Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: The Diyah For A Woman's Fetus)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4817.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے بنو لحیان کی ایک عورت کے پیٹ کے بچے کے بارے میں جو (چوٹ کی وجہ سے) ساقط ہو کر مر گیا تھا، فیصلہ فرمایا کہ اس کی دیت غرہ ہوگی، یعنی غلام یا لونڈی۔ پھر جس عورت کے لیے (جس کے بچے کی دیت کی بابت) غرہ کا فیصلہ کیا تھا، وہ مر گئی تو رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ اس کی وراثت اس کے بیٹوں اور خاوند کو ملے گی۔ اور اس (قاتلہ) کے ذمے واجب الادا دیت اس (قاتلہ) کے عصبہ کے ذمے ہوگی۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں بھی جنین کی دیت غلام یا لونڈی بیان ہوئی ہے، تاہم اگر جنین زندہ پیٹ سے باہر آیا، پھر اسی لگائی گئی چوٹ کے اثر کی وجہ سے فوت ہوگیا تو اس صورت میں بڑے شخص والی مکمل دیت ادا کرنی پڑے گی۔ چوٹ جان بوجھ کر لگائی گئی ہو یا غلطی سے لگی ہو، دونوں صورتوں میں مسئلہ اسی طرح ہے جیسے بیان کیا گیا ہے۔ واللہ أعلم تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبی شرح سنن النسائي لأتبوبي: ۳۶/ ۲۱۹، ۲۲۰) (2) اس حدیث مبارکہ کے الفاظ [إنَّ المرأة التي قضى عليها بالغُرَّةِتوُفِّيَت] سے بعض اہل علم کو یہ وہم ہوا ہے کہ اس سے مراد قاتلہ ہے، اس لیے انھوں نے ان الفاظ کے معنیٰ کیے ہیں: ”پھر جس عورت کے ذمے غرہ (دینے) کا فیصلہ کیا گیا تھا، وہ مر گئی۔“ یہ بات درست نہیں بلکہ حقیقت واقعہ کے خلاف ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مرنے والی قاتلہ نہیں بلکہ وہ تھی جس کا جنین گرایا گیا تھا کیونکہ احادیث صحیحہ میں یہ صراحت موجود کہ مرنے والی قاتلہ نہیں بلکہ دوسری تھی جسے پتھر مار کر اس کا جنین گرا دیا گیا تھا اور اسے قتل کر دیا گیا تھا۔ حدیث کے الفاظ ہیں: [اقْتَتَلَتِامْرَأَتانِمِنهُذَيْلٍ، فَرَمَتْ إحْداهُما الأُخْرى بحَجَرٍ فَقَتَلَتْها وما في بَطْنِها]”ہذیل قبیلے کی دو عورتیں لڑ پڑیں۔ ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر دے مارا اور اسے قتل کر دیا اور اس بچے کو بھی جو اس کے پیٹ میں تھا۔“(صحیح البخاري، الدیات، باب جنین المراة… حدیث: ۶۹۱۰، وصحیح مسلم، القسامة والمحاربین، باب دیة الجنین…، حدیث: ۱۶۸۱ (۳۶)التيقضىعليها بالغُرَّةِ کا مفہوم ہے: التيقضىلها بالغُرَّةِ۔ مطلب یہ کہ علیھا بمعنیٰ لھا ہے۔ صحیح بخاری میں یہ الفاظ ہیں: [ثم ان المراۃ التی قضی لھا بالغرۃ توفیت] دیکھیے: (صحیح البخاري، الفرائض، باب میراث المرأة والزوج مع الولد وغیرہ، حدیث: ۶۷۴۰) بعض اہل علم کو حدیث مبارکہ کے آخری جملے [قضی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بان میراثھا لبنیھا وزوجھا، وان العقل علی عصبتھا] سے یہ وہم لگا ہے کہ مرنے والی قاتلہ ہی ہے۔ اسی کی وراثت کے حق دار اس کے بیٹے اور اس کا خاوند ہیں اور اس کی دیت اس کے عصبہ کے ذمہ ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث سے اس شبہ اور وہم کا کلیتاً ازالہ ہو جاتا ہے۔ اس کے الفاظ اس قدر واضح اور صریح ہیں کہ وہم کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ الفاظ یہ ہیں: [فجَعَل النَّبيُّ ﷺ دِيَةَ المقتولةِ على عَصَبةِ القاتلةِ، وغُرَّةً لِمافيبَطْنِها] ”پھر رسول اللہ ﷺ نے مقتولہ کی دیت، قاتلہ کے عصبہ کے ذمے لگائی اور اس (مقتولہ) کے پیٹ کے بچے کی دیت ایک غرہ مقرر فرمائی۔“(صحیح مسلم، القسامة، والمحاربین، باب دیة الجنین…، حدیث: ۱۶۸۲) مذکورہ بالا تصریحات سے تمام شبہات ختم ہو جاتے ہیں۔ (3) قتل خطا شبہ عمد میں دیت قاتل کے ذمے ہوتی ہے لیکن اس کی ادائیگی میں اس کے تمام نسبی رشتہ دار شریک ہوں گے۔ قانونی طور پر ان سب کے ذمے قسط وار رقم مقرر کی جائے گی اور وہ ادا کرنے کے پابند ہوں گے کیونکہ قتل خطا میں قاتل قصور وار نہیں ہوتا یا زیادہ قصور وار نہیں ہوتا۔ البتہ عمد کی صورت میں دیت قاتل کے ذمے ہوگی اور وہی ادائیگی کا ذمہ دار ہے کیونکہ وہ مکمل قصور وار ہوتا ہے، لہٰذا اسے ہی سزا بھگتنا ہوگی۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4831
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4832
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4821
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے بنو لحیان کی ایک عورت کے پیٹ کے بچے کے بارے میں جو (چوٹ کی وجہ سے) ساقط ہو کر مر گیا تھا، فیصلہ فرمایا کہ اس کی دیت غرہ ہوگی، یعنی غلام یا لونڈی۔ پھر جس عورت کے لیے (جس کے بچے کی دیت کی بابت) غرہ کا فیصلہ کیا تھا، وہ مر گئی تو رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ اس کی وراثت اس کے بیٹوں اور خاوند کو ملے گی۔ اور اس (قاتلہ) کے ذمے واجب الادا دیت اس (قاتلہ) کے عصبہ کے ذمے ہوگی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں بھی جنین کی دیت غلام یا لونڈی بیان ہوئی ہے، تاہم اگر جنین زندہ پیٹ سے باہر آیا، پھر اسی لگائی گئی چوٹ کے اثر کی وجہ سے فوت ہوگیا تو اس صورت میں بڑے شخص والی مکمل دیت ادا کرنی پڑے گی۔ چوٹ جان بوجھ کر لگائی گئی ہو یا غلطی سے لگی ہو، دونوں صورتوں میں مسئلہ اسی طرح ہے جیسے بیان کیا گیا ہے۔ واللہ أعلم تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبی شرح سنن النسائي لأتبوبي: ۳۶/ ۲۱۹، ۲۲۰) (2) اس حدیث مبارکہ کے الفاظ [إنَّ المرأة التي قضى عليها بالغُرَّةِتوُفِّيَت] سے بعض اہل علم کو یہ وہم ہوا ہے کہ اس سے مراد قاتلہ ہے، اس لیے انھوں نے ان الفاظ کے معنیٰ کیے ہیں: ”پھر جس عورت کے ذمے غرہ (دینے) کا فیصلہ کیا گیا تھا، وہ مر گئی۔“ یہ بات درست نہیں بلکہ حقیقت واقعہ کے خلاف ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مرنے والی قاتلہ نہیں بلکہ وہ تھی جس کا جنین گرایا گیا تھا کیونکہ احادیث صحیحہ میں یہ صراحت موجود کہ مرنے والی قاتلہ نہیں بلکہ دوسری تھی جسے پتھر مار کر اس کا جنین گرا دیا گیا تھا اور اسے قتل کر دیا گیا تھا۔ حدیث کے الفاظ ہیں: [اقْتَتَلَتِامْرَأَتانِمِنهُذَيْلٍ، فَرَمَتْ إحْداهُما الأُخْرى بحَجَرٍ فَقَتَلَتْها وما في بَطْنِها]”ہذیل قبیلے کی دو عورتیں لڑ پڑیں۔ ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر دے مارا اور اسے قتل کر دیا اور اس بچے کو بھی جو اس کے پیٹ میں تھا۔“(صحیح البخاري، الدیات، باب جنین المراة… حدیث: ۶۹۱۰، وصحیح مسلم، القسامة والمحاربین، باب دیة الجنین…، حدیث: ۱۶۸۱ (۳۶)التيقضىعليها بالغُرَّةِ کا مفہوم ہے: التيقضىلها بالغُرَّةِ۔ مطلب یہ کہ علیھا بمعنیٰ لھا ہے۔ صحیح بخاری میں یہ الفاظ ہیں: [ثم ان المراۃ التی قضی لھا بالغرۃ توفیت] دیکھیے: (صحیح البخاري، الفرائض، باب میراث المرأة والزوج مع الولد وغیرہ، حدیث: ۶۷۴۰) بعض اہل علم کو حدیث مبارکہ کے آخری جملے [قضی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بان میراثھا لبنیھا وزوجھا، وان العقل علی عصبتھا] سے یہ وہم لگا ہے کہ مرنے والی قاتلہ ہی ہے۔ اسی کی وراثت کے حق دار اس کے بیٹے اور اس کا خاوند ہیں اور اس کی دیت اس کے عصبہ کے ذمہ ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث سے اس شبہ اور وہم کا کلیتاً ازالہ ہو جاتا ہے۔ اس کے الفاظ اس قدر واضح اور صریح ہیں کہ وہم کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ الفاظ یہ ہیں: [فجَعَل النَّبيُّ ﷺ دِيَةَ المقتولةِ على عَصَبةِ القاتلةِ، وغُرَّةً لِمافيبَطْنِها] ”پھر رسول اللہ ﷺ نے مقتولہ کی دیت، قاتلہ کے عصبہ کے ذمے لگائی اور اس (مقتولہ) کے پیٹ کے بچے کی دیت ایک غرہ مقرر فرمائی۔“(صحیح مسلم، القسامة، والمحاربین، باب دیة الجنین…، حدیث: ۱۶۸۲) مذکورہ بالا تصریحات سے تمام شبہات ختم ہو جاتے ہیں۔ (3) قتل خطا شبہ عمد میں دیت قاتل کے ذمے ہوتی ہے لیکن اس کی ادائیگی میں اس کے تمام نسبی رشتہ دار شریک ہوں گے۔ قانونی طور پر ان سب کے ذمے قسط وار رقم مقرر کی جائے گی اور وہ ادا کرنے کے پابند ہوں گے کیونکہ قتل خطا میں قاتل قصور وار نہیں ہوتا یا زیادہ قصور وار نہیں ہوتا۔ البتہ عمد کی صورت میں دیت قاتل کے ذمے ہوگی اور وہی ادائیگی کا ذمہ دار ہے کیونکہ وہ مکمل قصور وار ہوتا ہے، لہٰذا اسے ہی سزا بھگتنا ہوگی۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی لحیان کی عورت کے جنین (پیٹ میں موجود بچہ) کے بارے میں جو مرا ہوا ساقط ہو گیا تھا ایک «غرہ» یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی کا فیصلہ کیا، پھر وہ عورت جس پر ایک «غرہ» یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی کا حکم ہوا، مر گئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس کی میراث اس کے بیٹوں اور اس کے شوہر کے لیے ہے اور دیت اس کے عصبہ پر ہو گی۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah (ﷺ) ruled that a male or female slave should be given (as Diyah) to a woman of Banu Lihyah whosw child was miscarried and died. Then the woman to whom he had decreed that the slave should be given died, and the Messenger of Allah (ﷺ) ruled that her estate belonged to the children and husband, and that the blood money was to be paid by her 'Asabah.