درست ہے، خواہ کمی بیشی ہی ہو، مثلاََ: ایک طرف ایک جانور ہے اور دوسری طرف دو یا تین تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ آئندہ باب میں صراحت ہے لیکن حیوان کی بیع حیوان کے بدلے میں ہو تو ادھار درست نہیں۔ جن لوگوں نے پچھلے باب کی حدیثوں میں بیان کردہ قرض کی صورت کو بیع قرار دیا ہے انھیں اس روایت کی تاویل کرنا پڑے گی جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ حیوان کی بیع حیوان کے بدلے اس وقت منع ہے جب دونوں طرف ادھار ہو جیسا کہ بيع الكالِيبالكالِيمیں ہوتا ہے۔ اگر ادھار ایک طرف ہو تو بیع جائز ہے۔ اس تاویل سے پچھلے باب کی روایات اس حدیث کے خلاف نہیں رہیں گی لیکن صحیح یہ ہے کہ ادھار بیع تو ہر صورت میں منع ہے۔ ادھار ایک طرف ہو یا دونوں طرف، البتہ حیوان کا قرض جائز ہے۔ گویا بیع اور قرض کے حکم میں فرق ہے۔ اس طریقے سے نہ تو حدیث کی تاویل کرنی پڑے گی اور نہ سابقہ احادیث کا انکار۔ اور یہی طریقہ صحیح ہے۔ بیع اور قرض میں فرق صرف حیوان کے مسئلے ہی میں نہیں دیگر اشیاء میں بھی جاری و ساری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذی روح کے بدلے ذی روح کو ادھار بیچنے سے منع فرمایا۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب ادھار کی صورت طرفین سے ہو اور اگر کسی ایک جانب سے ہو تو بیع جائز ہے (دیکھئیے: صحیح بخاری کتاب البیوع باب ۱۰۸)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Sasmurah that: the Messenger of Allah (ﷺ) forbade selling animals in exchange for animal's ion credit.