موضوعات
قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی
سنن النسائي: كِتَابُ الْقَسَامَةِ (بَابُ ذِكْرِ الْقَسَامَةِ الَّتِي كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ)
حکم : صحیح
4706 . أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَطَنٌ أَبُو الْهَيْثَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو يَزِيدَ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَوَّلُ قَسَامَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، كَانَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ اسْتَأْجَرَ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ، مِنْ فَخِذِ أَحَدِهِمْ قَالَ: فَانْطَلَقَ مَعَهُ فِي إِبِلِهِ، فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدِ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ، فَقَالَ: أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي لَا تَنْفِرُ الْإِبِلُ، فَأَعْطَاهُ عِقَالًا يَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِهِ، فَلَمَّا نَزَلُوا، وَعُقِلَتْ الْإِبِلُ إِلَّا بَعِيرًا وَاحِدًا، فَقَالَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ: مَا شَأْنُ هَذَا الْبَعِيرِ، لَمْ يُعْقَلْ مِنْ بَيْنِ الْإِبِلِ؟ قَالَ: لَيْسَ لَهُ عِقَالٌ قَالَ: فَأَيْنَ عِقَالُهُ؟ قَالَ: مَرَّ بِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدِ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ فَاسْتَغَاثَنِي، فَقَالَ: أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي، لَا تَنْفِرُ الْإِبِلُ، فَأَعْطَيْتُهُ عِقَالًا فَحَذَفَهُ بِعَصًا كَانَ فِيهَا أَجَلُهُ، فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ فَقَالَ: أَتَشْهَدُ الْمَوْسِمَ؟ قَالَ: مَا أَشْهَدُ، وَرُبَّمَا شَهِدْتُ، قَالَ: هَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي رِسَالَةً مَرَّةً مِنَ الدَّهْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: إِذَا شَهِدْتَ الْمَوْسِمَ فَنَادِ: يَا آلَ قُرَيْشٍ، فَإِذَا أَجَابُوكَ، فَنَادِ: يَا آلَ هَاشِمٍ، فَإِذَا أَجَابُوكَ، فَسَلْ عَنْ أَبِي طَالِبٍ، فَأَخْبِرْهُ أَنَّ فُلَانًا قَتَلَنِي فِي عِقَالٍ، وَمَاتَ الْمُسْتَأْجَرُ، فَلَمَّا قَدِمَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ، أَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ فَقَالَ: مَا فَعَلَ صَاحِبُنَا؟ قَالَ: مَرِضَ، فَأَحْسَنْتُ الْقِيَامَ عَلَيْهِ، ثُمَّ مَاتَ، فَنَزَلْتُ، فَدَفَنْتُهُ، فَقَالَ كَانَ ذَا أَهْلَ ذَاكَ مِنْكَ، فَمَكُثَ حِينًا، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ الْيَمَانِيَّ الَّذِي كَانَ أَوْصَى إِلَيْهِ أَنْ يُبَلِّغَ عَنْهُ، وَافَى الْمَوْسِمَ، قَالَ: يَا آلَ قُرَيْشٍ، قَالُوا: هَذِهِ قُرَيْشٌ، قَالَ: يَا آلَ بَنِي هَاشِمٍ، قَالُوا: هَذِهِ بَنُو هَاشِمٍ، قَالَ: أَيْنَ أَبُو طَالِبٍ؟ قَالَ: هَذَا أَبُو طَالِبٍ، قَالَ: أَمَرَنِي فُلَانٌ أَنْ أُبَلِّغَكَ رِسَالَةً، أَنَّ فُلَانًا قَتَلَهُ فِي عِقَالٍ، فَأَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ: اخْتَرْ مِنَّا إِحْدَى ثَلَاثٍ إِنْ شِئْتَ أَنْ تُؤَدِّيَ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، فَإِنَّكَ قَتَلْتَ صَاحِبَنَا خَطَأً، وَإِنْ شِئْتَ يَحْلِفْ خَمْسُونَ مِنْ قَوْمِكَ أَنَّكَ لَمْ تَقْتُلْهُ، فَإِنْ أَبَيْتَ قَتَلْنَاكَ بِهِ. فَأَتَى قَوْمَهُ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُمْ، فَقَالُوا: نَحْلِفُ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ كَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْهُمْ قَدْ وَلَدَتْ لَهُ. فَقَالَتْ: يَا أَبَا طَالِبٍ، أُحِبُّ أَنْ تُجِيزَ ابْنِي هَذَا بِرَجُلٍ مِنَ الْخَمْسِينَ، وَلَا تُصْبِرْ يَمِينَهُ، فَفَعَلَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ: يَا أَبَا طَالِبٍ، أَرَدْتَ خَمْسِينَ رَجُلًا أَنْ يَحْلِفُوا مَكَانَ مِائَةٍ مِنَ الْإِبِلِ، يُصِيبُ كُلَّ رَجُلٍ بَعِيرَانِ فَهَذَانِ بَعِيرَانِ فَاقْبَلْهُمَا عَنِّي، وَلَا تُصْبِرْ يَمِينِي حَيْثُ تُصْبَرُ الْأَيْمَانُ، فَقَبِلَهُمَا، وَجَاءَ ثَمَانِيَةٌ وَأَرْبَعُونَ رَجُلًا حَلَفُوا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا حَالَ الْحَوْلُ وَمِنَ الثَّمَانِيَةِ وَالْأَرْبَعِينَ عَيْنٌ تَطْرِفُ»
سنن نسائی:
کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل
باب: زمانہ جاہلیت یعنی قبل از اسلام کی قسامت کا بیان
)مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
4706. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جاہلیت میں سب سے پہلی قسامت اس طرح ہوئی کہ بنو ہاشم میں سے ایک آدمی کو کسی دوسرے قبیلے کے ایک قریشی نے اجرت پر اپنے پاس رکھا۔ وہ نوکر اس قریشی کے ساتھ اس کے اونٹوں میں گیا۔ اتفاقاً بنو ہاشم کا ایک آدمی اس کے پاس سے گزرا۔ اس کے بورے کے منہ کی رسی ٹوٹ چکی تھی۔ اس نے ہاشمی نوکر سے کہا: مجھے ایک رسی دو جس سے میں اپنے بورے کا منہ باندھ لوں تاکہ اونٹ نہ گھبرائیں۔ اس نوکر نے اسے ایک اونٹ کی گھٹنا باندھنے والی رسی دے دی تاکہ وہ اپنے بورے کا منہ باندھ لے۔ جب وہ آگے جا کر کسی منزل میں اترے اور اونٹوں کے گھٹنے باندھے گئے تو ایک اونٹ کھلا رہ گیا۔ مالک نے کہا: کیا وجہ ہے کہ اس ایک اونٹ کا گھٹنا نہیں باندھا گیا؟ اس نے کہا: اس کی رسی نہیں۔ اس نے کہا: اس کی رسی کدہر گئی؟ اس نے بتایا کہ میرے پاس بنو ہاشم کا ایک آدمی گزرا تھا۔ اس کے بورے کے منہ والی رسی ٹوٹ چکی تھی۔ اس نے مجھ سے مدد طلب کی اور کہا کہ مجھے ایک رسی دے جس کے ساتھ میں اپنے بورے کا منہ باندھ لوں تاکہ اونٹ نہ گھبرائیں۔ میں نے اس کو دے دی۔ مالک نے (غصے میں) اس کی طرف زور سے لاٹھی پھینکی جو اس کی موت کا باعث بن گئی۔ (وہ قریب المرگ تھا کہ) اتنے میں ادھر سے ایک یمنی آدمی گزرا۔ اس (ہاشمی نوکر) نے یمنی سے کہا: کیا تو موسم حج میں (مکہ مکرمہ) جاتا ہے؟ اس نے کہا: عام تو نہیں جاتا، کبھی کبھار جاتا ہوں۔ اس نے کہا: کیا تو اپنی ساری عمر میں کسی بھی وقت میرا یہ پیغام پہنچائے گا؟ اس نے کہا: ضرور۔ اس نے کہا: جب تو موسم حج میں جائے تو اعلان کرنا: اے قریشیو! جب وہ آجائیں تو بنو ہاشم کے بارے میں پوچھنا اور اسے بتانا کہ فلاں شخص نے مجھے ایک رسی کی وجہ سے قتل کر دیا ہے۔ (اتنی بات کہہ کر) وہ نوکر مر گیا۔ جب وہ شخص واپس (مکے) آیا جس نے اسے نوکر رکھا تھا تو ابو طالب اس کے پاس گئے اور پوچھا: ہمارے آدمی کا کیا بنا؟ اس نے کہا: وہ (راستے میں) بیمار ہوگیا تھا۔ میں نے اس کی خوب تیمارداری کی مگر وہ فوت ہوگیا۔ میں نے پڑاؤ کیا اور اس کا کفن دفن کیا۔ وہ کہنے لگے: واقعی وہ تجھ سے اسی سلوک کا اہل تھا۔ پھر کچھ عرصہ گزرا تو وہ یمنی شخص جسے اس نوکر نے وصیت کی تھی کہ یہ پیغام پہنچائے، موسم حج میں آگیا۔ اس نے اعلان کیا: اے قریشیو! لوگوں نے کہا: یہ قریشی ہیں۔ پھر اس نے کہا: اے ہاشمیو! لوگوں نے کہا: یہ ہاشمی ہیں۔ اس نے کہا: ابو طالب کہاں ہیں؟ کسی نے کہا: یہ ابو طالب ہیں۔ اس نے کہا: مجھے فلاں شخص نے کہا تھا کہ میں تجھے یہ پیغام پہنچا دوں کہ فلاں شخص نے اسے ایک رسی کی بنا پر قتل کیا ہے۔ تب ابو طالب اس (قاتل) کے پاس آئے اور کہا: ہماری طرف سے تین باتوں میں سے کوئی ایک قبول کر لے: اگر تو چاہے تو سو اونٹ بطور دیت ادا کر کیونکہ تو نے ہمارا آدمی خطاً (غلطی سے) قتل کیا ہے۔ اگر تو چاہے تو تیری قوم کے پچاس آدمی قسم کھائیں کہ تو نے اسے قتل نہیں کیا۔ اگر تو ان دونوں باتوں کو تسلیم نہیں کرے گا تو ہم تجھے اس کے بدلے قتل کر دیں گے۔ وہ اپنی قوم کے پاس گیا اور ان سے یہ ساری بات ذکر کی۔ انھوں نے کہا: ہم قسمیں کھائیں گے۔ بنو ہاشم کی ایک عورت جو اس قبیلے کے ایک آدمی کے نکاح میں تھی اور اس سے اس کی اولاد بھی تھی، ابو طالب کے پاس آئی اور کہنے لگی: ابو طالب! میں چاہتی ہوں کہ تو میرے بیٹے کو پچاس آدمیوں پر پڑنے والی قسم معاف کر دے اور اس سے قسم نہ لے۔ ابو طالب مان گئے۔ اس قبیلے میں سے ایک اور آدمی آیا اور کہنے لگا: ابو طالب! تو سو اونٹوں کے عوض پچاس آدمیوں سے قسمیں لینا چاہتا ہے۔ اس لحاظ سے ہر آدمی کو دو اونٹ پڑتے ہیں۔ یہ دو اونٹ میری طرف سے قبول کر لے اور جب قسمیں لی جائیں تو میری قسم نہ لی جائے۔ ابو طالب نے دو اونٹ لے لیے۔ باقی ارٹتالیس آدمی آئے اور انھوں نے قسمیں کھائیں۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ابھی پورا سال بھی نہیں گزرا تھا کہ ان اڑتالیس آدمیوں میں سے کوئی ایک آنکھ حرکت کرتی ہو۔ (سارے کے سارے مر گئے)۔