Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Leniency Concerning That)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4687.
حضرت عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ حضرت میمونہ ؓ نبی اکرمﷺ کی زوجہ محترمہ نے ایک دفعہ قرض لیا۔ ان سے کہا گیا اے ام المومنین! آپ قرض لیتی ہیں جبکہ آپ کے واپسی کے لیے کچھ بھی نہیں؟ وہ فرمانے لگیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”جو شخص قرض لے جبکہ وہ ادائیگی کا ارادہ رکھتا ہو، اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے۔“
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 3 / 26 :
أخرجه النسائي ( 2 / 233 ) : حدثنا محمد بن المثنى : قال : حدثنا وهب بن جرير
قال : حدثنا أبي عن الأعمش عن حصين بن عبد الرحمن عن عبيد الله بن عبد الله بن
عتبة أن ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم استدانت ، فقيل لها : يا أم
المؤمنين ! تستدينين و ليس عندك وفاء ؟ قالت : إني سمعت رسول الله صلى الله
عليه وسلم يقول . فذكره . و أخرجه أبو نعيم في " أخبار أصبهان " ( 2 / 238 ) من
طريق عبد الله بن أبي بكر العتلي حدثنا جرير بن حازم به . ( انظر الاستدراك رقم
26 / 18 و 26 / 21 ) . و هو إسناد صحيح على شرط الشيخين إذا كان عبيد الله بن
عبد الله سمعه من ميمونة ، فإن المعروف أنه يروي عنهما بواسطة عبد الله بن عباس
. و له عند ابن ماجة و ابن حبان ( 1157 ) و أبي نعيم أيضا طريق آخر عنها و فيه
عمران بن حذيفة و هو مجهول . انظر ما علقناه على الترغيب ( 2 / 33 ) . و طريق
ثالث في المسند ( 6 / 332 ) . و رجاله ثقات إلا أن فيه انقطاعا بين سالم - و هو
ابن أبي الجعد - و ميمونة . و بالجملة فالحديث صحيح بمجموع الطرق .
صحيح الجامع ( 5981 ) //
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4700
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4701
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4691
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ حضرت میمونہ ؓ نبی اکرمﷺ کی زوجہ محترمہ نے ایک دفعہ قرض لیا۔ ان سے کہا گیا اے ام المومنین! آپ قرض لیتی ہیں جبکہ آپ کے واپسی کے لیے کچھ بھی نہیں؟ وہ فرمانے لگیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”جو شخص قرض لے جبکہ وہ ادائیگی کا ارادہ رکھتا ہو، اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین میمونہ ؓ نے قرض لیا، ان سے کہا گیا: ام المؤمنین! آپ قرض لے رہی ہیں حالانکہ آپ کے پاس ادا کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے؟، عرض کیا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جس نے کوئی قرض لیا اور وہ اسے ادا کرنے کی فکر میں ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Imran bin Hudaifah said: "Maimunah used to take out loans frequently, and some of her family criticized her and denounced her for that. She said: 'I will not stop taking loans, for I heard my close friend and my beloved say: "There is no one who takes out a loans, and Allah knows that he intends to pay it back, but Allah will pay it back for him in this world.