Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: No Retaliation Is To Be Carried Out If A Muslim Kills A Disbeliever)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4744.
حضرت ابوجحیفہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا: کیا آپ کے پاس رسول اللہ ﷺ کی جانب سے قرآن مجید کے علاوہ کوئی اور چیز بھی ہے؟ انھوں نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑ کر انگوری نکالی اور روح کو پیدا فرمایا! نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی آدمی کو اپنی کتاب کی سمجھ عطا فرمائے۔ (اس میں فرق ہو سکتا ہے) یا پھر اس تحریر میں کچھ باتیں ہیں۔ میں نے کہا: اس تحریر میں کیا لکھا ہے؟ انھوں نے فرمایا: اس میں دیت کے مسائل ہیں۔ قیدی کو چھڑانے کی فضیلت کا بیان ہے اور یہ کہ کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔
تشریح:
(1) یہ روایت تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے فوائد ومسائل حدیث: ۴۷۳۸۔ (2) ”اس تحریر میں“ اور یہ باتیں بھی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ یا اہل بیت سے خاص نہیں تھیں بلکہ عام لوگ بھی جانتے تھے۔ (3)”قیدی کو چھڑانا“ مراد وہ قیدی ہے جو کافروں کی قید میں پھنس جائے یا حکومت کی قید میں بے گناہ ہو۔ گناہ گار قیدی جو کسی جرم میں ماخوذ ہو کر قید میں ہو، اسے چھڑانا جائز نہیں، البتہ اس سے طعام ولباس یا اس کے اہل خانہ کے طعام وغیرہ کے سلسلے میں تعاون ہو سکتا ہے۔ بسا اوقات بعض لوگ قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں قید ہو جاتے ہیں۔ ان کی طرف سے قرض ادا کر کے ان کو چھڑانا بھی فضیلت کی بات ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4757
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4758
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4748
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت ابوجحیفہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا: کیا آپ کے پاس رسول اللہ ﷺ کی جانب سے قرآن مجید کے علاوہ کوئی اور چیز بھی ہے؟ انھوں نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑ کر انگوری نکالی اور روح کو پیدا فرمایا! نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی آدمی کو اپنی کتاب کی سمجھ عطا فرمائے۔ (اس میں فرق ہو سکتا ہے) یا پھر اس تحریر میں کچھ باتیں ہیں۔ میں نے کہا: اس تحریر میں کیا لکھا ہے؟ انھوں نے فرمایا: اس میں دیت کے مسائل ہیں۔ قیدی کو چھڑانے کی فضیلت کا بیان ہے اور یہ کہ کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ روایت تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے فوائد ومسائل حدیث: ۴۷۳۸۔ (2) ”اس تحریر میں“ اور یہ باتیں بھی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ یا اہل بیت سے خاص نہیں تھیں بلکہ عام لوگ بھی جانتے تھے۔ (3)”قیدی کو چھڑانا“ مراد وہ قیدی ہے جو کافروں کی قید میں پھنس جائے یا حکومت کی قید میں بے گناہ ہو۔ گناہ گار قیدی جو کسی جرم میں ماخوذ ہو کر قید میں ہو، اسے چھڑانا جائز نہیں، البتہ اس سے طعام ولباس یا اس کے اہل خانہ کے طعام وغیرہ کے سلسلے میں تعاون ہو سکتا ہے۔ بسا اوقات بعض لوگ قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں قید ہو جاتے ہیں۔ ان کی طرف سے قرض ادا کر کے ان کو چھڑانا بھی فضیلت کی بات ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ ہم نے علی ؓ سے کچھ پوچھا، ہم نے کہا: کیا آپ کے پاس قرآن کے سوا رسول اللہ ﷺ کی کوئی چیز ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم، جس نے دانے کو پھاڑا اور جان کو پیدا کیا، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ایک بندے کو جو قرآن کی سمجھ دیدے، یا جو اس صحیفہ میں ہے، میں نے کہا: اس صحیفہ میں کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اس میں دیت کے احکام ہیں، قیدیوں کو چھوڑنے کا بیان ہے، اور یہ حکم ہے کہ کوئی مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ash-Sha'bi said: "I heard Abu Juhaifah say: 'We asked 'Ali: "Do you have anything from the Messenger of Allah (ﷺ) apart from the Qur'an?" He said: "No, by the One who splits the seeds and creates the soul, unless Allah gives a slave understanding of His Book, or except this sheet." I said: "What is in the sheet?" He said: "In it are (the regulations concerning) blood money and the freeing of captives and (the rule) that no Muslim should be killed for killing a disbeliever.