Sunan-nasai:
The Book of Salah
(Chapter: One Who Abandons Salat Al-'Asr)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
474.
ابوملیح بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک ابرآلود دن میں حضرت بریدہ ؓ کے ساتھ تھے تو انھوں نے کہا: نماز (عصر) جلدی پڑھ لو کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی اس کا عمل ضائع ہوگیا۔“
تشریح:
(1)ابرآلود دن میں سورج نظر نہیں آتا، اس لیے خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں غروب ہی نہ ہوجائے، لہٰذا عصر کی نماز اول وقت ہی میں پڑھ لینی چاہیے تاکہ تاخیر قضا تک نہ پہنچا دے۔ ایک مرفوع روایت میں یہ بات صراحتاً بیان کی گئی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:۵۹۴) (2)”اس کا عمل ضائع ہوگیا۔“ بعض گناہ حبطِ اعمال کا سبب بن جاتے ہیں، جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھگڑنا اور آواز بلند کرنا، ریاکاری کرنا، نجومی اور دست شناس وغیرہ کے پاس جانا، البتہ یہ ضروری نہیں کہ سارے سابقہ اعمال ضائع ہوجائیں، کیونکہ اس قسم کا احباط تو کفر و ارتداد ہی کی بنا پر ہوتا ہے۔ مذکورہ حدیث میں وہ عمل مراد ہے جس کی بنا پر وہ نماز سے مشغول رہا۔ اور ضائع ہونے کا مطلب ہے کہ وہ عمل اسے فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ یا کسی اور وجہ سے کامل احباط بھی ممکن ہے جبکہ سرے سے اس کے وجوب کا منکر ہو۔ بعض نے کہا ہے کہ ان الفاظ سے تشدید وتعظیم گنا ہ مقصود ہے نہ کہ ظاہری الفاظ۔ یہ مفہوم اگرچہ بعید نہیں مگر مندرجہ بالا مفہوم الفاظ کے قریب تر ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وقد خولف الأوزاعي في إسناده ومتنه خالفه في ذلك ثلاثة من الثقات :
الأول : هشام بن أبي عبد الله الدستوائي قال : حدثني يحيى ابن أبي كثير عن أبي قلابة قال : حدثني أبو المليح قال : كنا مع بريدة في يوم ذي غيم " فقال : بكروا بالصلاة فإن رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) قال : من ترك صلاة العصر فقد حبط عمله . أخرجه البخاري ( 1 / 138 ، 156 ) والنسائي ( 1 / 83 ) والسياق له والبيهقي وأحمد ( 5 / 349 ، 350 ، 357 ) وابن أبي شيبة من طرق عن هشام به
الثاني : شيبان عن يحيى به مقتصرا عل المرفوع فقط . أخرجه أحمد ( 5 / 350 ) . الثالث : معمر عن يحيى به مثل رواية شيبان بلفظ : " . . . متعمدا أحبط
الله عمله " . أخرجه أحمد ( 5 / 360 ) . وقد تبين من رواية هؤلاء الثلاثة الثقات أن الحديث المرفوع إنما هو هذا المقدار الذي رواه الأخيران وصرحت رواية الأول منهم إن القصة موقوفة على بريدة وكذا قوله " بكروا بالصلاة في يوم الغيم " ليس من الحديث المرفوع بل من قول بريدة أيضا . فهذا هو الاختلاف في المتن . وأما الاختلاف في السند فقال هؤلاء الثلاثة " أبو المليح " وقال الأوزاعي بدل ذلك " أبو المهاجر " . قال الحافظ في " الفتح " ( 2 / 26 ) : " والأول هو المحفوظ " . وكذا قال في ترجمة أبى المهاجر من " التهذيب " . والخلاصة أنه لا يصح من الحديث الا قوله ( صلى الله عليه وسلم ) : " من ترك صلاة العصر فقط حبط عمله "
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
473
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
473
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
475
تمہید کتاب
امام نسائی طہارت اور اس سے متعلق دیگر احکام و مسائل بیان کرنے کے بعد ایسی عبادت سے متعلق احکام و مسائل بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جس سے پہلے طہارت شرط ہے اور وہ عبادت نماز ہے جس کی بابت احادیث میں مروی ہے کہ دین اسلام میں شہادتین کے اقرار کے بعد نماز دین کا اہم ترین رکن ہے اور حقوق اللہ میں سے اسی کا سب سے پہلے حساب ہوگا ذیل میں اسی عبادت کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور اس کی فرضیت و اہمیت کی احادیث کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے تاکہ قارئین احکام و مسائل جاننے اور پڑھنے سے قبل اس کی اہمیت اور فضیلت بھی جان لیں ۔صلاة (نماز) کے لغوی معنی’’ دعا‘‘ پر مشتمل ہے اس لیے اسے اس نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔(سبل السلام:1/193) شرعی اصطلاح میں نماز چند اقوال و افعال کا نام ہے جن کا آغاز چند مخصوص شرائط کے ساتھ تکبیر تحریمہ سے ہوتا ہے اور اختتام سلام پر ۔دیکھیے: الفقه على المذاهب الأربعة ،ص:103،طبع جديد دارابن الهيثم)توحید و رسالت کے اقرار کے بعد ایک بالغ مسلمان مرد و عورت پانچ وقت اقامت صلاۃ کا پابند ہے ‘نیز نماز ارکان خمسہ میں سے اسلام کا دوسرا اہم رکن ہے لہذا جو شخص جانتے بوجھتے اس کی فرضیت کا منکر ہو‘وہ بالاتفاق دائرہ اسلام سے خارج ہوگا نماز مومن کی ایک اہم پہچان ہے یہ برائی اور بے ۔حیائی سے روکتی ہے اس کی مداومت و محافظت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلاح و فوز کا وعدہ ہے بلوغت سے تا دم حیات انسان اس کا پابند ہے عذر کی صورت میں کیفیت ادا میں تو اس کی تخفیف ہے لیکن معافی قطعاً نہیں اس کا مقصد اعظم تو یاد الٰہی ہے لیکن عاجزی دور ماندگی کے اظہار کے لیے اللہ کے سامنے یہ ایک عمدہ صورت ہے یہ نفس کا سکون اورروح کی غذا ہے ہم و غم اور دکھ درد کا کامیاب علاج ہے مردن دلوں کی مایوسی اور ویرانی کے لیے آب حیات ہے راہ راست رب العالیمن سے مناجات کا ذریعہ ارو مومن کی معراج ہے بے صبری میں نسخۂ کیمیا اور مومن کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔[جعلت قرة عيني فى الصلاةِ] بہر حال قرآن کریم کی بیسیوں آیات میں نماز کا حکم اس کی اہمیت کے لیے کافی ہے علاوہ ازیں احادیث میں اس کے احکام و اوامر اس کی اہمیت و وقعت کو چار چاند لگا دیتے ہیں لہذا تارک الصلاۃ یا اس کے حق میں سستی برتنے والے کے لیے بالکل گنجائش کا کوئی راستہ نہیں نکلتا یاد رہے نماز کی ادائیگی کے لیے ’’ اقامت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اپنے اندر وسیع تر مفہوم رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ نماز اپنی حدودوقیود ‘فرائض و واجبات ‘شرائط اور مسنون طریقے کے مطابق ادا کی جائے تب مذکورہ بالا فوائد کا حصول ممکن اور اقامت صلاۃ کا اہتمام ہو سکتا ہے وگرنہ مرضی یا وقت گزاری کی نماز عنداللہ شرف قبولیت حاصل نہیں کر سکتی۔آپﷺ کا فرمان ہے ۔[خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ]’’جس شخص نے عمد طریقے سے ان (نمازوں) کا وضو کیا ‘ بروقت ان کی ادائیگی کی اور ان کے رکوع اور خشوع کو مکمل طور پر بجا لایا تو اس کے حق میں اللہ کا وعدہ اور ذمہ ہے کہ وہ اسے بخش دے گا ۔ اور جس نے (اس طرح) بجا آوری نہ کی تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی ذمہ نہیں ‘چاہے تو اسے بخش اور چاہے تو اسے عذاب دے۔‘‘(وانظر صحيح سنن أبي داود (مفصل) للالبانى ،حديث :452)نماز کی اہمیت وفضیلت سے متعلق کچھ دیگر احادیث بطور دیل و حجت کے حاضر خدمت ہیں:حضرت ابوہریرہ ٰ سے مروی حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے پوچھا:” مجھے بتاؤ اگر تم میں سے کسی ایک کےگھر کے سامنے نہر بہہ رہی ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ مرتب نہاۓ کیا اس کے بدن پر میل کچیل باقی رہ جائے گا؟‘‘ صحابہ کرام نے جواب دیا: نہیں۔ تب آپ ﷺنے فرمایا: ’پانچ نمازوں کی مثال ایسے ہی ہے۔ اللہ تعالی ان کی وجہ سے خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح البخاري، مواقيت الصلاة)حديث:۵۲۸، وصحيح مسلم المساجد حديث:۲۹۷) نیز حضرت عبداللہ بن مسعود سے منقول ہے رسول ﷺ نے فرمایا: (گناہوں کی وجہ سے) تم جلتے ہو جھلستے ہو۔ جب تم صبح کی نماز پڑھتے ہو تو یہ گناہوں کو دھو ڈالتی ہے پھر تم جھلستے ہی رہتے ہو یہاں تک کہ ظہر کی نماز پڑھتے ہو تو یہ خطاؤں کو دھو ڈالتی ہے۔ پھر تم ( گناہوں کی وجہ سے )آگ میں جلتے جھلتے ہو اور جب صبح کی نماز پڑتے ہو تو یہ گناہوں کو دھوڈالتی ہے عصر کی نماز پڑھ لیتے ہو تو یہ انھیں دھو دیتی ہے۔ پھر (خطاؤں کی تپش سے )جلتے ہو حتی کہ تم عشاء کی نماز پڑھتے ہو تو یہ نماز ان (گناہوں) کو دھو ڈالتی ہے پھر تم سو جاتے ہو تمہارا کچھ بھی نہیں لکھا جاتا یہاں تک کہ تم بیدار ہو جاؤ(المعجم الكبير للطبرانى ،حديث:8739 موقوفا والاوسط له،ٍحديث:2224- وصحيح الترغيب والترهيب،حديث :357) نيز حضرت انس بن مالك سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہر نماز کے وقت منادی کرتا ہے اے بنی نوع انسان! تم نے جو آگ بھڑکائی ہے اسے بجھانے کے لیے اٹھو یعنی نماز پر پر‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانى ،حديث 9452 وانظر صحيح الترغيب والترهيب، حديث :358)اسی طرح آپ کا فرمان ہے کہ جب بندۂ مسلمان نماز پڑھتا ہے تو اس کی خطائیں اس کے سر پر بلند ہوتی ہیں جب بھی وہ سجدہ کرتا ہے تو اس سے گرتی جاتی ہیں بالآخرجب وہ نماز سے فارغ ہو جاتا ہے تو اس کی لغزشیں گر (معاف ہو)چکی ہوتی ہیں ۔‘‘ترک صلاۃ یا اس میں کمی کوتاہی یا سستی کفریہ و تیرہ اور منافقانہ روش ہے نبئ اکرمﷺ نے بندے اور کفر و شرک کے درمیان حد امتیاز ترک صلاۃ کو قرار دیا ہے ۔صحیح مسلم الایمان حدیث 82) امیرالمؤمنین عمر فاروق جب زخمی تھے ‘انھوں نے نماز ادا کی اور فرمایا دجو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘یہ تو تھی نماز کی فرضیت اور اہمیت و فضیلت جبکہ نماز کے دیگر احکام و مسائل امام نسائی نے بیان کیے ہیں جن کی تفصیل آگے اپنے اپنے مقام پر آئے گی ۔ انشاءاللہ۔
ابوملیح بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک ابرآلود دن میں حضرت بریدہ ؓ کے ساتھ تھے تو انھوں نے کہا: نماز (عصر) جلدی پڑھ لو کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی اس کا عمل ضائع ہوگیا۔“
حدیث حاشیہ:
(1)ابرآلود دن میں سورج نظر نہیں آتا، اس لیے خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں غروب ہی نہ ہوجائے، لہٰذا عصر کی نماز اول وقت ہی میں پڑھ لینی چاہیے تاکہ تاخیر قضا تک نہ پہنچا دے۔ ایک مرفوع روایت میں یہ بات صراحتاً بیان کی گئی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:۵۹۴) (2)”اس کا عمل ضائع ہوگیا۔“ بعض گناہ حبطِ اعمال کا سبب بن جاتے ہیں، جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھگڑنا اور آواز بلند کرنا، ریاکاری کرنا، نجومی اور دست شناس وغیرہ کے پاس جانا، البتہ یہ ضروری نہیں کہ سارے سابقہ اعمال ضائع ہوجائیں، کیونکہ اس قسم کا احباط تو کفر و ارتداد ہی کی بنا پر ہوتا ہے۔ مذکورہ حدیث میں وہ عمل مراد ہے جس کی بنا پر وہ نماز سے مشغول رہا۔ اور ضائع ہونے کا مطلب ہے کہ وہ عمل اسے فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ یا کسی اور وجہ سے کامل احباط بھی ممکن ہے جبکہ سرے سے اس کے وجوب کا منکر ہو۔ بعض نے کہا ہے کہ ان الفاظ سے تشدید وتعظیم گنا ہ مقصود ہے نہ کہ ظاہری الفاظ۔ یہ مفہوم اگرچہ بعید نہیں مگر مندرجہ بالا مفہوم الفاظ کے قریب تر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوالملیح (ابوالملیح بن اسامہ) کہتے ہیں کہ بدلی والے ایک دن میں ہم بریدہ ؓ کے ساتھ تھے تو انہوں نے کہا: نماز جلدی پڑھو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”جس نے عصر کی نماز چھوڑی اس کا عمل رائیگاں گیا۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس سے اس معصیت کی سنگینی کا اظہار مقصود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Qilabah said: “Abu Al-Malih narrated to me: ‘We were with Buraidah on a cloudy day and he said: “Pray early, for the Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Whoever abandons Salat Al-’Asr, his good deeds will perish.” (Sahih)