باب: حوالہ (مقروض کا قرض خواہ کوکسی مالدار شخص کے حوالے کرنا جائز ہے)
)
Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Traansferring Debts)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4691.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”صاحب استطاعت شخص کا ادائیگی سے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور جب کسی (قرض خواہ) کو کسی مالدار شخص کے سپرد کیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ ادائیگی کے لیے اس سے رجوع کرے۔“
تشریح:
حوالہ کی تفصیل حدیث نمبر ۴۶۹۲ میں بیان ہو چکی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ قرض ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف منتقل ہو سکتا ہے۔ اسی لیے جمہور اہل علم محدثین کرام وفقہائے عظام اصل مقروض کو حوالہ کے بعد بری الذمہ سمجھتے ہیں، خواہ دوسرا شخص بھی ادائیگی نہ کر سکے کیونکہ قرض دوسرے کی طرف منتقل ہوگیا، دلائل کے اعتبار سے یہی بات راجح ہے۔
الحکم التفصیلی:
. الارواہ:1306۔1307
قلت : لكنه منقطع فقد قال البوصيري في " الزوائد " ( ق 148 / 1 ) : " هذا الإسناد رجاله ثقات غير أنه منقطع وقال أحمد بن حنبل لم يسمع يونس بن عبيد عن نافع شيئا إنما سمع من ابن نافع عن أبيه وقال ابن معين
وأبو حاتم : لم يسمع من نافع شيئا " . قلت : نافع أولاده ثلاثة : عمر وعبد الله وأبو عمر كما في " التهذيب " وعمر ثقة من رجال الشيخين والثاني ضعيف والثالث لم أعرفه . فإن كان الذي روى عنه الأول فالسند صحيح وإلا فلا . ونقل أبو الحسن السندي في حاشيته على ابن ماجه عن صاحب " الزوائد " أنه قال عقب كلامه الذي نقلته عنه - آنفا : " قلت : وهشيم بن بشر مدلس وقد عنعنه " . قلت : وهذه الزيادة ليست في نسختنا من " الزوائد " . والإعلال المذكور سليم بالنظر إلى سند ابن ماجه ولكن الترمذي وأحمد وغيرهما قد صرحا بتحديث هشيم عن يونس . وأما حديث عبد الله بن عمرو فهو من رواية عمرو بن شعيب عن أبيه من جده مرفوعا كما تقدم بيانه قبل هذا بحديث بلفظ حديث أبي هريرة الأول . أخرجه ابن خزيمة والبيهقي وأحمد في أثناء الحديث المتقدم . ورواه غيرهم بلفظ : " ولا شرطان في بيع " . ويظهر أن اللفظين بمعنى واحد رواه بعض الرواة عن عمرو بن شعيب بهذا وبعضهم بهذا ويؤيده قول ابن قتيبة في " غريب الحديث " ( 1 / 18 ) : " ومن البيوع المنهي عنها . . . شرطان في بيع وهوأن يشتري الرجل السلعة إلى شهرين بدينارين والى ثلاثة أشهر بثلاثة دنانير وهو بمعنى ( بيعتين في بيعة ) " . وقد مضى قريبا تفسيره بما ذكر عن سماك . وكذلك فسره عبد الوهاب بن عطاء فقال : " يعني يقول . هو لك بنقد بعشرة وبنسيئة بعشرين "
رواه البيهقي . ( فائدة ) أخرج ابن أبي شيبة في الباب عن أشعث عن عكرمة عن ابن عباس قال : " لا بأس أن يقول للسلعة هي بنقد بكذا وبنسيئة بكذا ولكن لا يفترقا إلا عن رضى " . قلت : وهذا إسناد ضعيف من أجل أشعث هذا وهو ابن سوار الكندي وهو ضعيف كما في " التقريب " وإنما أخرج له مسلم متابعة .
مختصر مسلم ( 962 ) ، الإرواء ( 1418 ) ، صحيح الجامع ( 5875 ) //
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4704
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4705
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4695
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”صاحب استطاعت شخص کا ادائیگی سے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور جب کسی (قرض خواہ) کو کسی مالدار شخص کے سپرد کیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ ادائیگی کے لیے اس سے رجوع کرے۔“
حدیث حاشیہ:
حوالہ کی تفصیل حدیث نمبر ۴۶۹۲ میں بیان ہو چکی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ قرض ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف منتقل ہو سکتا ہے۔ اسی لیے جمہور اہل علم محدثین کرام وفقہائے عظام اصل مقروض کو حوالہ کے بعد بری الذمہ سمجھتے ہیں، خواہ دوسرا شخص بھی ادائیگی نہ کر سکے کیونکہ قرض دوسرے کی طرف منتقل ہوگیا، دلائل کے اعتبار سے یہی بات راجح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے، اگر تم میں سے کوئی مالدار آدمی کی حوالگی میں دیا جائے تو چاہیئے کہ اس کی حوالگی قبول کر لے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Amr bin Ash-Shrid, from his father that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "If one who can afford it delays repayment, his honor and punishment become permissible.