باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان: {فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ} کی تفسیر
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Interpreting The Saying Of Allah, The Mighty And Sublime: "But If The Killer Is Forgiven By The Brother (Or The Relatives) Of The Killed Against Blood Money, Then Adhering To It With Fairness And Payment Of The Blood Money To The Heir Should Be M)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4782.
حضرت مجاہد ؓ نے آیت کریمہ ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى…﴾ ”تم پر مقتولوں کے بارے میں قصاص (برابر کا بدلہ) لینا فرض کیا گیا ہے، آزاد کے بدلے وہی آزاد۔“ کے متعلق میں فرمایا: بنو اسرائیل کے لیے صرف قصاص کا حکم تھا، دیت نہیں تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دیت کا حکم اتار کر اس امت کے لیے بنی اسرائیل کے مقابلے میں تخفیف فرما دی۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت : وهذا إسناد صحيح رجاله ثقات رجال الشيخين لكنهم أعلوه بالإرسال فقال أبو داود عقبه : رواه هشيم ومعمر وخالد الواسطي وجماعة لم يذكروا جريرا " . قلت . . . أخرجه أبو عبيد في " الغريب " ( من 75 / 2 ) عن هشيم والترمذي من طريق عبدة والنسائي ( 2 / 245 ) من طريق أبي خالد كلاهما عن إسماعيل بن أبي خالد بن أبي حازم مرسلا . وقال الترمذي : " وهذا أصح وأكثر أصحاب إسماعيل قالوا : عن إسماعيل عن قيس لم يذكروا فيه جريرا ورواه حماد بن سلمة عن الحجاج بن أرطاة عن إسماعيل عن قيس عن جرير مثل حديث أبي معاوية . وسمعت محمدا ( يعني البخاري ) يقول : الصحيح حديث قيس عن النبي ( صلى الله عليه وسلم ) مرسل " . قلت : ورواية إبن أرطاة وصلها البيهقي ( 9 / 12 - 13 ) مختصرا بلفظ : " من أقام مع المشركين فقد برئت منه الذمة ) . وذكره إبن أبي حاتم ( 1 / 315 ) وقال عن أبيه : " الكوفيون سوى حجاج لا يسندونه " . قلت : والحجاج مدلس وقد عنعنه فلا فائدة من متابعته . وتابعه صالح بن عمر وهو ثقة لكن الراوي عنه إبراهيم بن محمد بن ميمون شيعي ليس بثقة . أخرجه الطبراني . نعم قد تابعه من هو خير منه حفص بن غياث ولكنه خالفهما جميعا في
إسناده فقال : عن إسماعيل بن أبي خالد عن قيس بن أبي حازم عن خالد بن الوليد : " أن سول
الله ( صلى الله عليه وسلم ) " بعث خالد بن الوليد إلى ناس من خثعم فاعتصموا بالسجود . . . " الحديث . أخرجه الطبراني في " المعجم الكبير " ( 1 / 191 / 2 ) : حدثنا أبو الزنباع روح بن الفرج وعمر بن عبد العزيز بن مقلاص : نا يوسف بن عدي نا حفص ابن غياث به . وهذا سند رجاله ثقات رجال البخاري إلا أن إبن غياث كان تغير حفظه قليلا كما في " التقريب " . وقد وجدت له طريقا أخرى عن جرير بنحوه رواه أبو وائل عن أبي نجيلة البجلي عنه قال : " أتيت النبي ( صلى الله عليه وسلم ) " وهو يبايع فقلت : يا رسول الله ابسط يدك حتى أبايعك واشترط علي فأنت أعلم قال : أبايعك على أن تعبد الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتناصح المسلمين وتفارق المشرك " . أخرجه النسائي ( 2 / 183 ) والبيهقي ( 9 / 13 ) وأحمد ( 4 / 365 ) عن منصور عن أبي وائل به . وتابعه الأعمش عن أبي وائل به . أخرجه النسائي من طريق أبي الأحوص عنه . وخالفه شعبة فقال : عنه عن أبي وائل عن جرير . أسقط منه أبا نجيلة . أخرجه النسائي . وتابع شعبة أبو شهاب وأبو ربعي فقالا : عن الأعمش عن أبي وائل عن جرير . أخرجه الطبراني في " المعجم الكبير " ( 1 / 1111 / 1 )
ولعل رواية أبي الأحوص عنه أرجح لموافقتها لرواية منصور التى لم يختلف عليه فيها . وإسناده صحيح وأبو نخيلة بالخاء المعجمة مصغرا وقيل بالمهملة وبه جزم إبراهيم الحربي وقال : " هو رجل صالح " . وجزم غير واحد بصحبته كما بينه الحافظ بن حجر في " الإصابة " . وله شاهد عن أعرابي معه كتاب كتبه له رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) فيه : " إنكم إن شهدتم أن لا إله إلا الله وأقمتم الصلاة وآتيتم الزكاة وفارقتم المشركين وأعطيتم من الغنائم الخمس وسهم النبي ( صلى الله عليه وسلم ) والصفي وربما قال : وصفيه - فأنتم آمنون بأمان الله وأمان رسوله " . أخرجه البيهقي ( 6 / 303 ، 9 / 13 ) وأحمد ( 5 / 78 ) بسند صحيح عنه وجهالة الصحابي لا تضر . وشاهد آخر من رواية بهز بن حكيم عن أبيه عن جده مرفوعا بلفظ : " كل مسلم على مسلم محرم أخوان نصيران لا يقبل الله عزوجل من مشرك بعد ما أسلم عملا أو يفارق المشركين إلى المسلمن " . أخرجه النسائي ( 1 / 358 ) وإبن ماجه ( 2536 ) شطره الثاني . قلت : وإسناده حسن . وفي الباب عن سمرة بن جندب مرفوعا بلفظ : " من جامع المشرك وسكن معه فإنه مثله " . أخرجه أبو داود ( 2787 ) قلت : وسنده ضعيف . وله عنه طريق أخرى أشد ضعفا منها أخرجه الحاكم ( 2 / 141 - 142 ) وقال " صحيح على شرط البخاري " ! ووافقه الذهبي في " التلخيص " لكن وقع فيه " صحيح على شرط البخاري ومسلم " !
وذلك من أوهامهما فإن فيه إسحاق بن إدريس وهو متهم بالكذب وقد ترجمه الذهبي نفسه في " الميزان " أسوأ ترجمة . ووجدت له شاهدا آخر من حديث كعب بن عمرو وقال : " أتيت النبي ( صلى الله عليه وسلم ) وهو يبايع الناس فقلت : يا رسول الله : أبسط يدك حتى أبايعك واشترط علي فأنت أعلم بالشرط قال أبايعك على أن تعبد الله . . . . " الحديث بلفظ أبي نخيلة المتقدم . أخرجه الحاكم ( 3 / 505 ) وفيه بريدة بن سفيان الأسلمي وليس بالقوي
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4795
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4796
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4786
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت مجاہد ؓ نے آیت کریمہ ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى…﴾ ”تم پر مقتولوں کے بارے میں قصاص (برابر کا بدلہ) لینا فرض کیا گیا ہے، آزاد کے بدلے وہی آزاد۔“ کے متعلق میں فرمایا: بنو اسرائیل کے لیے صرف قصاص کا حکم تھا، دیت نہیں تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دیت کا حکم اتار کر اس امت کے لیے بنی اسرائیل کے مقابلے میں تخفیف فرما دی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجاہد اس آیت کریمہ «كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ» ”تم پر قصاص فرض کیا گیا ان لوگوں کا جو مارے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد“ کے سلسلہ میں کہتے ہیں: بنی اسرائیل پر صرف قصاص فرض تھا، ان پر دیت نہیں تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے دیت کا حکم نازل فرمایا، تو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے بالمقابل اس امت محمدیہ پر تخفیف کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Mujahid said: "Al-Qisas (the Law of Equality in punishment) is prescribed for you in case of murder: the free for the free[2] The rule for the Children of Israel was Qisas, and not Diyah. Then Allah, the Mighty and Sublime, revealed the Diyah to them, and He revealed this ruling to this Ummah as an alleviation of the ruling that applied to the Children of Israel.