Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: The Seriousness of Theft)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4873.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ چور پر لعنت کرے وہ انڈا چرا لیتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔ رسی چرا لیتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔“
تشریح:
(1) ”لعنت کرے“ کہ وہ معمولی چیزوں کے بدلے اپنے قیمتی ہاتھ جس کا کوئی بدل نہیں کٹوا بیٹھتا ہے۔ دنیا میں اس سے بڑا نقصان کیا ہوگا؟ ہاتھ سے محرومی، زندگی بھر کی معذوری، بدنامی اور رسوائی جو مرتے دم تک جدا نہ ہوگی اور ان سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور ایمان سے محرومی۔ اور لعنت کیا ہوتی ہے؟ کسی شخص کا نام لے کر اس پر لعنت ڈالنا جائز نہیں، خواہ وہ کافر ہی ہو الا یہ کہ وہ کفر پر مرے یا اس کا کفر قطعی ہو۔ البتہ کسی کبیرہ گناہ کا ذکر کر کے اس کے فاعل پر (بغیر کسی کا نام لیے یا کسی کو معین کیے) لعنت ڈالی جا سکتی ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ لعنت سب سے بڑی بددعا ہے۔ مراد اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محرومی ہے، اسی لیے یہ کسی مومن کے بارے میں تو ہو ہی نہیں سکتی۔ کافر بھی ممکن ہے کسی وقت مسلمان ہو جائے، لہذا اس کے لیے بھی مناسب نہیں۔ (2) ’”انڈا، رسی“ کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے فرمایا۔ مراد معمولی چیز ہے۔ ظاہر ہے دینا کا مال کتنا بھی قیمتی ہو انسانی ہاتھ اور انسانی شرف کے مقابلے میں معمولی ہی ہے ورنہ انڈا، رسی پر ہاتھ نہیں کاٹا جاسکتا بلکہ ہاتھ کاٹنے کے لیے چوری کی ایک حد مقرر کی گئی ہے جس کی تفصیل آئندہ آئے گی۔ إن شاء اللہ بعض حضرات نے بیضہ کے معنیٰ خود کیے ہیں جو لڑائی کے وقت سر پر پہنا جاتا ہے۔ وہ قیمتی ہوتا ہے۔ اس پر ہاتھ کاٹا جاسکتا ہے اور رسی سے مراد کشتی کے رسے لیے ہیں جو بہت موٹے ہوتے ہیں۔ قیمت بھی بہت ہوتی ہے معنیٰ تو یہ بھی بن سکتے ہیں مگر اس سے کلام کی بلاغت ختم ہو جاتی ہے۔ کلام کا مقصد تو چوری کی مذمت ہے نہ کہ ہاتھ کاٹنے کی تفصیل بیان کرنا ۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4887
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4888
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4877
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ چور پر لعنت کرے وہ انڈا چرا لیتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔ رسی چرا لیتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”لعنت کرے“ کہ وہ معمولی چیزوں کے بدلے اپنے قیمتی ہاتھ جس کا کوئی بدل نہیں کٹوا بیٹھتا ہے۔ دنیا میں اس سے بڑا نقصان کیا ہوگا؟ ہاتھ سے محرومی، زندگی بھر کی معذوری، بدنامی اور رسوائی جو مرتے دم تک جدا نہ ہوگی اور ان سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور ایمان سے محرومی۔ اور لعنت کیا ہوتی ہے؟ کسی شخص کا نام لے کر اس پر لعنت ڈالنا جائز نہیں، خواہ وہ کافر ہی ہو الا یہ کہ وہ کفر پر مرے یا اس کا کفر قطعی ہو۔ البتہ کسی کبیرہ گناہ کا ذکر کر کے اس کے فاعل پر (بغیر کسی کا نام لیے یا کسی کو معین کیے) لعنت ڈالی جا سکتی ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ لعنت سب سے بڑی بددعا ہے۔ مراد اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محرومی ہے، اسی لیے یہ کسی مومن کے بارے میں تو ہو ہی نہیں سکتی۔ کافر بھی ممکن ہے کسی وقت مسلمان ہو جائے، لہذا اس کے لیے بھی مناسب نہیں۔ (2) ’”انڈا، رسی“ کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے فرمایا۔ مراد معمولی چیز ہے۔ ظاہر ہے دینا کا مال کتنا بھی قیمتی ہو انسانی ہاتھ اور انسانی شرف کے مقابلے میں معمولی ہی ہے ورنہ انڈا، رسی پر ہاتھ نہیں کاٹا جاسکتا بلکہ ہاتھ کاٹنے کے لیے چوری کی ایک حد مقرر کی گئی ہے جس کی تفصیل آئندہ آئے گی۔ إن شاء اللہ بعض حضرات نے بیضہ کے معنیٰ خود کیے ہیں جو لڑائی کے وقت سر پر پہنا جاتا ہے۔ وہ قیمتی ہوتا ہے۔ اس پر ہاتھ کاٹا جاسکتا ہے اور رسی سے مراد کشتی کے رسے لیے ہیں جو بہت موٹے ہوتے ہیں۔ قیمت بھی بہت ہوتی ہے معنیٰ تو یہ بھی بن سکتے ہیں مگر اس سے کلام کی بلاغت ختم ہو جاتی ہے۔ کلام کا مقصد تو چوری کی مذمت ہے نہ کہ ہاتھ کاٹنے کی تفصیل بیان کرنا ۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی لعنت نازل ہو چوری کرنے والے پر، انڈا چراتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور رسی چراتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی تھوڑے سے مال کے لیے ہاتھ کٹنا قبول کرتا ہے اور اللہ کی دی ہوئی اس نعمت کی قدر نہیں کرتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah, may Allah be pleased with him, said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said; 'Allah curses the thief who steals an egg and had his hand cut off, and who steals a rope and has his hand cut off.