Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Shared Ownership Of Houses)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4701.
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر مشترک چیز میں حق شفعہ قرار دیا ہے بشرطیکہ وہ تقسیم نہ ہوئی ہو۔ گھر ہو یا کھیت ہو یا باغ۔ کسی ایک شریک کو اپنا حصہ بیچنے کی اجازت نہیں حتیٰ کہ اپنے شریک کو مطلع کرے۔ چاہے وہ لے لے، چاہے نہ لے۔ لیکن اگر اسے اطلاع کیے بغیر بیچ ڈالا تو شریک اس کا زیادہ حق دار ہوگا۔“
تشریح:
تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: ۴۶۵۰ کے فوائد ومسائل۔
الحکم التفصیلی:
قلت : و إسناده صحيح رجاله ثقات رجال مسلم غير اليشكرى و هو سليمان بن
قيس و هو ثقة , و ادعى الترمذى أنه غير متصل يعنى أنه لم يسمعه قتادة من سليمان
الطريق الرابعة : عن عطاء عنه به نحوه و يأتى لفظه و تخريجه بعد سبعة أحاديث .
حديث أنس أن النبى صلى الله عليه وسلم قال : " لا شفعة لنصرانى " .
رواه الدراقطنى فى كتاب العلل .
5/374 :
* منكر .
أخرجه البيهقى ( 6/108 و 109 ) و الخطيب فى " تاريخ بغداد " ( 13/465 ) من طريق
نائل بن نجيح عن سفيان عن حميد عن أنس : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال :
فذكره و لفظ الخطيب : " مرة رفعه , و مرة لم يرفعه " .
و هو رواية للبيهقى أورده فى " باب رواية ألفاظ منكرة يذكرها بعض الفقهاء فى
مسائل الشفعة " . و قال عقب الحديث :
" قال ابن عدى : أحاديث نائل مظلمة جدا , و خاصة إذا روى عن الثورى "
ثم رواه من طريق أخرى عن سفيان عن حميد الطويل عن الحسن البصرى قوله موقوفا
عليه . قال البيهقى : " و هو الصواب " .
و كذلك قال الدارقطنى فيما رواه الخطيب عنه , و قال : " و هو الصحيح " .
حديث جابر : " هو أحق به بالثمن " رواه الجوزجانى .
5/374 :
* ضعيف بهذا اللفظ .
أخرجه أحمد ( 3/310 و 382 ) من طريق الحجاج بن أرطاة عن أبى الزبير عن جابر بن
عبد الله رضى الله عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
" أيما قوم كانت بينهم رباعة أو دار , فأراد أحدهم أن يبيع نصيبه فليعرضه على
شركائه , فإن أخذوه , فهم أحق به بالثمن " .
و هذا سند ضعيف لأن الحجاج و أبا الزبير كلاهما مدلس , إلا أن الثانى منهم , قد
صرح بالتحديث فى رواية لمسلم بلفظ آخر تقدم ذكره قبل حديث ( 1532 ) .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4714
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4715
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4705
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر مشترک چیز میں حق شفعہ قرار دیا ہے بشرطیکہ وہ تقسیم نہ ہوئی ہو۔ گھر ہو یا کھیت ہو یا باغ۔ کسی ایک شریک کو اپنا حصہ بیچنے کی اجازت نہیں حتیٰ کہ اپنے شریک کو مطلع کرے۔ چاہے وہ لے لے، چاہے نہ لے۔ لیکن اگر اسے اطلاع کیے بغیر بیچ ڈالا تو شریک اس کا زیادہ حق دار ہوگا۔“
حدیث حاشیہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: ۴۶۵۰ کے فوائد ومسائل۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر مشترک مال جو تقسیم نہ ہوا ہو جیسے زمین یا باغ، میں شفعہ کا حکم دیا، اس کے لیے صحیح نہیں کہ وہ اسے بیچے جب تک کہ حصہ دار سے اجازت نہ لے لے، اگر وہ (شریک) چاہے تو اسے لے لے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے، اور اگر اس (شریک) سے اس کی اجازت لیے بغیر بیچ دیا تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Jabir that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "Any one of you who has land, or date palm trees, he should not sell them until he offers them to his partner first.