Sunan-nasai:
The Book of Salah
(Chapter: The Virtue Of The 'Asr Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
471.
حضرت عمارہ بن رویبہ ثقفی ؓ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”وہ آدمی ہرگز آگ میں داخل نہ ہوگا جس نے سورج طلوع اور غروب ہونے سے قبل کی نمازیں (فجر اور عصر) ادا کیں۔“
تشریح:
عصر اور فجر کی نمازیں مشکل اوقات میں ہیں۔ عصر کا وقت کاروبار اور مصروفیت کا وقت ہوتا ہے اور فجر کا وقت نیند اور غفلت کا، تو جو شخص ان دو نمازوں کو باجماعت پابندی سے ادا کرتا ہے وہ باقی نمازوں کو بدرجۂ اولیٰ پابندی سے ادا کرے گا۔ اور نماز دین کی بنیاد ہے، لہٰذا وہ پکا مومن ہوگا، اس لیے ہرگز آگ میں نہ جائے گا۔ واللہ اعلم
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه ابن حبان والسيوطي) .
إسناده: حدثنا عمرو بن عون: أنا خالد عن داود بن أبي هند عن أبي حرب
ابن أبي الأسود عن عبد الله بن فضالة.
قلت: وهذا إسناد صحيح إن شاء الله تعالى، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛
غير عبد الله بن فضالة؛ ذكره ابن حبان في "الثقات "، وكان على قضاء البصرة،
وقيل: إن له صحبة. قال ابن عبد البر في "الاستيعاب ":
" واختلف في إتيانه النبيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، ثم قال:
" ما رواه عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فهو عندهم مرسل؛ على أنه قد أتى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
وقد رآه ". قال:
" ولا يختلف في صحبة أبيه فضالة ". وقال ابن أبي حاتم:
" إسناده مضطرب، مشايخ مجاهيل "!
وتعقبه الحافظ في "الإصابة"؛ فقال:
" كذا قال! ولعبد الله رواية عن أبيه في "سنن أبي داود"، وصححها ابن
حبان من طريق داود بن أبي هند... "؛ ويعني هذا الحديث.
والحديث أخرجه البيهقي (1/466) - من طريق يعقوب بن سفيان-، والحاكم
(3/628) - من طريق علي بن عبد العزيز- كلاهما عن عمرو بن عون... به.
ثم أخرجه البيهقي من طريق علي بن عاصم: آبَنا داود بن أبي هند... به.
وقد اختلف فيه على ابن أبي هند:
فرواه عنه خالد- وهو ابن عبد الله الطحان- وعلي بن عاصم هكذا.
ورواه هشيم فقال: أخبرنا داود بن أبي هند قال: حدثني أبو حرب بن أبي
الأسود عن فضالة الليثي قال:
أتيت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فأسلمت، وعلَّمني... الحديث.
فأسقط من الإسناد: عبد الله بن فضالة، ووافقهما في أن الحديث من مسند
فضالة.
وخالفهم جميعاً: مسلمة بن علقمة فقال: عن داود عن أبي حرب عن
عبد الله بن فضالة:
أنه أتى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ...
فجعله من مسند عبد الله، لا من مسند أبيه! قال أبو حاتم- كما في
" الإصابة "-:
" وقول من قال فيه: عن أبيه أصح " . وقال ابن عبد البر:
" وهو أصح إن شاء الله تعالى ".
وهذا هو الحق إن شاء الله؛ لاتفاق ثقتين عليه؛ مع أن مسلمة بن علقمة في
حفظه ضعف؛ لا سيما في روايته عن ابن أبي هند.
والحديث أخرجه ابن نصر في "قيام الليل " (ص 113) من طريق خالد...
مختصراً.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
471
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
470
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
472
تمہید کتاب
امام نسائی طہارت اور اس سے متعلق دیگر احکام و مسائل بیان کرنے کے بعد ایسی عبادت سے متعلق احکام و مسائل بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جس سے پہلے طہارت شرط ہے اور وہ عبادت نماز ہے جس کی بابت احادیث میں مروی ہے کہ دین اسلام میں شہادتین کے اقرار کے بعد نماز دین کا اہم ترین رکن ہے اور حقوق اللہ میں سے اسی کا سب سے پہلے حساب ہوگا ذیل میں اسی عبادت کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور اس کی فرضیت و اہمیت کی احادیث کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے تاکہ قارئین احکام و مسائل جاننے اور پڑھنے سے قبل اس کی اہمیت اور فضیلت بھی جان لیں ۔صلاة (نماز) کے لغوی معنی’’ دعا‘‘ پر مشتمل ہے اس لیے اسے اس نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔(سبل السلام:1/193) شرعی اصطلاح میں نماز چند اقوال و افعال کا نام ہے جن کا آغاز چند مخصوص شرائط کے ساتھ تکبیر تحریمہ سے ہوتا ہے اور اختتام سلام پر ۔دیکھیے: الفقه على المذاهب الأربعة ،ص:103،طبع جديد دارابن الهيثم)توحید و رسالت کے اقرار کے بعد ایک بالغ مسلمان مرد و عورت پانچ وقت اقامت صلاۃ کا پابند ہے ‘نیز نماز ارکان خمسہ میں سے اسلام کا دوسرا اہم رکن ہے لہذا جو شخص جانتے بوجھتے اس کی فرضیت کا منکر ہو‘وہ بالاتفاق دائرہ اسلام سے خارج ہوگا نماز مومن کی ایک اہم پہچان ہے یہ برائی اور بے ۔حیائی سے روکتی ہے اس کی مداومت و محافظت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلاح و فوز کا وعدہ ہے بلوغت سے تا دم حیات انسان اس کا پابند ہے عذر کی صورت میں کیفیت ادا میں تو اس کی تخفیف ہے لیکن معافی قطعاً نہیں اس کا مقصد اعظم تو یاد الٰہی ہے لیکن عاجزی دور ماندگی کے اظہار کے لیے اللہ کے سامنے یہ ایک عمدہ صورت ہے یہ نفس کا سکون اورروح کی غذا ہے ہم و غم اور دکھ درد کا کامیاب علاج ہے مردن دلوں کی مایوسی اور ویرانی کے لیے آب حیات ہے راہ راست رب العالیمن سے مناجات کا ذریعہ ارو مومن کی معراج ہے بے صبری میں نسخۂ کیمیا اور مومن کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔[جعلت قرة عيني فى الصلاةِ] بہر حال قرآن کریم کی بیسیوں آیات میں نماز کا حکم اس کی اہمیت کے لیے کافی ہے علاوہ ازیں احادیث میں اس کے احکام و اوامر اس کی اہمیت و وقعت کو چار چاند لگا دیتے ہیں لہذا تارک الصلاۃ یا اس کے حق میں سستی برتنے والے کے لیے بالکل گنجائش کا کوئی راستہ نہیں نکلتا یاد رہے نماز کی ادائیگی کے لیے ’’ اقامت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اپنے اندر وسیع تر مفہوم رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ نماز اپنی حدودوقیود ‘فرائض و واجبات ‘شرائط اور مسنون طریقے کے مطابق ادا کی جائے تب مذکورہ بالا فوائد کا حصول ممکن اور اقامت صلاۃ کا اہتمام ہو سکتا ہے وگرنہ مرضی یا وقت گزاری کی نماز عنداللہ شرف قبولیت حاصل نہیں کر سکتی۔آپﷺ کا فرمان ہے ۔[خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ]’’جس شخص نے عمد طریقے سے ان (نمازوں) کا وضو کیا ‘ بروقت ان کی ادائیگی کی اور ان کے رکوع اور خشوع کو مکمل طور پر بجا لایا تو اس کے حق میں اللہ کا وعدہ اور ذمہ ہے کہ وہ اسے بخش دے گا ۔ اور جس نے (اس طرح) بجا آوری نہ کی تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی ذمہ نہیں ‘چاہے تو اسے بخش اور چاہے تو اسے عذاب دے۔‘‘(وانظر صحيح سنن أبي داود (مفصل) للالبانى ،حديث :452)نماز کی اہمیت وفضیلت سے متعلق کچھ دیگر احادیث بطور دیل و حجت کے حاضر خدمت ہیں:حضرت ابوہریرہ ٰ سے مروی حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے پوچھا:” مجھے بتاؤ اگر تم میں سے کسی ایک کےگھر کے سامنے نہر بہہ رہی ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ مرتب نہاۓ کیا اس کے بدن پر میل کچیل باقی رہ جائے گا؟‘‘ صحابہ کرام نے جواب دیا: نہیں۔ تب آپ ﷺنے فرمایا: ’پانچ نمازوں کی مثال ایسے ہی ہے۔ اللہ تعالی ان کی وجہ سے خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح البخاري، مواقيت الصلاة)حديث:۵۲۸، وصحيح مسلم المساجد حديث:۲۹۷) نیز حضرت عبداللہ بن مسعود سے منقول ہے رسول ﷺ نے فرمایا: (گناہوں کی وجہ سے) تم جلتے ہو جھلستے ہو۔ جب تم صبح کی نماز پڑھتے ہو تو یہ گناہوں کو دھو ڈالتی ہے پھر تم جھلستے ہی رہتے ہو یہاں تک کہ ظہر کی نماز پڑھتے ہو تو یہ خطاؤں کو دھو ڈالتی ہے۔ پھر تم ( گناہوں کی وجہ سے )آگ میں جلتے جھلتے ہو اور جب صبح کی نماز پڑتے ہو تو یہ گناہوں کو دھوڈالتی ہے عصر کی نماز پڑھ لیتے ہو تو یہ انھیں دھو دیتی ہے۔ پھر (خطاؤں کی تپش سے )جلتے ہو حتی کہ تم عشاء کی نماز پڑھتے ہو تو یہ نماز ان (گناہوں) کو دھو ڈالتی ہے پھر تم سو جاتے ہو تمہارا کچھ بھی نہیں لکھا جاتا یہاں تک کہ تم بیدار ہو جاؤ(المعجم الكبير للطبرانى ،حديث:8739 موقوفا والاوسط له،ٍحديث:2224- وصحيح الترغيب والترهيب،حديث :357) نيز حضرت انس بن مالك سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہر نماز کے وقت منادی کرتا ہے اے بنی نوع انسان! تم نے جو آگ بھڑکائی ہے اسے بجھانے کے لیے اٹھو یعنی نماز پر پر‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانى ،حديث 9452 وانظر صحيح الترغيب والترهيب، حديث :358)اسی طرح آپ کا فرمان ہے کہ جب بندۂ مسلمان نماز پڑھتا ہے تو اس کی خطائیں اس کے سر پر بلند ہوتی ہیں جب بھی وہ سجدہ کرتا ہے تو اس سے گرتی جاتی ہیں بالآخرجب وہ نماز سے فارغ ہو جاتا ہے تو اس کی لغزشیں گر (معاف ہو)چکی ہوتی ہیں ۔‘‘ترک صلاۃ یا اس میں کمی کوتاہی یا سستی کفریہ و تیرہ اور منافقانہ روش ہے نبئ اکرمﷺ نے بندے اور کفر و شرک کے درمیان حد امتیاز ترک صلاۃ کو قرار دیا ہے ۔صحیح مسلم الایمان حدیث 82) امیرالمؤمنین عمر فاروق جب زخمی تھے ‘انھوں نے نماز ادا کی اور فرمایا دجو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘یہ تو تھی نماز کی فرضیت اور اہمیت و فضیلت جبکہ نماز کے دیگر احکام و مسائل امام نسائی نے بیان کیے ہیں جن کی تفصیل آگے اپنے اپنے مقام پر آئے گی ۔ انشاءاللہ۔
حضرت عمارہ بن رویبہ ثقفی ؓ سے مروی ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”وہ آدمی ہرگز آگ میں داخل نہ ہوگا جس نے سورج طلوع اور غروب ہونے سے قبل کی نمازیں (فجر اور عصر) ادا کیں۔“
حدیث حاشیہ:
عصر اور فجر کی نمازیں مشکل اوقات میں ہیں۔ عصر کا وقت کاروبار اور مصروفیت کا وقت ہوتا ہے اور فجر کا وقت نیند اور غفلت کا، تو جو شخص ان دو نمازوں کو باجماعت پابندی سے ادا کرتا ہے وہ باقی نمازوں کو بدرجۂ اولیٰ پابندی سے ادا کرے گا۔ اور نماز دین کی بنیاد ہے، لہٰذا وہ پکا مومن ہوگا، اس لیے ہرگز آگ میں نہ جائے گا۔ واللہ اعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمارہ بن رویبہ ثقفی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”جو شخص سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے نماز پڑھے گا وہ ہرگز جہنم کی آگ میں داخل نہیں ہو گا۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : فجر اور عصر کی نمازوں کا ذکر ان کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر کیا گیا ہے، یہ مطلب نہیں کہ صرف ان نمازوں کی پابندی کرنے والا جہنم سے محفوظ رہے گا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو ان دونوں کی پابندی کرے گا وہ یقیناً دوسری نمازوں میں بھی کوتاہی نہیں کرے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Bakr (RA) bin ‘Umarah bin Ruwaibah Ath-Thaqafi that his father said: “I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: ‘He will never enter the Fire, the one who prays before the sun rises and before it sets.” (Sahih)