Sunan-nasai:
The Book of Financial Transactions
(Chapter: Pre-Emption And Its Rulings)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4702.
حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پڑوسی اپنے قرب کی وجہ سے زیادہ حق رکھتا ہے۔“
تشریح:
سنن اور مسند احمد میں حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسی مفہوم کی روایت ہے۔ اس میں یہ شرط بھی ہے ”بشرطیکہ ان کا راستہ ایک ہو۔“ (مسند احمد: ۳/ ۳۰۳، وسنن ابی داود، الاجارۃ، حدیث: ۳۵۱۸) گویا پڑوسی کو بھی شفعہ کا حق ہے اگر وہ راستے وغیرہ میں شریک ہو۔ اس طرح تمام روایات پر عمل ہو جائے گا۔ بعض حضرات نے صرف پڑوسی کو بھی شفعہ کا حق دیا ہے، خواہ وہ کسی لحاظ سے بھی شریک نہ ہو لیکن اس سے صحیحین کی متفقہ روایات کی خلاف ورزی ہوگی جن میں تقسیم اور راستے الگ الگ ہونے کے بعد شفعہ کی صراحتاً نفی کی گئی ہے۔ (مثلاً: دیکھیے، حدیث: ۴۷۰۸) شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے شفعہ کی دو قسمیں قرار دی ہیں: شفعہ واجب اور شفعہ مستحب۔ شفعہ واجب تو شریک کے لیے ہی ہے، خواہ اصل چیز میں شریک ہو یا راستے وغیرہ میں۔ صرف پڑوسی جو کسی بھی لحاظ سے شریک نہ ہو، وہ شفعہ مستحب کا حق دار ہے، یعنی اچھی بات ہے کہ فروخت کرنے سے پہلے پڑوسی سے بھی پوچھ لیا جائے، ضروری نہیں۔ وہ عدالت میں دعویٰ بھی نہیں کر سکتا اور اس کے کہنے سے بیع فسخ بھی نہیں ہو سکتی جبکہ شریک سے پوچھ لینا ضروری ہے ورنہ عدالت میں یہ دعویٰ کر کے بیع فسخ کروا سکتا ہے۔ یہ تطبیق بھی مناسب ہے۔ واللہ أعلم (باقی تفصیل دیکھیے، حدیث: ۴۶۵۰)
الحکم التفصیلی:
قلت : و الطائفى فى هذا صدوق , و لكنه يخطىء و يهم كما فى " التقريب "
, بمثله لا تعارض رواية إبراهيم بن ميسرة و هو الثقة الثبت الحافظ .
لكن قد رواه عمرو بن شعيب عن عمرو بن الشريد عن أبيه , فلم يتفرد الطائفى بهذا
الإسناد , بل تابعه عمرو بن شعيب و هو ثقة , فدل على أن عمرو بن الشريد له
إسنادان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فى هذا الحديث , حفظ أحدهما عنه
إبراهيم بن ميسرة , و حفظ الآخر الطائفى و عمرو بن شعيب .
و قد أخرجه عن عمرو النسائى ( 2/235 ) و ابن ماجه ( 2496 ) و أحمد ( 4/388
و 389 و 390 ) .
ثم رأيت الترمذى قد علق الحديث من طريق الطائفى عن عمرو بن الشريد عن أبيه و عن
طريق إبراهيم بن ميسرة عن عمرو بن الشريد عن أبى رافع , و قال :
" سمعت محمدا ( يعنى الإمام البخارى ) يقول : كلا الحديثين عندى صحيح " .
فالحمد لله على توفيقه .
حديث الحسن عن سمرة مرفوعا : " جار الدار أحق بالدار " صححه الترمذى .
5/377 :
* صحيح .
أخرجه أبو داود ( 3517 ) و الترمذى ( 1/256 ) و ابن الجارود ( 644 ) و البيهقى
( 6/106 ) و الطيالسى ( 904 ) و أحمد ( 5/8 و 12 و 13 و 17 و 18 ) و ابن عدى فى
" الكامل " ( ق 88/2 و 114/2 ) و الثقفى فى " الثقفيات " ( 4/28/1 ) عن طرق عن
قتادة عن الحسن به .
و خالفهم عيسى بن يونس فقال : حدثنا سعيد عن قتادة عن أنس مرفوعا به .
أخرجه ابن حبان ( 1153 ) و ابن سختام الفقيه فى " الفوائد المنتقاة " ( 44/2 )
و الضياء المقدسى فى " الأحاديث المختارة " ( 204/1 ) , و علقه الترمذى و قال :
" و الصحيح عند أهل العلم حديث الحسن عن سمرة , و لا نعرف حديث قتادة عن أنس
, إلا من حديث عيسى بن يونس " .
و قال الدارقطنى : " وهم فيه عيسى بن يونس , و غيره يرويه عن سعيد عن قتادة عن
الحسن عن سمرة , و كذلك رواه شعبة و غيره عن قتادة , و هو الصواب " .
نقله الضياء ثم عقب عليه بقوله :
" قلت : و قد روى أبو ليلى حديث سمرة عن أحمد بن جناب عن عيسى بن يونس عن سعيد
, و روى بعده حديث أنس , فجاء بالروايتين معا " .
قلت : و كذلك أخرجه أبو الحسن القزوينى فى " مجلس من الأمالى "
( ق 200/1 ) عن أحمد بن جناب قال : حدثنا عيسى بن يونس بالروايتين .
و أحمد بن جناب ثقة من شيوخ مسلم , فروايته تدل على أن عيسى بن يونس قد حفظ ما
روى الجماعة عن سعيد عن قتادة , و زاد عليهم روايته عن سعيد عن قتادة عن أنس .
و معنى ذلك أن لقتادة فى هذا الحديث إسنادين : أحدهما عن أنس , و الآخر عن
الحسن عن سمرة .
فيبقى النظر فى اتصال كل من الإسنادين , و فيه نظر , فإن قتادة و الحسن البصرى
كلاهما مدلس , و قد عنعنه , و مع ذلك فقد قال الترمذى فى حديث سمرة : " حسن
صحيح " .
قلت : لعله يكون كذلك بمجموع الطريقين و الله أعلم .
حديث جابر : " الجار أحق بشفعته ينتظر به و إن كان غائبا ( إذ ) { كذا فى الأصل
و الصواب : إذا } كان طريقهما واحدا " ( ص 443 ) .
5/378 :
* صحيح .
أخرجه أبو داود ( 3518 ) و الترمذى ( 1/256 ـ 257 ) و الدارمى ( 2/273 )
و الطحاوى ( 2/265 ) و أحمد ( 3/303 ) و كذا الطيالسى ( 1677 ) من طرق عن
عبد الملك بن أبى سليمان عن عطاء عن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه
وسلم : فذكره . و اللفظ للترمذى و قال :
" هذا حديث حسن غريب , و لا نعلم أحدا روى هذا الحديث غير عبد الملك بن أبى
سليمان عن عطاء عن جابر , و قد تكلم شعبة فى عبد الملك من أجل هذا الحديث
ابن ماجة ( 2495 ) // ، الإرواء ( 1540 ) ، صحيح الجامع ( 3104 ) //
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4715
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4716
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4706
تمہید کتاب
اَلْبُیُوْع، جمع ہے اَلْبَیْعُ کی۔ اس کے معنی ہیں: خرید، فروخت، فروختگی۔ (دیکھئے: القاموس الوحید، مادہ [بیع] البیع، دراصل مصدر ہے: باع يبيعه بيعا،ومبيعاً فهو بَائِعٌ وَ بَیِّعٌ۔ البیوع کو جمع لایا گیا ہے جبکہ مصدر سے تثنیہ اور جمع نہیں لائے جاتے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی انواع و اقسام بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے جمع لایا گیا ہے۔البیع اضداد میں سے ہے جیسا کہ اَلشِّرَاء اضداد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں، یعنی البیع اور الشراء ایک دوسرے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لیے متعاقدین، یعنی خرید و فروخت کرنے والے دونوں اشخاص پر لفظ بائع کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب البائع کا لفظ بولا جائے تو متبادر الی الذہن (فوری طور پر ذہن میں آنے والا) فروخت کنندہ ہی ہوتا ہے، تاہم بیچنے اور خریدنے والے، دونوں پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے۔ عربی میں لفظ البیع کا اطلاق المبیع پر بھی کیا جاتا ہے، مثلاً: کہا جاتا ہے: بیع جید، بمعنی مبیع جید یعنی یہ مبیع (فروخت شدہ چیز) بہترین اور عمدہ ہے۔امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں: اَلْبَیْعُ لُغَۃً باع کا مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے: بَاعَ کَذَا بِکَذَا، یعنی اس نے فلاں چیز فلاں کے عوض بیچی۔ مطلب یہ کہ اس نے مُعَوَّضْ دیا اور اس کا عوض لیا۔ جب کوئی شخص ایک چیز دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لیتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ کوئی بائع ہو جو اس چیز کا اصل مالک ہوتا ہے یا مالک کا قائم مقام۔ اسی طرح اس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ کوئی مبتاع (خریدار) بھی ہو۔ مُبْتَاع وہ شخص ہوتا ہے جو ثَمَن خرچ کر کے مبیع حاصل کرتا ہے اور یہ مبیع چونکہ ثمن کے عوض لی جاتی ہے، اس لیے یہ مَثْمُوْن ہوتی ہے۔ اس طرح ارکان بیع چار ہوئے ہیں: اَلْبَائِعُ (بیچنے والا) اَلْمُبْتَاعُ (خریدار) اَلثَّمَنُ (قیمت)، اور اَلْمَثْمُوْن (قیمت کے عوض میں لی ہوئی چیز)۔ دیکھئے: (المفہم: 4/360)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: البیوع جمع ہے بیع کی۔ اور جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی مختلف انواع ہیں۔ البیع کے معنی ہیں: نَقْلُ مِلْکٍ إِلَی الْغَیْرِ بِثَمَنٍ ثمن، یعنی قیمت کے بدلے میں کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا اور اس قبولیت ملک کو شراء کہتے ہیں، تاہم البیع اور الشراء دونوں کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا خرید و فروخت کے جواز پر اجماع ہے۔ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کسی انسان کے پاس ہوتی ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کا ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ پہلا شخص، یعنی مالک اپنی چیز (بلا معاوضہ) دوسرے پر خرچ کرنے (یا دینے) کے لیے تیار نہیں ہوتا، لہٰذا شریعت نے بذریعہ بیع اس چیز تک پہنچنے کا ایسا جائز ذریعہ مہیا کر دیا ہے جس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ اس (بیع) کا جواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} (البقرۃ 2:275) ’’اللہ نے بیع (خرید و فروخت) کو حلال فرما دیا ہے اور سود کو حرام ٹھہرا دیا۔‘‘ (فتح الباری: 4/364، طبع دار السلام، الریاض)امام ابن قدامہ فرماتے ہیں: کسی چیز کا مالک بننے یا کسی اور کو مالک بنانے کے لیے مال کے بدلے مال کا تبادلہ بیع کہلاتا ہے۔ بیع، کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ قرآنِ کریم کی رو سے تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: { وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ} (البقرۃ 2:275)’’اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔‘‘ سنت، یعنی حدیث کی رو سے بھی بیع جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: [اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا] ’’دونوں سودا کرنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ اور جدا نہ ہوں (اس وقت تک) انہیں (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہے۔ (صحیح البخاری، البیوع، حدیث: 2109، 2110، و صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 1532) نیز تمام مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 34/2-75)
حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پڑوسی اپنے قرب کی وجہ سے زیادہ حق رکھتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
سنن اور مسند احمد میں حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اسی مفہوم کی روایت ہے۔ اس میں یہ شرط بھی ہے ”بشرطیکہ ان کا راستہ ایک ہو۔“ (مسند احمد: ۳/ ۳۰۳، وسنن ابی داود، الاجارۃ، حدیث: ۳۵۱۸) گویا پڑوسی کو بھی شفعہ کا حق ہے اگر وہ راستے وغیرہ میں شریک ہو۔ اس طرح تمام روایات پر عمل ہو جائے گا۔ بعض حضرات نے صرف پڑوسی کو بھی شفعہ کا حق دیا ہے، خواہ وہ کسی لحاظ سے بھی شریک نہ ہو لیکن اس سے صحیحین کی متفقہ روایات کی خلاف ورزی ہوگی جن میں تقسیم اور راستے الگ الگ ہونے کے بعد شفعہ کی صراحتاً نفی کی گئی ہے۔ (مثلاً: دیکھیے، حدیث: ۴۷۰۸) شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے شفعہ کی دو قسمیں قرار دی ہیں: شفعہ واجب اور شفعہ مستحب۔ شفعہ واجب تو شریک کے لیے ہی ہے، خواہ اصل چیز میں شریک ہو یا راستے وغیرہ میں۔ صرف پڑوسی جو کسی بھی لحاظ سے شریک نہ ہو، وہ شفعہ مستحب کا حق دار ہے، یعنی اچھی بات ہے کہ فروخت کرنے سے پہلے پڑوسی سے بھی پوچھ لیا جائے، ضروری نہیں۔ وہ عدالت میں دعویٰ بھی نہیں کر سکتا اور اس کے کہنے سے بیع فسخ بھی نہیں ہو سکتی جبکہ شریک سے پوچھ لینا ضروری ہے ورنہ عدالت میں یہ دعویٰ کر کے بیع فسخ کروا سکتا ہے۔ یہ تطبیق بھی مناسب ہے۔ واللہ أعلم (باقی تفصیل دیکھیے، حدیث: ۴۶۵۰)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابورافع ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پڑوسی اپنے پڑوس کا زیادہ حقدار ہے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : شفعہ وہ استحقاق ہے جس کے ذریعہ شریک اپنے شریک کا وہ حصہ جو دوسرے کی ملکیت میں جا چکا ہے قیمت ادا کر کے حاصل کر سکے، لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ دونوں کی جائیداد اس طرح مشترک ہو کہ دونوں کے حصے کی تعیین نہ ہو، اور دونوں کا راستہ بھی ایک ہو، دیکھئیے حدیث رقم ۴۷۰۸۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Jabir said: "The Messenger of Allah (ﷺ) ruled that pre-emption is to be given in everything that is shared in which the division is not clear, whether it is a house or a garden. It is not permissible to sell it before informing one's partner, who may take it or leave it, as he wishes. He (the share-owner) sells it without informing him, and then he has more right to it.