Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: When A Rich Man Takes A Long Time To Repay A Debt)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4688.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی (قرض خواہ) کو کسی مال دار شخص کے پیچھے لگایا جائے تو اسے پیچھے لگ جانا چاہیے۔ (اگر اسے کسی مال دار شخص سے اپنا قرض وصول کرنے کی پیش کش کی جائے تو وہ یہ پیش کش قبول کر لے)۔ ظلم یہ ہے کہ مالدار شخص ٹال مٹول (ادائیگی میں تاخیر) کرے۔“
تشریح:
(1) مقصد یہ ہے کہ اگر مال دار شخص ادائیگی قرض میں تاخیر کرے تو یہ ناجائز اور حرام ہے۔ اگر مقروض شخص، مال دار نہیں تو اس کا قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرنا ظلم نہیں ہوگا، لہٰذا ایسے مقروض کو بے عزت کرنا یا اسے سزا دینا درست نہیں ہوگا بلکہ اس کے ساتھ نرمی اور مہلت دینے والا سلوک کرنا مطلوب ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اگر مقروض شخص ہے تو مال دار لیکن اس کا مال اس کی دسترس میں نہیں تو اس صورت میں اس کا لیت ولعل ظلم نہیں سمجھا جائے گا اور نہ اس کے ساتھ مال دار مقروض والا معاملہ ہی کیا جائے گا۔ (2) کبھی مقروض اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ خود ادائیگی کرے، لہٰذا اگر وہ قرض خواہ سے گزارش کرے کہ آپ اپنا قرض فلاں شخص سے وصول کرلیں۔ وہ میری طرف سے ادائیگی کرے گا۔ اور وہ شخص بھی اقرار کرے کہ میں ادائیگی کر دوں گا تو اخلاق کریمانہ کا تقاضا ہے کہ اس غریب آدمی کی جان چھوڑ دی جائے۔ اور دوسرے شخص سے، جو مالدار بھی ہے اور ادائیگی کا اقرار بھی کرتا ہے، قرض وصول کرلیا جائے۔ اس عمل کو عربی زبان میں حوالہ کہتے ہے، جمہور اہل علم کی رائے یہی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۳۵/ ۳۰۰، ۳۰۱) (3) ”ظلم یہ ہے“ یعنی غریب آدمی میں ادائیگی کی طاقت نہ ہو اور وہ ٹال مٹول کرے تو یہ ممکن ہے مگر ایک مالدار شخص قرض کی واپسی میں بلا وجہ تاخیر کرے اور آج کل کرتا رہے تو یہ ظلم ہے جس کی سزا اسے دی جا سکتی ہے، تاہم استطاعت نہ رکھنے والا شخص تاخیر کرے یا منت سماجت کرے تو اس پر زیادتی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ مجبور ہے اور شریعت ہر معقول عذر اور حقیقی مجبوری کا لحاظ کرتی ہے اور بہرحال مجبور شخص کے ساتھ تعاون اور اس کی حمایت کرتی ہے۔
الحکم التفصیلی:
الارواہ:1307
قلت : لكنه منقطع فقد قال البوصيري في " الزوائد " ( ق 148 / 1 ) : " هذا الإسناد رجاله ثقات غير أنه منقطع وقال أحمد بن حنبل لم يسمع يونس بن عبيد عن نافع شيئا إنما سمع من ابن نافع عن أبيه وقال ابن معين
وأبو حاتم : لم يسمع من نافع شيئا " . قلت : نافع أولاده ثلاثة : عمر وعبد الله وأبو عمر كما في " التهذيب " وعمر ثقة من رجال الشيخين والثاني ضعيف والثالث لم أعرفه . فإن كان الذي روى عنه الأول فالسند صحيح وإلا فلا . ونقل أبو الحسن السندي في حاشيته على ابن ماجه عن صاحب " الزوائد " أنه قال عقب كلامه الذي نقلته عنه - آنفا : " قلت : وهشيم بن بشر مدلس وقد عنعنه " . قلت : وهذه الزيادة ليست في نسختنا من " الزوائد " . والإعلال المذكور سليم بالنظر إلى سند ابن ماجه ولكن الترمذي وأحمد وغيرهما قد صرحا بتحديث هشيم عن يونس . وأما حديث عبد الله بن عمرو فهو من رواية عمرو بن شعيب عن أبيه من جده مرفوعا كما تقدم بيانه قبل هذا بحديث بلفظ حديث أبي هريرة الأول . أخرجه ابن خزيمة والبيهقي وأحمد في أثناء الحديث المتقدم . ورواه غيرهم بلفظ : " ولا شرطان في بيع " . ويظهر أن اللفظين بمعنى واحد رواه بعض الرواة عن عمرو بن شعيب بهذا وبعضهم بهذا ويؤيده قول ابن قتيبة في " غريب الحديث " ( 1 / 18 ) : " ومن البيوع المنهي عنها . . . شرطان في بيع وهوأن يشتري الرجل السلعة إلى شهرين بدينارين والى ثلاثة أشهر بثلاثة دنانير وهو بمعنى ( بيعتين في بيعة ) " . وقد مضى قريبا تفسيره بما ذكر عن سماك . وكذلك فسره عبد الوهاب بن عطاء فقال : " يعني يقول . هو لك بنقد بعشرة وبنسيئة بعشرين "
رواه البيهقي . ( فائدة ) أخرج ابن أبي شيبة في الباب عن أشعث عن عكرمة عن ابن عباس قال : " لا بأس أن يقول للسلعة هي بنقد بكذا وبنسيئة بكذا ولكن لا يفترقا إلا عن رضى " . قلت : وهذا إسناد ضعيف من أجل أشعث هذا وهو ابن سوار الكندي وهو ضعيف كما في " التقريب " وإنما أخرج له مسلم متابعة
ابن ماجة ( 2403 ) // ، الإرواء ( 1418 ) //
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4701
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4702
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4692
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی (قرض خواہ) کو کسی مال دار شخص کے پیچھے لگایا جائے تو اسے پیچھے لگ جانا چاہیے۔ (اگر اسے کسی مال دار شخص سے اپنا قرض وصول کرنے کی پیش کش کی جائے تو وہ یہ پیش کش قبول کر لے)۔ ظلم یہ ہے کہ مالدار شخص ٹال مٹول (ادائیگی میں تاخیر) کرے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مقصد یہ ہے کہ اگر مال دار شخص ادائیگی قرض میں تاخیر کرے تو یہ ناجائز اور حرام ہے۔ اگر مقروض شخص، مال دار نہیں تو اس کا قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرنا ظلم نہیں ہوگا، لہٰذا ایسے مقروض کو بے عزت کرنا یا اسے سزا دینا درست نہیں ہوگا بلکہ اس کے ساتھ نرمی اور مہلت دینے والا سلوک کرنا مطلوب ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اگر مقروض شخص ہے تو مال دار لیکن اس کا مال اس کی دسترس میں نہیں تو اس صورت میں اس کا لیت ولعل ظلم نہیں سمجھا جائے گا اور نہ اس کے ساتھ مال دار مقروض والا معاملہ ہی کیا جائے گا۔ (2) کبھی مقروض اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ خود ادائیگی کرے، لہٰذا اگر وہ قرض خواہ سے گزارش کرے کہ آپ اپنا قرض فلاں شخص سے وصول کرلیں۔ وہ میری طرف سے ادائیگی کرے گا۔ اور وہ شخص بھی اقرار کرے کہ میں ادائیگی کر دوں گا تو اخلاق کریمانہ کا تقاضا ہے کہ اس غریب آدمی کی جان چھوڑ دی جائے۔ اور دوسرے شخص سے، جو مالدار بھی ہے اور ادائیگی کا اقرار بھی کرتا ہے، قرض وصول کرلیا جائے۔ اس عمل کو عربی زبان میں حوالہ کہتے ہے، جمہور اہل علم کی رائے یہی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۳۵/ ۳۰۰، ۳۰۱) (3) ”ظلم یہ ہے“ یعنی غریب آدمی میں ادائیگی کی طاقت نہ ہو اور وہ ٹال مٹول کرے تو یہ ممکن ہے مگر ایک مالدار شخص قرض کی واپسی میں بلا وجہ تاخیر کرے اور آج کل کرتا رہے تو یہ ظلم ہے جس کی سزا اسے دی جا سکتی ہے، تاہم استطاعت نہ رکھنے والا شخص تاخیر کرے یا منت سماجت کرے تو اس پر زیادتی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ مجبور ہے اور شریعت ہر معقول عذر اور حقیقی مجبوری کا لحاظ کرتی ہے اور بہرحال مجبور شخص کے ساتھ تعاون اور اس کی حمایت کرتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم میں سے کوئی شخص مالدار کی حوالگی میں دیا جائے تو چاہیئے کہ اس کی حوالگی قبول کرے ۱؎، اور مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اپنے ذمہ کا قرض دوسرے کے ذمہ کر دینا یہی حوالہ ہے، مثلاً زید عمرو کا مقروض ہے پھر زید عمرو کا سامنا بکر سے یہ کہہ کر کرا دے کہ اب میرے ذمہ کے قرض کی ادائیگی بکر کے سر ہے اور بکر اسے تسلیم بھی کر لے تو عمرو کو یہ حوالگی قبول کر لینی چاہیئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Ubaidullah bin 'Abdullah bin 'Utbah that Maimunah, the wife of the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم), took a loan, and it was said to her: "O Mother of the Believers, why have you taken a loan when you do not have the means to pay if off?" She said: "I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: 'Whoever takes a loan intending to pay it back, Allah, the Mighty and Sublime, will help him.