باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان: {فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ} کی تفسیر
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Interpreting The Saying Of Allah, The Mighty And Sublime: "But If The Killer Is Forgiven By The Brother (Or The Relatives) Of The Killed Against Blood Money, Then Adhering To It With Fairness And Payment Of The Blood Money To The Heir Should Be M)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4781.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں صرف قصاص تھا۔ دیت نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ آیت اتاری: ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى﴾ ”تم پر مقتولوں کے بارے میں برابر کا بدلہ لینا فرض کیا گیا ہے۔ آزاد کے بدلے وہی آزاد (قاتل) اور غلام کے بدلے وہی غلام (قاتل) اور عورت کے بدلے وہی (قاتل) عورت (قتل کی جائے گیٖ۔ پھر جس شخص کو اس کے بھائی (مقتول کے ولی) کی طرف سے کچھ معافی مل جائے تو (معاف کرنے والے کے لیے) اچھے طریقے سے دیت طلب کرنا اور (قاتل کے لیے) اچھے طریقے سے ادائیگی کرنا ہے۔“ معافی سے مراد یہ ہے کہ قتل عمد کی صورت میں مقتول کا ولی دیت لینا قبول کرے۔ اتباع بالمعروف سے یہ مراد ہے کہ مقتول کا ولی مناسب انداز میں دیت وصول کر لے اور دوسرا فریق اچھے طریقے سے ادائیگی کرے۔ ﴿ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ﴾ ”یہ تمھارے رب کی طرف سے آسانی اور رحمت ہے۔“ یعنی اہل کتاب پر نازل کردہ حکم کے مقابلے میں جو کہ صرف قصاص تھا اور دیت (کی گنجائش) نہیں تھی۔
تشریح:
(1) ”برابر کا بدلہ لینا فرض کیا گیا ہے۔“ یعنی قصاص لینا جائز ہے۔ مشروع ہے، واجب اور ضروری نہیں بلکہ عام حالات میں معافی بہتر ہے۔ (2) ”آزاد کے بدلے وہی آزاد (قاتل)“ دور جاہلیت میں بعض قوی قبائل اپنے غلام کو دوسروں کے آزاد اور اپنی عورت کو دوسروں کے مردوں کے برابر سمجھتے تھے۔ اپنے ایک آزاد کے بدلے میں وہ دوسروں کے دس، دس آزاد مار دیتے تھے۔ شریعت نے فرمایا: قاتل ہی قتل کیا جائے گا آزاد ہو یا غلام، عورت ہو یا مرد، ایک ہو یا زائد۔ بعض حضرات نے معنیٰ کیے ہیں: ”آزاد کے بدلے آزاد قتل کیا جائے گا، غلام کے بدلے غلام“ حالانکہ یہ معنیٰ غلط ہیں۔ مقتول کے بدلے میں قاتل کو قتل کیا جائے گا نہ کہ کوئی آزاد یا غلام۔ (3) ”کچھ معافی“ یعنی قصاص معاف ہو جائے، خواہ سب اولیاء معاف کر دیں یا ایک ولی معاف کر دے۔ ایسی صورت میں قصاص نہیں، دیت ہوگی۔ (4) ”اچھے طریقے سے“ جب ولی نے قصاص معاف کیا ہے تو وہ دیت لینے میں بھی احسان کرے کہ قسطوں میں لے۔ یکمشت ادائیگی کی ضد نہ کرے الا یہ کہ قاتل آسانی سے یکمشت ادا کر سکتا ہو۔ اسی طرح قاتل کو بھی احسان کی قدر کرتے ہوئے تندہی سے ادائیگی کرنی چاہیے اور مقتول کے اولیاء کو پریشان نہیں کرنا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4794
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4795
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4785
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں صرف قصاص تھا۔ دیت نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ آیت اتاری: ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى﴾ ”تم پر مقتولوں کے بارے میں برابر کا بدلہ لینا فرض کیا گیا ہے۔ آزاد کے بدلے وہی آزاد (قاتل) اور غلام کے بدلے وہی غلام (قاتل) اور عورت کے بدلے وہی (قاتل) عورت (قتل کی جائے گیٖ۔ پھر جس شخص کو اس کے بھائی (مقتول کے ولی) کی طرف سے کچھ معافی مل جائے تو (معاف کرنے والے کے لیے) اچھے طریقے سے دیت طلب کرنا اور (قاتل کے لیے) اچھے طریقے سے ادائیگی کرنا ہے۔“ معافی سے مراد یہ ہے کہ قتل عمد کی صورت میں مقتول کا ولی دیت لینا قبول کرے۔ اتباع بالمعروف سے یہ مراد ہے کہ مقتول کا ولی مناسب انداز میں دیت وصول کر لے اور دوسرا فریق اچھے طریقے سے ادائیگی کرے۔ ﴿ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ﴾ ”یہ تمھارے رب کی طرف سے آسانی اور رحمت ہے۔“ یعنی اہل کتاب پر نازل کردہ حکم کے مقابلے میں جو کہ صرف قصاص تھا اور دیت (کی گنجائش) نہیں تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”برابر کا بدلہ لینا فرض کیا گیا ہے۔“ یعنی قصاص لینا جائز ہے۔ مشروع ہے، واجب اور ضروری نہیں بلکہ عام حالات میں معافی بہتر ہے۔ (2) ”آزاد کے بدلے وہی آزاد (قاتل)“ دور جاہلیت میں بعض قوی قبائل اپنے غلام کو دوسروں کے آزاد اور اپنی عورت کو دوسروں کے مردوں کے برابر سمجھتے تھے۔ اپنے ایک آزاد کے بدلے میں وہ دوسروں کے دس، دس آزاد مار دیتے تھے۔ شریعت نے فرمایا: قاتل ہی قتل کیا جائے گا آزاد ہو یا غلام، عورت ہو یا مرد، ایک ہو یا زائد۔ بعض حضرات نے معنیٰ کیے ہیں: ”آزاد کے بدلے آزاد قتل کیا جائے گا، غلام کے بدلے غلام“ حالانکہ یہ معنیٰ غلط ہیں۔ مقتول کے بدلے میں قاتل کو قتل کیا جائے گا نہ کہ کوئی آزاد یا غلام۔ (3) ”کچھ معافی“ یعنی قصاص معاف ہو جائے، خواہ سب اولیاء معاف کر دیں یا ایک ولی معاف کر دے۔ ایسی صورت میں قصاص نہیں، دیت ہوگی۔ (4) ”اچھے طریقے سے“ جب ولی نے قصاص معاف کیا ہے تو وہ دیت لینے میں بھی احسان کرے کہ قسطوں میں لے۔ یکمشت ادائیگی کی ضد نہ کرے الا یہ کہ قاتل آسانی سے یکمشت ادا کر سکتا ہو۔ اسی طرح قاتل کو بھی احسان کی قدر کرتے ہوئے تندہی سے ادائیگی کرنی چاہیے اور مقتول کے اولیاء کو پریشان نہیں کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں قصاص کا حکم تھا، ان میں دیت دینے کا حکم نہ تھا، تو اللہ تعالیٰ نے «كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَى بِالْأُنْثَى» ”تم پر قصاص فرض کیا گیا ان لوگوں کا جو مارے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام، عورت کے بدلے عورت“ سے «فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ» ”جس کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جائے تو معاف کرنے والا دستور کی پیروی کرے اور جس کو معاف کیا گیا وہ اچھی طرح دیت ادا کرے۔ (تمہارے رب کی طرف سے) یہ تخفیف اور رحمت ہے، اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے گا، اسے درد ناک عذاب ہو گا“ (البقرہ: ۱۷۸) تک نازل فرمایا، تو عفو یہ ہے کہ قتل عمد میں دیت قبول کر لے اور اتباع بالمعروف یہ ہے کہ وہ دستور کی پابندی کرے، اور «وأداء إليه بإحسان» یہ ہے کہ وہ اسے اچھی طرح ادا کرے، «ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ» ”یہ تخفیف ہے تمہارے رب کی طرف سے اور رحمت ہے“ اس لیے کہ تم سے پہلے کے لوگوں پر صرف قصاص فرض تھا، دیت کا حکم نہیں تھا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Abbas said: "There was Qisas among the Children of Israel, but Diyah was unknown among them. Then Allah, the Mighty and Sublime, revealed: "Al-Qisas (the law of equality in punishment) is prescribed for your in case of murder: the free for the free, the slave for the slave, and the female for the female." Up to His saying: "But if the killer is forgiven by the brother 9or the relatives) of the killed against blood money, then adhering to it with fairness and payment of the blood money to the heir should be made in fairness."[2] Forgiveness means accepting the Diyah in the case of deliberate killing. Adhering to it in fairness means asking him to pay the Diyah in a fair manner, and payment in fairness means giving the Diyah in a fair manner. This is and alleviation and a mercy from you Lord,[1] means: This is easier than that which was prescribed for those who came before you, which was Qisas and not Diyah.