Sunan-nasai:
The Book of Salah
(Chapter: Salat Al-'Asr While Traveling)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
478.
حضرت نوفل بن معاویہ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس کی عصر کی نماز رہ گئی، وہ یوں سمجھے کہ اس سے اس کے اہل و مال لوٹ لیے گئے۔“ عراک کہتے ہیں: مجھے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے خبر دی کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس سے عصر کی نماز رہ گئی، وہ یوں سمجھے اس سے اس کے اہل و مال لوٹ لیے گئے۔“ یزید بن ابی حبیب نے (سند اور متن کے بیان میں جعفر بن ربیعہ کی) مخالفت کی ہے۔
تشریح:
(1)یزید بن ابی حبیب اور جعفر بن ربیعہ حضرت عراک کے شاگرد ہیں۔ دونوں نے سند میں بھی اختلاف کیا ہے اور متن میں بھی۔ سند کا اختلاف تو یہ ہے کہ یزید بن ابی حبیب کی روایت میں ہے حضرت عراک کو یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت نوفل بن معاویہ یوں فرماتے تھے، گویا عراک نے خود حضرت نوفل سے نہیں سنا جب کہ جعفر بن ربیعہ کی روایت میں سماع اور تحدیث کی صراحت ہے۔ ممکن ہے پہلے عراک نے یہ روایت واسطے سے سنی ہو، پھر براہ راست سن لی۔ اور دونوں طرح بیان کردیا۔ متن میں اختلاف یہ ہے کہ جعفر کی روایت میں نماز عصر کی صراحت ہے جب کہ یزید بن ابی حبیب کی روایت میں ”کسی ایک نماز“ کا ذکر ہے۔ ممکن ہے حضرت نوفل کی روایت میں عصر کی صراحت نہ ہو۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہو۔ پہلے حضرت عراک مبہم بیان کرتے ہوں گے، پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے صراحت کے بعد انھوں نے نوفل کی روایت میں بھی نمازِعصر کی صراحت شروع کردی ہو۔ واللہ اعلم۔ (2)حدیث:۴۷۵ میں حبطِ عمل کا ذکر ہے اور یہاں اہل و مال کے لوٹ لیے جانے کا۔ دراصل وہ روایت نماز ترک کردینے کے بارے میں ہے کہ نہ ادا کی گئی ہو اور نہ قضا ہی پڑھی گئی ہو۔ اور یہ روایت سستی کی بنا پر نماز وقت سے رہ جانے کے بارے میں ہے جب کہ وقت کے بعد قضا پڑھ لی گئی ہو۔ اہل و مال کا لوٹا جانا بھی معمولی نقصان نہیں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
478
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
477
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
479
تمہید کتاب
امام نسائی طہارت اور اس سے متعلق دیگر احکام و مسائل بیان کرنے کے بعد ایسی عبادت سے متعلق احکام و مسائل بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جس سے پہلے طہارت شرط ہے اور وہ عبادت نماز ہے جس کی بابت احادیث میں مروی ہے کہ دین اسلام میں شہادتین کے اقرار کے بعد نماز دین کا اہم ترین رکن ہے اور حقوق اللہ میں سے اسی کا سب سے پہلے حساب ہوگا ذیل میں اسی عبادت کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور اس کی فرضیت و اہمیت کی احادیث کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے تاکہ قارئین احکام و مسائل جاننے اور پڑھنے سے قبل اس کی اہمیت اور فضیلت بھی جان لیں ۔صلاة (نماز) کے لغوی معنی’’ دعا‘‘ پر مشتمل ہے اس لیے اسے اس نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔(سبل السلام:1/193) شرعی اصطلاح میں نماز چند اقوال و افعال کا نام ہے جن کا آغاز چند مخصوص شرائط کے ساتھ تکبیر تحریمہ سے ہوتا ہے اور اختتام سلام پر ۔دیکھیے: الفقه على المذاهب الأربعة ،ص:103،طبع جديد دارابن الهيثم)توحید و رسالت کے اقرار کے بعد ایک بالغ مسلمان مرد و عورت پانچ وقت اقامت صلاۃ کا پابند ہے ‘نیز نماز ارکان خمسہ میں سے اسلام کا دوسرا اہم رکن ہے لہذا جو شخص جانتے بوجھتے اس کی فرضیت کا منکر ہو‘وہ بالاتفاق دائرہ اسلام سے خارج ہوگا نماز مومن کی ایک اہم پہچان ہے یہ برائی اور بے ۔حیائی سے روکتی ہے اس کی مداومت و محافظت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلاح و فوز کا وعدہ ہے بلوغت سے تا دم حیات انسان اس کا پابند ہے عذر کی صورت میں کیفیت ادا میں تو اس کی تخفیف ہے لیکن معافی قطعاً نہیں اس کا مقصد اعظم تو یاد الٰہی ہے لیکن عاجزی دور ماندگی کے اظہار کے لیے اللہ کے سامنے یہ ایک عمدہ صورت ہے یہ نفس کا سکون اورروح کی غذا ہے ہم و غم اور دکھ درد کا کامیاب علاج ہے مردن دلوں کی مایوسی اور ویرانی کے لیے آب حیات ہے راہ راست رب العالیمن سے مناجات کا ذریعہ ارو مومن کی معراج ہے بے صبری میں نسخۂ کیمیا اور مومن کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔[جعلت قرة عيني فى الصلاةِ] بہر حال قرآن کریم کی بیسیوں آیات میں نماز کا حکم اس کی اہمیت کے لیے کافی ہے علاوہ ازیں احادیث میں اس کے احکام و اوامر اس کی اہمیت و وقعت کو چار چاند لگا دیتے ہیں لہذا تارک الصلاۃ یا اس کے حق میں سستی برتنے والے کے لیے بالکل گنجائش کا کوئی راستہ نہیں نکلتا یاد رہے نماز کی ادائیگی کے لیے ’’ اقامت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اپنے اندر وسیع تر مفہوم رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ نماز اپنی حدودوقیود ‘فرائض و واجبات ‘شرائط اور مسنون طریقے کے مطابق ادا کی جائے تب مذکورہ بالا فوائد کا حصول ممکن اور اقامت صلاۃ کا اہتمام ہو سکتا ہے وگرنہ مرضی یا وقت گزاری کی نماز عنداللہ شرف قبولیت حاصل نہیں کر سکتی۔آپﷺ کا فرمان ہے ۔[خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ]’’جس شخص نے عمد طریقے سے ان (نمازوں) کا وضو کیا ‘ بروقت ان کی ادائیگی کی اور ان کے رکوع اور خشوع کو مکمل طور پر بجا لایا تو اس کے حق میں اللہ کا وعدہ اور ذمہ ہے کہ وہ اسے بخش دے گا ۔ اور جس نے (اس طرح) بجا آوری نہ کی تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی ذمہ نہیں ‘چاہے تو اسے بخش اور چاہے تو اسے عذاب دے۔‘‘(وانظر صحيح سنن أبي داود (مفصل) للالبانى ،حديث :452)نماز کی اہمیت وفضیلت سے متعلق کچھ دیگر احادیث بطور دیل و حجت کے حاضر خدمت ہیں:حضرت ابوہریرہ ٰ سے مروی حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے پوچھا:” مجھے بتاؤ اگر تم میں سے کسی ایک کےگھر کے سامنے نہر بہہ رہی ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ مرتب نہاۓ کیا اس کے بدن پر میل کچیل باقی رہ جائے گا؟‘‘ صحابہ کرام نے جواب دیا: نہیں۔ تب آپ ﷺنے فرمایا: ’پانچ نمازوں کی مثال ایسے ہی ہے۔ اللہ تعالی ان کی وجہ سے خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح البخاري، مواقيت الصلاة)حديث:۵۲۸، وصحيح مسلم المساجد حديث:۲۹۷) نیز حضرت عبداللہ بن مسعود سے منقول ہے رسول ﷺ نے فرمایا: (گناہوں کی وجہ سے) تم جلتے ہو جھلستے ہو۔ جب تم صبح کی نماز پڑھتے ہو تو یہ گناہوں کو دھو ڈالتی ہے پھر تم جھلستے ہی رہتے ہو یہاں تک کہ ظہر کی نماز پڑھتے ہو تو یہ خطاؤں کو دھو ڈالتی ہے۔ پھر تم ( گناہوں کی وجہ سے )آگ میں جلتے جھلتے ہو اور جب صبح کی نماز پڑتے ہو تو یہ گناہوں کو دھوڈالتی ہے عصر کی نماز پڑھ لیتے ہو تو یہ انھیں دھو دیتی ہے۔ پھر (خطاؤں کی تپش سے )جلتے ہو حتی کہ تم عشاء کی نماز پڑھتے ہو تو یہ نماز ان (گناہوں) کو دھو ڈالتی ہے پھر تم سو جاتے ہو تمہارا کچھ بھی نہیں لکھا جاتا یہاں تک کہ تم بیدار ہو جاؤ(المعجم الكبير للطبرانى ،حديث:8739 موقوفا والاوسط له،ٍحديث:2224- وصحيح الترغيب والترهيب،حديث :357) نيز حضرت انس بن مالك سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہر نماز کے وقت منادی کرتا ہے اے بنی نوع انسان! تم نے جو آگ بھڑکائی ہے اسے بجھانے کے لیے اٹھو یعنی نماز پر پر‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانى ،حديث 9452 وانظر صحيح الترغيب والترهيب، حديث :358)اسی طرح آپ کا فرمان ہے کہ جب بندۂ مسلمان نماز پڑھتا ہے تو اس کی خطائیں اس کے سر پر بلند ہوتی ہیں جب بھی وہ سجدہ کرتا ہے تو اس سے گرتی جاتی ہیں بالآخرجب وہ نماز سے فارغ ہو جاتا ہے تو اس کی لغزشیں گر (معاف ہو)چکی ہوتی ہیں ۔‘‘ترک صلاۃ یا اس میں کمی کوتاہی یا سستی کفریہ و تیرہ اور منافقانہ روش ہے نبئ اکرمﷺ نے بندے اور کفر و شرک کے درمیان حد امتیاز ترک صلاۃ کو قرار دیا ہے ۔صحیح مسلم الایمان حدیث 82) امیرالمؤمنین عمر فاروق جب زخمی تھے ‘انھوں نے نماز ادا کی اور فرمایا دجو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘یہ تو تھی نماز کی فرضیت اور اہمیت و فضیلت جبکہ نماز کے دیگر احکام و مسائل امام نسائی نے بیان کیے ہیں جن کی تفصیل آگے اپنے اپنے مقام پر آئے گی ۔ انشاءاللہ۔
حضرت نوفل بن معاویہ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس کی عصر کی نماز رہ گئی، وہ یوں سمجھے کہ اس سے اس کے اہل و مال لوٹ لیے گئے۔“ عراک کہتے ہیں: مجھے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے خبر دی کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس سے عصر کی نماز رہ گئی، وہ یوں سمجھے اس سے اس کے اہل و مال لوٹ لیے گئے۔“ یزید بن ابی حبیب نے (سند اور متن کے بیان میں جعفر بن ربیعہ کی) مخالفت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1)یزید بن ابی حبیب اور جعفر بن ربیعہ حضرت عراک کے شاگرد ہیں۔ دونوں نے سند میں بھی اختلاف کیا ہے اور متن میں بھی۔ سند کا اختلاف تو یہ ہے کہ یزید بن ابی حبیب کی روایت میں ہے حضرت عراک کو یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت نوفل بن معاویہ یوں فرماتے تھے، گویا عراک نے خود حضرت نوفل سے نہیں سنا جب کہ جعفر بن ربیعہ کی روایت میں سماع اور تحدیث کی صراحت ہے۔ ممکن ہے پہلے عراک نے یہ روایت واسطے سے سنی ہو، پھر براہ راست سن لی۔ اور دونوں طرح بیان کردیا۔ متن میں اختلاف یہ ہے کہ جعفر کی روایت میں نماز عصر کی صراحت ہے جب کہ یزید بن ابی حبیب کی روایت میں ”کسی ایک نماز“ کا ذکر ہے۔ ممکن ہے حضرت نوفل کی روایت میں عصر کی صراحت نہ ہو۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہو۔ پہلے حضرت عراک مبہم بیان کرتے ہوں گے، پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے صراحت کے بعد انھوں نے نوفل کی روایت میں بھی نمازِعصر کی صراحت شروع کردی ہو۔ واللہ اعلم۔ (2)حدیث:۴۷۵ میں حبطِ عمل کا ذکر ہے اور یہاں اہل و مال کے لوٹ لیے جانے کا۔ دراصل وہ روایت نماز ترک کردینے کے بارے میں ہے کہ نہ ادا کی گئی ہو اور نہ قضا ہی پڑھی گئی ہو۔ اور یہ روایت سستی کی بنا پر نماز وقت سے رہ جانے کے بارے میں ہے جب کہ وقت کے بعد قضا پڑھ لی گئی ہو۔ اہل و مال کا لوٹا جانا بھی معمولی نقصان نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
نوفل بن معاویہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ جس کی عصر کی نماز فوت ہو گئی تو گویا اس کا گھربار لٹ گیا۔ عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”کہ جس کی نماز عصر فوت ہو گئی گویا اس کا گھربار لٹ گیا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Irak bin Malik narrated that Nawfal bin Muawiyah told him that he heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: “Whoever misses ‘Asr prayer, it is as if he has been robbed of his family and his wealth.” ‘Irak said: ‘And ‘Abdullah bin ‘Umar informed me that he heard the Messenger of Allah (ﷺ) saying: ‘Whosoever misses ‘Asr prayer, it is as if he has been robbed of his family and his wealth.” (Sahih) Yazid bin Abl Habib contradicted him.