رکھجور کے درخت بیچے جائیں اور خریدنے والا ان کا پھل مستثنیٰ کرے تو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Selling A Tree But Not Its Produce)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4635.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص کھجور کے درختوں کو پیوند لگائے، پھروہ درخت بیچ دے تو ان کا پھل پیوند لگانے والے کو ملے گا، الا یہ کہ خریدنے والا شرط لگائے۔“
تشریح:
(1) مقصد یہ ہے کہ اگر کھجوروں کے درخت ایسی حالت میں بیچے جائیں کہ ان پر پھل لگ چکا ہو اور موجود بھی ہو تو وہ پھل بائع کا ہوگا، تا ہم اگر خریدار یہ شرط کر لے کہ درختوں پر لگا ہوا پھل بھی میرا ہو گا اور بیچنے والا یہ شرط مان لے تو اس صورت میں پھل مشترَی کا ہوگا۔ اور یہ بیع بالکل درست ہو گی۔ اگر خریدار پھلوں کی شرط نہیں لگائے گا تو وہ پھل بیچنے والے کے ہوں گے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کھجوروں اور درختوں کی پیوند کاری کی جا سکتی ہے۔ یہ درست عمل ہے۔ شرعاً اس میں کوئی قباحت اور خرابی نہیں ہے۔ (3) ایسی شرط جو معاہدے کے منافی نہ ہو، اس کے متعین کر لینے سے بیع فاسد نہیں ہو گی اور نہ یہ چیز اس حدیث مبارکہ کے حکم میں داخل ہوگی جس میں بیع اور شرط سے منع کیا گیا ہے، معلوم ہوا کہ درختوں کی بیع پھل کے بغیر بھی ہو سکتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4648
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4649
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4639
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص کھجور کے درختوں کو پیوند لگائے، پھروہ درخت بیچ دے تو ان کا پھل پیوند لگانے والے کو ملے گا، الا یہ کہ خریدنے والا شرط لگائے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مقصد یہ ہے کہ اگر کھجوروں کے درخت ایسی حالت میں بیچے جائیں کہ ان پر پھل لگ چکا ہو اور موجود بھی ہو تو وہ پھل بائع کا ہوگا، تا ہم اگر خریدار یہ شرط کر لے کہ درختوں پر لگا ہوا پھل بھی میرا ہو گا اور بیچنے والا یہ شرط مان لے تو اس صورت میں پھل مشترَی کا ہوگا۔ اور یہ بیع بالکل درست ہو گی۔ اگر خریدار پھلوں کی شرط نہیں لگائے گا تو وہ پھل بیچنے والے کے ہوں گے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کھجوروں اور درختوں کی پیوند کاری کی جا سکتی ہے۔ یہ درست عمل ہے۔ شرعاً اس میں کوئی قباحت اور خرابی نہیں ہے۔ (3) ایسی شرط جو معاہدے کے منافی نہ ہو، اس کے متعین کر لینے سے بیع فاسد نہیں ہو گی اور نہ یہ چیز اس حدیث مبارکہ کے حکم میں داخل ہوگی جس میں بیع اور شرط سے منع کیا گیا ہے، معلوم ہوا کہ درختوں کی بیع پھل کے بغیر بھی ہو سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جو بھی کوئی کھجور کے درخت کی پیوند کاری کرے پھر اس درخت کو بیچے تو درخت کا پھل پیوند کاری کرنے والے کا ہو گا، سوائے اس کے کہ خریدنے والا پھل کی شرط لگا لے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ معاملہ ہر قسم کی کھیتی کے بیچنے میں ہو گا، کیونکہ کھیتی میں بیچنے والا خرچ کیا ہوتا ہے، کھجور میں تو تابیر (پیوند کاری) سے پہلے بیچنے والے کا کچھ خرچ نہیں ہوتا ہے اس لیے تابیر (پیوند کاری) کی شرط لگائی گئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Umar that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "Any man who pollinates a date-palm tree then sells it, the fruits of the tree are for the one who pollinated it, unless the purchaser stipulated otherwise.