Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: The Diyah For A Woman's Fetus)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4818.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: قبیلہ ہذیل کی دو عورتیں آپس میں لڑ پڑیں۔ ایک نے دوسری کو پتھر دے مارا۔ نتیجتاً اسے بھی قتل کر دیا اور اس کے پیٹ کے بچے کو بھی۔ وہ (ورثاء) یہ جھگڑا رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ پیٹ کے بچے کی دیت غرہ ہے، یعنی ایک غلام یا لونڈی، نیز اپ نے فیصلہ فرمایا کہ (قاتلہ) عورت کے ذمے واجب الادا دیت اس کے عصبہ بھریں گے۔ اور آپ نے اس (مقتولہ) کی اولاد اور دیگر ورثاء کو اس کا وارث بنایا۔ حضرت حمل بن مالک بن نابغہ ہذلی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں کیسے اس (بچے) کی دیت بھروں جس نے نہ پیا نہ کھایا، نہ بولا نہ چلایا؟ اس جیسا (بچہ) تو ضائع اور لغو (بلا دیت) ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تو کاہنوں میں سے ایک کاہن محسوس ہوتا ہے۔“ (آپ نے یہ بات فرمائی) اس لیے کہ اس نے مسجع کلام کیا تھا۔
تشریح:
”کاہن“ دور جاہلیت میں ہر بت کے ساتھ ایک کاہن بھی ہوتا تھا۔ لوگ علاج وغیرہ کے لیے بھی انھی سے رابطہ کرتے تھے۔ یہ بڑے چالاک وعیار لوگ ہوتے تھے۔ جنوں سے روابط رکھتے تھے۔ ذو معنیٰ کلام کیا کرتے تھے۔ پیش گوئیاں بھی کرتے تھے مگر بڑے محتاط انداز میں تاکہ پیش آمدہ حالات میں مشکل پیش نہ آئے۔ بڑی دلآویز کلام کرتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے مسجع فقرے بولتے تھے جن کو سن کر لوگ مرعوب ہو جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے حضرت حمل بن مالک کو کاہن کہا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4832
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4833
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4822
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: قبیلہ ہذیل کی دو عورتیں آپس میں لڑ پڑیں۔ ایک نے دوسری کو پتھر دے مارا۔ نتیجتاً اسے بھی قتل کر دیا اور اس کے پیٹ کے بچے کو بھی۔ وہ (ورثاء) یہ جھگڑا رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ پیٹ کے بچے کی دیت غرہ ہے، یعنی ایک غلام یا لونڈی، نیز اپ نے فیصلہ فرمایا کہ (قاتلہ) عورت کے ذمے واجب الادا دیت اس کے عصبہ بھریں گے۔ اور آپ نے اس (مقتولہ) کی اولاد اور دیگر ورثاء کو اس کا وارث بنایا۔ حضرت حمل بن مالک بن نابغہ ہذلی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں کیسے اس (بچے) کی دیت بھروں جس نے نہ پیا نہ کھایا، نہ بولا نہ چلایا؟ اس جیسا (بچہ) تو ضائع اور لغو (بلا دیت) ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تو کاہنوں میں سے ایک کاہن محسوس ہوتا ہے۔“ (آپ نے یہ بات فرمائی) اس لیے کہ اس نے مسجع کلام کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
”کاہن“ دور جاہلیت میں ہر بت کے ساتھ ایک کاہن بھی ہوتا تھا۔ لوگ علاج وغیرہ کے لیے بھی انھی سے رابطہ کرتے تھے۔ یہ بڑے چالاک وعیار لوگ ہوتے تھے۔ جنوں سے روابط رکھتے تھے۔ ذو معنیٰ کلام کیا کرتے تھے۔ پیش گوئیاں بھی کرتے تھے مگر بڑے محتاط انداز میں تاکہ پیش آمدہ حالات میں مشکل پیش نہ آئے۔ بڑی دلآویز کلام کرتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے مسجع فقرے بولتے تھے جن کو سن کر لوگ مرعوب ہو جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے حضرت حمل بن مالک کو کاہن کہا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتیں جھگڑ پڑیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر پھینک مارا، اور کوئی ایسی بات کہی جس کا مفہوم یہ تھا کہ وہ عورت مر گئی اور اس کے پیٹ کا بچہ بھی، چنانچہ وہ لوگ جھگڑا لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے فیصلہ کیا: اس کے جنین (پیٹ کے بچہ) کی دیت ایک غرہ ہے یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی۔ اور (قاتل) عورت کی دیت اس کے کنبے کو لوگوں (عصبہ) سے دلائی اور اس عورت کا وارث اس کے بیٹوں اور دوسرے ورثاء کو قرار دیا، تو حمل بن مالک بن نابغہ ہذلی ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! اس کا تاوان کیسے ادا کروں جس نے نہ پیا نہ کھایا، جو نہ بولا نہ چلایا، ایسا خون تو لغو ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ کاہنوں کا بھائی ہے۔“ (یہ بات آپ نے اس کی اس قافیہ دار بات چیت کی وجہ سے جو اس نے کی)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: "Two women of Hudhail had a fight, and one of them threw a rock at the other and killed her and the child in her womb. They referred the dispute to the Messenger of Allah (ﷺ), and the Messenger of Allah ruled that the Diyah for her fetus was a male or female slave, and that the Diyah of the woman be paid by her 'Aqilah (male relatives on the father's side). And he made her children and those who were with them her heirs. Hamal bin Malik bin An-Nabighah Al-Hudhali said: "O Messenger of Allah, how can I pay blood money for one who neither ate nor drank, or shouted such a one should be over looked." The Messenger of Allah (ﷺ) said: "This is one of the brothers of the soothsayers" because of the rhyming way in which he spoke.