قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن النسائي: كِتَابُ الْقَسَامَةِ (بَابُ دِيَةِ جَنِينِ الْمَرْأَةِ)

حکم : صحیح

ترجمة الباب:

4818 .   أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ قَالَ: اقْتَتَلَتِ امْرَأَتَانِ مِنْ هُذَيْلٍ، فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِحَجَرٍ - وَذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا - فَقَتَلَتْهَا وَمَا فِي بَطْنِهَا، فَاخْتَصَمُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ دِيَةَ جَنِينِهَا غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ وَلِيدَةٌ، وَقَضَى بِدِيَةِ الْمَرْأَةِ عَلَى عَاقِلَتِهَا وَوَرَّثَهَا وَلَدَهَا وَمَنْ مَعَهُمْ، فَقَالَ حَمَلُ بْنُ مَالِكِ بْنِ النَّابِغَةِ الْهُذَلِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ أُغَرَّمُ مَنْ لَا شَرِبَ، وَلَا أَكَلْ، وَلَا نَطَقَ، وَلَا اسْتَهَلَّ، فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلَّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا هَذَا مِنْ إِخْوَانِ الْكُهَّانِ مِنْ أَجْلِ سَجْعِهِ الَّذِي سَجَعَ»

سنن نسائی:

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل

 

تمہید کتاب  (

باب: عورت کے پیٹ کے بچے کی دیت

)
 

مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)

4818.   حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: قبیلہ ہذیل کی دو عورتیں آپس میں لڑ پڑیں۔ ایک نے دوسری کو پتھر دے مارا۔ نتیجتاً اسے بھی قتل کر دیا اور اس کے پیٹ کے بچے کو بھی۔ وہ (ورثاء) یہ جھگڑا رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ پیٹ کے بچے کی دیت غرہ ہے، یعنی ایک غلام یا لونڈی، نیز اپ نے فیصلہ فرمایا کہ (قاتلہ) عورت کے ذمے واجب الادا دیت اس کے عصبہ بھریں گے۔ اور آپ نے اس (مقتولہ) کی اولاد اور دیگر ورثاء کو اس کا وارث بنایا۔ حضرت حمل بن مالک بن نابغہ ہذلی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں کیسے اس (بچے) کی دیت بھروں جس نے نہ پیا نہ کھایا، نہ بولا نہ چلایا؟ اس جیسا (بچہ) تو ضائع اور لغو (بلا دیت) ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تو کاہنوں میں سے ایک کاہن محسوس ہوتا ہے۔“ (آپ نے یہ بات فرمائی) اس لیے کہ اس نے مسجع کلام کیا تھا۔