Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling with Payment to be Made at a Certain Time)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4628.
حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک پر قطر بستی کی بنی ہوئی دو موٹی چادریں تھیں۔ جب آپ بیٹھتے تو ان میں پسینہ آ جاتا جس سے وہ بوجھل ہو جاتیں۔ فلاں یہودی کے ہاں شام سے کپڑے آئے تو میں نے کہا: اگر آپ اس کو پیغام بھیج کر دو کپڑے ادھار خرید لیں کہ جب سہولت ہوگی تو رقم دے دوں گا (تو اچھی بات ہے)۔ آپ نے اسے پیغام بھیجا تو وہ کہنے لگا: میں جانتا ہوں (حضرت) محمد(ﷺ) کا کیا ارادہ ہے؟ وہ میری رقم دبانا چاہتے ہیں یا یہ چادریں مفت میں لینا چاہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ جھوٹ بولتا ہے۔ اس کو دل میں یقین ہے کہ میں سب لوگوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور سب سے بڑھ کر امانت ادا کرنے والا ہوں۔“
تشریح:
(1) معلوم ہوا معین مدت تک ادھار سودا لینا جائز ہے۔ اگر ایسا کرنا، جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ ہرگز یہ کام نہ کرتے اور وہ بھی خبیث الفطرت یہودی سے۔ (2) یہ حدیث مبارکہ نبی اکرم ﷺ کی سادگی اور آپ کی کسمپرسانہ زندگی گزارنے پر بھی دلالت کرتی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ اختیار دیا تھا کہ آپ چاہیں تو آپ کو بادشاہ نبی بنا دیا جائے اور اگر چاہیں تو ”عبد“ بنایا جائے۔ اس پیش کش کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے عبد، یعنی اللہ کے درکا فقیر نبی بننے ہی کو ترجیح دی۔ یہ اس لیے کہ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں، آخرت میں جو کچھ ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ اسی باعث رسول اللہ ﷺ نے دنیوی مال و متاع اور بادشاہت کو ذرہ برابر حیثیت نہیں دی۔ (3) یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ تمام مخلوق کی نسبت اللہ سے زیادہ ڈرتے تھے، اس لیے آپ کے طریقے سے ہٹ کر خوف الہٰی کے خود ساختہ طریقے مردود ہیں اور ایسا دعوٰی کرنے والا انسان جھوٹا ہے، نیز آپ تمام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ باوفا اور ایفائے عہد کرنے والے اور سب سے بڑھ کر امانتیں ادا کرنے والے تھے۔ (4) آپ کا یہودیوں کے ساتھ معاملات اور لین دین کرنا، جبکہ وہ واضح طور پر رشوت اور حرام خور لوگ تھے، اس بات کی دلیل ہے کہ جس کے پاس حرام مال ہو اس کے ساتھ معاملہ کرنا درست ہے بشرطیکہ جس مال کا معاملہ ہو رہا ہے وہ حرام نہ ہو۔ واللہ أعلم۔ (5) ”جب سہولت ہو گی“ گویا آپ نے کوئی مدت مقرر نہ فرمائی تھی جبکہ باب میں معین مدت کا ذکر ہے، لہٰذا باب یوں ہونا چاہیے ”غیر معینہ مدت تک بیع“ اور سنن کبرٰی میں یہ باب اسی طرح ہے تاکہ حدیث باب کے مطابق بن سکے۔ (6) ”قطر بستی“ یہ بحرین کے علاقے کی ایک بستی تھی جہاں بہترین کپڑے تیار ہوتے تھے۔ (7) اگر باب کا عنوان یہی رہے جو ہے تو حدیث سے مناسبت اس طرح ہو گی کہ سہولت کا وقت ان کے ہاں متعین تھا، مثلاً: جب کٹائی کا وقت ہو اور کھجوریں گھروں میں آئیں وغیرہ۔ یہ بھی تعین ہی ہے۔ (8) ”میں جانتا ہوں“ یعنی اس نے صرف ادھار سے بچنے کے لیے یہ جھوٹ گھڑا ہے ورنہ اس کے دل میں بھی یہ بات نہیں تھی۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
4646
٢
ترقيم أبي غدّة (المكتبة الشاملة)
ترقیم ابو غدہ (مکتبہ شاملہ)
4628
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
4549
٤
ترقيم أبي غدّة (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ابو غدہ (کتب تسعہ پروگرام)
4628
٦
ترقيم شرکة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4641
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4642
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4632
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک پر قطر بستی کی بنی ہوئی دو موٹی چادریں تھیں۔ جب آپ بیٹھتے تو ان میں پسینہ آ جاتا جس سے وہ بوجھل ہو جاتیں۔ فلاں یہودی کے ہاں شام سے کپڑے آئے تو میں نے کہا: اگر آپ اس کو پیغام بھیج کر دو کپڑے ادھار خرید لیں کہ جب سہولت ہوگی تو رقم دے دوں گا (تو اچھی بات ہے)۔ آپ نے اسے پیغام بھیجا تو وہ کہنے لگا: میں جانتا ہوں (حضرت) محمد(ﷺ) کا کیا ارادہ ہے؟ وہ میری رقم دبانا چاہتے ہیں یا یہ چادریں مفت میں لینا چاہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ جھوٹ بولتا ہے۔ اس کو دل میں یقین ہے کہ میں سب لوگوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور سب سے بڑھ کر امانت ادا کرنے والا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) معلوم ہوا معین مدت تک ادھار سودا لینا جائز ہے۔ اگر ایسا کرنا، جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ ہرگز یہ کام نہ کرتے اور وہ بھی خبیث الفطرت یہودی سے۔ (2) یہ حدیث مبارکہ نبی اکرم ﷺ کی سادگی اور آپ کی کسمپرسانہ زندگی گزارنے پر بھی دلالت کرتی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ اختیار دیا تھا کہ آپ چاہیں تو آپ کو بادشاہ نبی بنا دیا جائے اور اگر چاہیں تو ”عبد“ بنایا جائے۔ اس پیش کش کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے عبد، یعنی اللہ کے درکا فقیر نبی بننے ہی کو ترجیح دی۔ یہ اس لیے کہ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں، آخرت میں جو کچھ ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ اسی باعث رسول اللہ ﷺ نے دنیوی مال و متاع اور بادشاہت کو ذرہ برابر حیثیت نہیں دی۔ (3) یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ تمام مخلوق کی نسبت اللہ سے زیادہ ڈرتے تھے، اس لیے آپ کے طریقے سے ہٹ کر خوف الہٰی کے خود ساختہ طریقے مردود ہیں اور ایسا دعوٰی کرنے والا انسان جھوٹا ہے، نیز آپ تمام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ باوفا اور ایفائے عہد کرنے والے اور سب سے بڑھ کر امانتیں ادا کرنے والے تھے۔ (4) آپ کا یہودیوں کے ساتھ معاملات اور لین دین کرنا، جبکہ وہ واضح طور پر رشوت اور حرام خور لوگ تھے، اس بات کی دلیل ہے کہ جس کے پاس حرام مال ہو اس کے ساتھ معاملہ کرنا درست ہے بشرطیکہ جس مال کا معاملہ ہو رہا ہے وہ حرام نہ ہو۔ واللہ أعلم۔ (5) ”جب سہولت ہو گی“ گویا آپ نے کوئی مدت مقرر نہ فرمائی تھی جبکہ باب میں معین مدت کا ذکر ہے، لہٰذا باب یوں ہونا چاہیے ”غیر معینہ مدت تک بیع“ اور سنن کبرٰی میں یہ باب اسی طرح ہے تاکہ حدیث باب کے مطابق بن سکے۔ (6) ”قطر بستی“ یہ بحرین کے علاقے کی ایک بستی تھی جہاں بہترین کپڑے تیار ہوتے تھے۔ (7) اگر باب کا عنوان یہی رہے جو ہے تو حدیث سے مناسبت اس طرح ہو گی کہ سہولت کا وقت ان کے ہاں متعین تھا، مثلاً: جب کٹائی کا وقت ہو اور کھجوریں گھروں میں آئیں وغیرہ۔ یہ بھی تعین ہی ہے۔ (8) ”میں جانتا ہوں“ یعنی اس نے صرف ادھار سے بچنے کے لیے یہ جھوٹ گھڑا ہے ورنہ اس کے دل میں بھی یہ بات نہیں تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دو قطری چادریں تھیں، جب آپ بیٹھتے اور ان میں پسینہ آتا تو وہ بھاری ہو جاتیں، ایک یہودی کا شام سے کپڑا آیا تو میں نے عرض کیا: اگر آپ اس کے پاس کسی کو بھیج کر تاوقت سہولت (قیمت ادا کرنے کے وعدہ پر) دو کپڑے خرید لیتے تو بہتر ہوتا، چنانچہ آپ نے اس کے پاس ایک شخص کو بھیجا، اس (یہودی) نے کہا: مجھے معلوم ہے محمد کیا چاہتے ہیں، وہ تو میرا مال ہضم کرنا چاہتے ہیں، یا یہ دونوں چادروں کو ہضم کرنا چاہتے ہیں، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس نے جھوٹ کہا، اسے معلوم ہے کہ میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور سب سے زیادہ امانت کا ادا کرنے والا ہوں۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی بیع پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ اس یہودی کے پاس اس کے لیے آدمی بھیجا، اسی سے باب پر استدلال ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah (RA) said: "The Messenger of Allah (ﷺ) was wearing two Qitri garments which, if he sat and sweated, would become heavy (and uncomfortable). A Jewish man got some fabric from Ash-sham so I said: 'Why don't you send word to him to buy two garments from him, and pay him when things get easier?' So he sent word to him, but he said: 'I know what Muhammad wants; he wants to go away with my money and take them (the two garments).' The Messenger of Allah (ﷺ) said; 'He is lying; he knows that I am one of the ones who fear Allah the most, and are most honest in fulfilling trusts.